- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

‘دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی ضروری ہے’

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت مولانا عبدالحمید نے دینی مدارس میں رائج درس نظامی میں مناسب تبدیلی کو وقت کی ضرورت قرار دی۔

سنی آن لائن کے مطابق، صدر دارالعلوم زاہدان نے جامعہ ہذا کے شعبہ تخصصات کی افتتاحی مجلس میں مروجہ درس نظامی کو ناقص اور ’تبدیلی طلب‘ یاد کرتے ہوئے کہا: مروجہ درس نظامی میں کچھ ایسے مسائل پائے جاتے ہیں جو وقت کی ضرورت نہیں ہیں۔ بعض کتابوں کو تلخیص کرکے زائد مباحث کو نصاب سے نکالنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: عصری جامعات اور کالجوں میں کتاب سمجھانے اور پڑھانے کے بجائے علم ہی پڑھایا جاتاہے۔ لیکن مدارس میں محنت دونوں پر ہوتی ہے۔ کتاب کی عبارت سمجھانے سے طالب علم کی کتب فہمی کی صلاحیت بڑھ کر مزید استعداد پیدا ہوگی۔ ہمارے اکابر نے اس پر بہت زور دیا ہے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: شعبہ تخصصات میں یونیورسٹیز کی طرح کتاب پڑھانے کے بجائے علم پڑھایاجائے۔ تدریس کی اساس کتاب نہ ہو، علمی مقالوں سے مدد لیکر متعلقہ علوم کو پڑھایا جائے۔ طلبہ کی پوری توجہ اس شعبے میں کتابوں پر نہیں ہونی چاہیے۔

شعبہ تخصصات کے اساتذہ و طلبہ سے خطاب جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا: اسلام کی خدمت اور دفاع نئی زبان میں ہونی چاہیے۔ دعوت و تبلیغ ’بلسان قومہ‘ میں ہونی چاہیے؛ ہماری قوم ماضی کے لوگ نہیں ہیں، ہمارے معاصرین ہیں۔ ہمیں ان ہی کی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: آج پرانے زمانے کے خوارج و معتزلہ کا کوئی وجود نہیں ہے، اعتزال و خوارج نئے روپ میں سامنے آچکے ہیں۔ اسی لیے علم الکلام اور عقائد کی کتابوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کی دنیا کی تعابیر سے ہمیں واقفیت حاصل ہونی چاہیے۔ مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و اساتذہ کے شبہات کو سمجھیں، مغربی دانشوروں، سوشلسٹ اور کمیونسٹ سمیت تمام انتہاپسند گروہوں کی افکار و شبہات کو جان لیں اور علمی انداز میں ان کا جواب پیش کریں۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: ہمارے مدارس میں ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ مذاہب اربعہ کی فقہ، شیعیت اور دیگر ادیان و مذاہب کے بارے میں کوئی تخصص نہیں ہے اور عقائد و کلام میں پرانے مسائل پڑھائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا: اتحاد و بھائی چارہ کا خیال رکھتے ہوئے دیگر ادیان و مذاہب کے بارے میں ہمیں صحیح معلومات حاصل کرنا چاہیے، خاص کر اہل تشیع کی فقہ اور عقائد کے بارے میں جو ہمارے پڑوسی ہیں۔