- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

توبہ کا مفہوم، اقسام و اہمیت اور طریقہ کار

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’توبہ انسان کی پہلی، درمیانی اور آخری منزل ہے، بندہ سالک اُسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتا، مدت تک توبہ اور رجوع کی حالت میں رہتا ہے۔ اگر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر اختیار کرتا ہے تو توبہ اس کا رفیق ہوتا ہے جہاں وہ جائے، پس توبہ بندہ کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، بلکہ ابتدا کی طرح موت کے وقت اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (مدارج السالکین، صفحہ ۱۴۱)
توبہ دل کا نور ہے، نفس کی پاکیزگی ہے، توبہ انسان کو اس حقیقی زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ: اے غافل انسان! آؤ! قبل اس کے کہ زندگی کا قافلہ کوچ کرجائے اور موت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہو، توبہ کرنے والوں کی ہم نشینی اختیار کرلیں، کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قبر محض ایک گڑھا نہیں، بلکہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ (کما رواہ الترمذی فی سننہ عن ابی ھریرۃ، کتاب صفۃ القیامۃ: ۴؍۶۳۹۔۶۴۰، رقم الحدیث: ۲۴۶۰)
پس جس کی ابتدا توبہ اور رجوع سے روشن اور چمکدار ہوگی، اس کی انتہا بھی نور مغفرت سے منور ہوگی، جو اللہ کی طرف رجوع اور توبہ میں اخلاص اور سچائی کو اختیار کرے گا، اللہ تعالی اُسے خاتمہ بالخیر کی توفیق عطا فرمائیں گے۔

توبہ سب کے لیے
توبہ صرف گنہگاروں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ سب ایمان والوں کو توبہ کا حکم دیا گیا ہے، اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے:
«وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ » (النور: ۳۱)
ترجمہ:’’ اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو!تا کہ تم بھلائی پاؤ‘‘۔ (ترجمہ از شیخ الہند)
صحیح مسلم میں حضرت مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو!گناہوں سے باز آجاؤ اور اللہ کی طرف رجوع کرلو اور میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم، باب استحباب الاستغفار و الاستکثار منہ، رقم: ۷۰۳۴)
غور فرمائیں کہ جب اللہ تعالی کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اولین و آخرین کے سردار ہیں، بخشے بخشائے ہوئے ہیں، تمام جنتیوں کے سردار ہیں، مقام محمود کے مالک ہیں، وہ ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالی کی طرف توبہ و استغفار کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تو ہم گنہگار اور خطاکار امتیوں کو کس قدر توبہ و استغفار کا اور اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کرنا چاہیے!۔

گناہوں سے فوری توبہ کی ضرورت
آج کے اس پر آشوب ماحول میں تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ بغیر کسی استثنا کے فوری توبہ اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں۔ موت سے پہلے موقع ہے، اسے ضائع نہ کریں، اللہ رحیم و کریم بھی اپنے بندوں کے توبہ کا انتظار فرماتے ہیں اور ان کی توبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بندہ توبہ کرے اور وہ قبول فرمائے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے:
«وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ » (النساء: ۲۷)

گناہ کرکے توبہ نہ کرنے کا انجام
یہ یاد رکھیں کہ گناہ کا صدور ہونا ایمان کے منافی نہیں۔ ایمان والے سوائے انبیاء علیہم السلام کے کوئی بھی معصوم نہیں اور عام انسانوں سے گناہ کا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ گناہ کا ہوجانا اور بھول چوک تو انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ یہ اتنا خطرناک اور ہلاکت خیز نہیں، جتنا گناہ ہوجانے کے بعد توبہ نہ کرنا اور اس سے غفلت اختیار کرنا ہلاکت آمیز اور تباہ کن ہے۔ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’والذی نفسی بیدہ لو لم تذنبوا لذھب اللہ بکم و لجاء بقوم یذنبون فیستغفرون اللہ فیغفر لھم‘‘۔ (صحیح مسلم، باب سقوط الذنوب بالاستغفار، رقم : ۷۱۴۱)
ترجمہ: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم گناہوں کا ارتکاب نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں ختم کرکے ایسی قوم کو لے آئیں گے جو گناہ کرے گی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے گی تو اللہ ان کی مغفرت فرمادیں گے۔
سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’کل بنی آدم خطاء و خیر الخطائین التوابون‘‘۔ (سنن الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، رقم : ۲۴۹۹)
ترجمہ: ’’تمام بنی آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ بندہ کا توبہ کرنا اور اللہ کی طرف رجوع کرنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ اسے اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے شمار کیا جائے گا، امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’من لم یتب اذا اصبح و اذا امسی فھو من الظالمین‘‘۔
ترجمہ: ’’جو شخص (ہر روز) صبح و شام توبہ نہیں کرتا وہ ظالمین میں سے ہے‘‘۔ (تفسیر الثعلبی: ۱؍۱۱۹)
طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے تمام حقوق کی ادائیگی بہت بڑی بات ہے، مگر تم توبہ کی حالت میں صبح و شام کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸؍۷۸، التفسیر المنیر: ۱۳؍۲۵۶)
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس نے بغیر توبہ کیے صبح و شام کی وہ خطرے میں ہے، اُسے یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں بغیر توبہ کے اللہ سے ملاقات نہ ہوجائے اور اللہ اس کا شمار ظالموں میں نہ کردیں۔‘‘ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» (الحجرات: ۱۱)۔۔۔ ’’اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہیں بے انصاف‘‘۔ (لطائف المعارف، ص: ۴۵۸)
ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے آیت ’’ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‘‘ میں بندوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں: ۱: توبہ کرنے والے۔ ۲: ظالم، اور یقیناًان دو کے علاوہ کوئی تیسری قسم نہیں، اور توبہ نہ کرنے والوں کو اللہ نے ظالم شمار کیا ہے۔ (مدارج السالکین، صفحہ: ۱۴۲)

معصیت کے نقصانات
حضرت ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بندے کو چاہیے کہ اسے معلوم ہو کہ گناہ و معاصی نقصان دہ اور ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں، جس طرح مختلف قسم کے زہر سے بدن انسانی متاثر ہوتا ہے اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے، ایسے ہی گناہ سے انسانی دل متاثر ہوتا ہے۔ دنیا و آخرت میں جتنے شرور و بیماریاں ہیں، ان سب کا سبب صرف گناہ اور معاصی ہیں۔ (الداء و الدواء، ص: ۶۰)
کسی اللہ والے کا قول ہے:
’’لاتنظر الی صغر الخطیءۃ و لکن انظر الی من عصیتَ‘‘۔
ترجمہ: ’’تم گناہ کے چھوٹے ہونے کو مت دیکھو، بلکہ تم جس کی معصیت کررہے ہو اس کی عظمت کو پیش نظر رکھو‘‘۔ (أخرجہ احمد فی الزھد، ص: ۴۶۰، تھذیب الداء و الدواء: ۱؍۵۴)
حضرت بشر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لو تفکر الناس فی عظمۃ اللہ ما عصوا اللہ عزوجل‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲؍۱۸۵)
’’ترجمہ: ’’اگر اللہ کی عظمت لوگوں کے پیش نظر رہے تو وہ اللہ کی نافرمانی سے باز آجائیں گے‘‘۔

توبہ کی تعریف
گناہوں اور معصیت سے جس توبہ کا ہم سے بار بار مطالبہ کیا گیا ہے، اس کی حقیقت سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر توبہ کی حقیقت نہ پائی جارہی ہو تو صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں۔
لغت میں توبہ لوٹنے اور رجوع کرنے کو کہتے ہیں، علامہ رازی رحمہ اللہ نے ’’مختار الصحاح، صفحہ: ۵۹‘‘ میں اور علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ نے ’’القاموس المحیط، صفحہ: ۵۹‘‘ میں لکھا ہے: ’’تاب الی اللہ‘‘ اور ’’توبۃ‘‘ گناہ اور معصیت سے لوٹنے کو کہا جاتا ہے۔ شریعت میں اللہ کی معصیت و نافرمانی کو ترک کرکے اس کی اطاعت اختیار کرنے کو توبہ کہتے ہیں۔

توبہ کی حقیقت اور مراتب
سچی توبہ کے لیے علما نے کچھ شرائط ذکر کی ہیں، چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ھی الندم بالقلب، و ترک المعصیۃ فی الحال، و العزم علی الا یعود الی مثلھا، و ان یکون ذلک حیاء من اللہ‘‘۔ (تفسیر قرطبی، سورۃ النساء: ۵؍۹۱)
ترجمہ: ’’(یقیناًسچی توبہ) وہ یہ ہے کہ (اس میں یہ درج ذیل چیزیں پائی جائیں): ۱: گناہ پر دل سے ندامت ہو، ۲: فوری طور پر گناہ کو ترک کرے، ۳: اور پکا ارادہ کرے کہ دوبارہ اس معصیت کا ارتکاب نہیں کرے گا، ۴: اور یہ سب کچھ ’’اللہ کی حیا‘‘ کی وجہ سے ہو‘‘۔

مراتب توبہ
توبہ کے تین مراتب ہیں: ۱: توبہ کا سب سے بڑا اور لازمی درجہ ترک کفر اور قبول ایمان ہے۔ ۲: اس کے بعد دوسرا بڑا درجہ کبائر (بڑے گناہوں) سے توبہ کا ہے۔ ۳: تیسرا مرتبہ صغیرہ گناہوں سے توبہ کا ہے۔

توبہ کی اقسام
توبہ کی دو قسمیں ہیں: ۱: واجب، ۲: مستحب۔ کسی بھی مامور کے ترک اور محظور و ممنوع کام کے کرنے سے توبہ کرنا فی الفور واجب اور ضروری ہے اور یہ تمام مکلف اہل ایمان پر واجب ہے۔ مستحبات کے ترک اور مکروہات کے ارتکاب سے توبہ کرنا مستحب ہے۔ (جامع الرسائل لابن تیمیۃ، رسالۃ فی التوبۃ: ۱؍۲۲۷)

سچی اور صحیح توبہ کی شرائط
۱: فوری طور سے معصیت و گناہ سے باز آنا۔
۲: تمام سابقہ گناہوں پر دل سے ندامت ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’الندم التوبۃ‘‘، یعنی ندامت توبہ ہے۔ (مسند ابی یعلی، مسند عبداللہ بن مسعود، رقم: ۴۹۶۹، ۵۰۸۱، ۵۱۲۹) ندامت ہی توبہ کا رکن اعظم ہے۔
۳: دوبارہ گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم۔ (تفسیر السراج المنیر: ۲؍۶۸)
۴: لوگوں کے حقوق کی ادائیگی، یا ان سے معاف کرانا۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸؍۱۶۹، تفسیر الخازن: ۷؍۱۲۲)
ریاض الصالحین، صفحہ: ۱۲ میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر معصیت کا تعلق آدمی سے ہو تو اس کے لیے چار شرائط ہیں، تین وہ جن کا اوپر تذکرہ ہوا اور چوتھی یہ کہ لوگوں کے حقوق سے خود کو بری کرے، اگر کسی کا مال یا اس طرح کی کوئی اور چیز لی ہے تو واپس لوٹا دے، اگر کسی پر جھوٹی تہمت و غیرہ لگائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے یا س کو ’’حد‘‘ پر قدرت دے اور اگر کسی کی غیبت کی ہے تو اس کی بھی معافی مانگے۔
۵: توبہ نصوح اور سچی توبہ کی پانچویں شرط یہ ہے کہ بندہ اخلاص کو اختیار کرے، یعنی اللہ کے عذاب کے خوف و ڈر اور اس کی مغفرت و ثواب کی امید پر گناہوں کو ترک کرے۔
۶: چھٹی شرط یہ ہے کہ توبہ کا عمل ’’توبہ کے وقت‘‘ میں ہو۔

توبہ نصوح کسے کہتے ہیں؟
اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کو ’’توبہ نصوح‘‘ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا » (التحریم: ۸)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ‘‘۔ (ترجمہ از شیخ الہند)
توبہ نصوح سے کیا مراد ہے؟ آیئے! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، سلف صالحین اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں، ’’نصوحا‘‘ النصح سے ماخوذ ہے، عربی میں سلائی کرنے کو کہتے ہیں، گویا توبہ گناہوں کی پھٹن کو رفو کرکے ایسے ختم کردیتی ہے، جیسا کہ درزی اور رفو گر کسی پھٹے ہوئے کپڑے کو سلائی و رفو کرکے اس کے پھٹن کو بالکل ختم کردیتا ہے۔ توبہ نصوح کو سچی، خالص اور محکم و پختہ توبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ’’نصوحا‘‘ کو نون کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے، ایسی توبہ کو کہا جاتا ہے کہ جس سے آدمی نصیحت حاصل کرے۔ (تفسیر السمعانی: ۵؍۴۷۷)
امام فراء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت میں ’’نصوحا‘‘ توبہ کی صفت ہے، معنی یہ ہے کہ وہ توبہ اپنے کرنے والے کو اس بات کی فہمائش کرے کہ ان گناہوں کی طرف لوٹنے کو ترک کرے جن سے اس نے توبہ کی ہے، اور وہ ایسی سچی اور نصیحت آمیز توبہ ہے کہ کرنے والے اپنے نفس کو گناہوں کی گندگی سے پاک کرتے ہیں۔ (تفسیر الرازی، سورۃ التحریم: ۱؍۴۴۹۰)
امام قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اصلِ توبہ نصوح خالص ہونا ہے، ملاوٹ سے پاک شہد کو ’’عسل ناصح‘‘ کہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ ’’نصاحۃ‘‘ بمعنی سلائی سے ماخوذ ہے، اس سے اخذ کی دو وجہیں ہیں: ۱: اس توبہ نے اس کی اطاعت الہی کو محکم و پختہ کیا ہے، جیسا کہ درزی سلائی سے کپڑے کو محکم و پختہ کردیتا ہے، ۲: اس توبہ نے اسے اللہ کے اولیاء کے ساتھ جوڑا، جمع کیا اور ملایا ہے، جیسا کہ درزی سلائی کے ذریعہ کپڑے کے مختلف حصوں کو آپ میں ملاتا اور جوڑ دیتا ہے۔ (تفسیر القرطبی: ۱۸؍۱۹۹)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سوال پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے ہوئے گناہ سے نادم ہوکر اللہ کی طرف یوں بھاگے کہ دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹے، یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔ (الدر المنثور: ۶؍۲۸۴)
حضرت عمر ، ابی بن کعب اور معاذ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: ’’التوبۃ النصوح ان یتوب ثم لایعود الی الذنب کما لایعود اللبن الی الضرع‘‘ ’توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ توبہ کرے اور پھر اس گناہ کی طرف دوبارہ نہ لوٹے، جس طرح دودھ تھنوں میں لوٹ کر واپس نہیں جاتا۔ (تفسیر القرطبی، سورۃ التحریم: ۱۸؍۱۹۷)
حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ بندہ اپنی سابقہ گناہ آلود زندگی پر نادم ہو، دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنے کے عزم کے ساتھ۔ کلبی رحمہ اللہ نے کہا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے دل سے ندامت اختیار کرے اور اپنے بدن کو قابو میں رکھے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ سچی نصیحت آمیز توبہ کو نصوح کہتے ہیں۔ (تفسیر الخازن: ۷؍۱۲۱)
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’نصوح‘‘ مقبول توبہ کو کہتے ہیں، اور توبہ اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی ہے، جب تک اس میں تین چیزیں نہ پائی جائیں: ۱: عدم قبولیت کا خوف ہو۔ ۲: قبولیت کی امید ہو۔ ۳: طاعات پر ثابت قدمی ہو۔
محمد بن سعید قرظی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: توبہ نصوح چار چیزوں کے پائے جانے کا نام ہے: ۱: زبان سے استغفار کرنا۔ ۲: بدن سے گناہوں کو اکھیڑ پھینکنا۔ ۳: دل سے دوبارہ لوٹنے کے ترک کا اظہار کرنا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے۔ (البحر المدید: ۸؍۱۲۷)۔ ۴: برے دوستوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنا۔ ۵: ذون النون رحمہ اللہ نے کہا: اہل خیر کی صحبت اختیار کرنا۔ (تفسیر الخازن: ۷؍۱۲۲)
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چار چیزیں توبہ نصوح کی علامت ہیں: ۱: ’’القلّۃ‘‘ یعنی گناہوں کو زائل کرنا۔ ۲: ’’العلۃ‘‘ یعنی اللہ کی یاد سے دل بہلانا یا تشویش میں مبتلا ہونا یعنی نادم ہونا۔ ۳: ’’الذلۃ‘‘ یعنی انکساری اور تابعداری اختیار کرنا۔ ۴: ’’الغربۃ‘‘ یعنی گناہوں سے دوری و جدائی اختیار کرنا۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: (توبہ کے بعد) گناہ اس کی آنکھوں میں کھٹکے، گویا وہ اُسے برابر دشمنی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔
ابوبکر واسطی رحمہ اللہ نے فرمایا: توبہ نصوح (خالص) توب کا نام ہے، نہ کہ عقد معاوضہ کا، اس لیے کہ جس نے دنیا میں گناہ کیا اپنے نفس کی سہولت اور مفاد کی خاطر اور پھر توبہ کی اسی نفس کی سہولت کے پیش نظر تو اس کی توبہ اپنے نفس کے لیے ہوگی، نہ کہ اللہ کے لیے ۔ (تفسیر الثعلبی: ۹؍۳۵۰)
ابوبکر مصری رحمہ اللہ نے فرمایا: توبہ نصوح مظالم کے لوٹانے یعنی حقوق والوں کے حقوق ادا کرنا، دعویداروں سے حقوق معاف کروانا، اور طاعات پر مداومت کرنے کو کہتے ہیں۔
رابعہ بصریہ رحمہا اللہ نے کہا: ایسی توبہ جس میں گناہ کی طرف واپس لوٹنے کا خیال نہ ہو۔ ذوالنون مصری رحمہ اللہ نے کہا: توبہ نصوح کی تین علامتیں ہیں: ۱: قلتِ کلام۔ ۲: قلتِ طعام۔ ۳: قلتِ منام۔
شقیق بلخی رحمہ اللہ نے کہا کہ: توبہ نصوح کرنے والا بکثرت اپنے نفس پر ملامت کرے اور ندامت اس سے کبھی جدا نہ ہو، تا کہ وہ گناہوں کی آفتوں سے سلامتی کے ساتھ نجات پاسکے۔
سری سقطی رحمہ اللہ نے کہا کہ: توبہ نصوح ایمان والوں کو اصلاح نفس کی فہمائش کیے بغیر نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ جس کی توبہ درست قرار پائی تو وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ سب لوگ اس کی طرح توبہ نصوح کرنے والے ہوں۔ (تفسیر الثعلبی: ۹؍۳۵۰)
جنید بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا: توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ گناہوں کو ایسے بھول جائے کہ پھر ان کا تذکرہ بھی نہ کرے، کیوں کہ جس کی توبہ درست قرار پاتی ہے وہ اللہ تعالی سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور جس نے اللہ تعالی سے محبت کی وہ اللہ کے ماسوا کو بھول گیا۔
سھل تستری رحمہ اللہ نے فرمایا: توبہ نصوح اہل سنت و الجماعت کی توبہ کا نام ہے، اس لیے کہ بدعتی کی کوئی توبہ نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ اللہ نے ہر صاحب بدعت کو توبہ کرنے سے محجوب کردیا ہے۔
فتح موصلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اس کی تین علامتیں ہیں: ۱: نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنا۔ ۲: بکثرت رونا۔ ۳: بھوک اور پیاس کی مشقت کو برداشت کرنا، یعنی قلتِ طعام و شراب۔ (الکشف و البیان: ۹؍۳۵۱)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے توبہ نصوح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آدمی برے عمل سے توبہ کرے اور پھر کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہ جائے۔
حضرت حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: توبہ نصوح یہ ہے کہ تو گناہ سے ویسے ہی نفرت کر جیسے تو نے اس سے محبت کی اور جب تجھے یا د آئے تو اس سے توبہ و استغفار کر۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸؍۱۶۸)
ابوبکر وراق رحمہ اللہ نے کہا: توبہ نصوح یہ ہے کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوجائے، جیسا کہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں نے توبہ کی تھی۔ (تفسیر القرطبی: ۸؍۲۸۷)
ابوعبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: دس چیزوں کا نام توبہ نصوح ہے: ۱: جہل سے نکلنا، ۲: اپنے فعل پر نام ہونا، ۳: خواہشات سے دوری اختیار کرنا، ۴: سوال کیے جانے والے نفس کی پکڑ کایقین، ۵: ناجائز معاملات کی تلافی کرنا، ۶: ٹوٹے ہوئے رشتوں کا جوڑنا، ۷: جھوٹ کو ساقط کرنا، ۸: برے دوست کو چھوڑنا، ۹: معصیت سے خلوت اختیار کرنا، ۱۰: غفلت کے طریق سے عدول کرنا۔ (حقائق التفسیر للسلمی: ۲؍۳۳۷)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: توبہ نصوح سے مراد صاف دل کی توبہ ہے، وہ یہ ہے کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے، اگر توبہ کے بعد انہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی، رزقنا اللہ منھا حظا وافرا بفضلہ و عونہ و ھو علی کل شئ قدیر۔ (تفسیر عثمانی، سورۃ التحریم: ۸)

باعتبار وقت و زمانہ کے توبہ کی اقسام
باعتبار وقت و زمانہ کے توبہ کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ ہر انسان اپنی زندگی میں موت کی ہچکچاہٹ سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اس لیے کہ سانسیں اکھڑنے کے بعد کی جانے والی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
«وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا» (النساء: ۱۸)
ترجمہ: ’’اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کیے جاتے ہیں برے کام، یہاں تک کہ جب سامنے آجائے ان میں سے کسی کی موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب، اور نہ ایسوں کی توبہ جو مرتے ہیں حالت کفر میں، ان کے لیے ہم نے تیار کیا ہے عذاب دردناک۔‘‘ (ترجمہ از شیخ الہند)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’انّ اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، رقم: ۳۵۳۷)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس کی روح گلے تک نہ پہنچے (یعنی جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑ جائیں)‘‘۔
توبہ کی دوسری قسم وقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ تمام مخلوق کی توبہ اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہونے لگے اور جب سورج مغرب سے طلوع ہونے لگ جائے تو پھر اس وقت کسی کی بھی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من تاب قبل ان تطلع الشمس من مغربھا تاب اللہ علیہ‘‘۔ یعنی ’’جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کی، اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول فرمائیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء، رقم: ۶۸۶۱)

توفیق توبہ کے اعتبار سے لوگوں کی قسمیں
اللہ تعالی کی طرف سے توبہ کی توفیق ملنے کے اعتبار سے لوگوں کی مختلف قسمیں بنتی ہیں:
۱: ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جن کو زندگی بھر سچی توبہ کی توفیق نہیں ملتی، ان کی تمام عمر سنِ شعور سے لے کر موت تک پورا عرصہ گناہوں اور معصیت میں صَرف ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کی موت آجاتی ہے، یہ بدبخت لوگوں کی حالت ہے۔
۲: ان سے قبیح اور برے وہ لوگ ہیں جن کو ابتدا سے لے کر آخر تک تمام عمر نیک اعمال کی توفیق ملتی رہی، پھر آخری وقت میں کسی برے عمل میں مبتلا ہوجائیں، یہاں تک کہ وہ اسی برے عمل کو کرتے ہوئے مرجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ اہل جنت والے اعمال اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر تقدیرغالب آجاتی ہے اور وہ جہنمی لوگوں والا کوئی عمل اختیار کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: و اذ قال ربل للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ، رقم: ۳۳۳۲)
۳: ایک تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنا کل متاع عزیز اور ساری زندگی غفلت و دھوکے میں گزار دیتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں کسی عمل صالح کی توفیق مل جاتی ہے اور وہ اس پر اتفاق کرجاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو عمر بھر جہنمی لوگوں والے اعمال کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ اہلِ جنت جیسا عمل اختیار کرکے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ (حوالہ سابق)
یہ بات واضح ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے، اعتبار خیر یا شر پر خاتمے کا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا معاملہ فرماتے ہیں تو اسے کسی نیک عمل کی توفیق عنایت فرما دیتے ہیں، پھر اسی پر اس کی روح قبض کرلیتے ہیں۔ (سنن الترمذی، کتاب القدر، رقم: ۲۱۴۲)
۴: ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اور پل پل اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں، پھر موت سے پہلے ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آن پہنچا ہے تو وہ اس ملاقات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں اور ایسا زادِ راہ و توشہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملاقات کے شایان شان ہو۔ یہ لوگوں کی سب سے بہترین اشرف و اعلیٰ قسم ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر (اذا جاء نصر اللہ و الفتح) (النصر:۱) نازل ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے پردہ کرنے کے بارے میں اشارہ فرمایا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کوششیں آخرت میں کام آنے والے اعمال میں صرف کرنے لگے (جیسا کہ نبوت ملنے کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا)
(الدر المنثور، سورۃ النصر: ۱۵؍۷۲۲۔۷۲۳۔ تفسیر ابن کثیر: ۶؍۵۶۲)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات کے آخری لمحات میں اٹھتے، بیٹھتے، آتے جاتے ہر وقت ’’سبحان اللہ و بحمدہ استغفراللہ و اتوب الیہ‘‘ کہا کرتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کثرت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نصر تلاوت فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر، النصر: ۶؍۵۶۴۔ تفسیر القرطبی، النصر: ۱۰؍۱۶۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک دفعہ قرآن مجید سناتے تھے، وصال والے سال بیس دن اعتکاف کیا اور دو دفعہ قرآن پاک کا دور فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت قریب ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع، آخری حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر ارشاد فرمایا: لوگو! مجھ سے حج کے مسائل سیکھو، شاید میں اس سال کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں، یا آپ سے نہ مل پاؤں۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم: ۳۱۳۷)
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیا اور مدینہ واپس آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد دنیا سے پردہ فرمالیا۔ (تفسیر القرطبی: ۲۰؍۱۶۷)

گناہوں سے توبہ کا طریقہ
علماء کرام نے فرمایا کہ بندہ جن گناہوں میں مبتلا تھا، ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے؟ اگر اللہ تعالی کے حقوق میں سے کوئی حق ہے، جیسا کہ ترکِ نماز کا مرتکب تھا تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتی، جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے، اسی طرح روزہ اور زکوۃ و غیرہ کا معاملہ ہے کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوۃ کی ادائیگی نہیں کرے گا، اس وقت تک اس کی توبہ کامل نہیں ہوگی۔ اگر گناہ کسی کو ناحق قتل کا ہے تو اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرے، اگر اولیاء مقتول نے اس کا مطالبہ کیا ہے تو، ورنہ دیت ادا کرے۔ اگر کسی پر ایسی جھوٹی تہمت لگائی ہے جس سے ’’حد‘‘ لازم آتی ہے تو اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرے۔ اگر قتل اور تہمت میں اسے معاف کردیا گیا تو اخلاص کے ساتھ ندامت اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کافی ہوجائے گا۔ اسی طرح چور، ڈاکو، شرابی اور زانی بھی توبہ کرلیں اور ان گناہوں کو ترک کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کی توبہ درست ہوجائے گی۔ اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر قدرت رکھتا ہے تو فوراً صاحب کا حق ادا کرے، اگر فوری ادائیگی کی قدرت نہ ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا عزم کرلے۔ اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا ہے تو فوری طور سے اس سببِ نقصان کو زائل کردے، پھر اس مسلمان بھائی سے معافی طلب کرے اور اس کے لیے استغفار بھی کرے، اور اگر صاحب حق نے اس کو معاف کردیا تو یہ اس گناہ سے بری ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی دوسرے کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچایا تھا یا ناحق اسے ستایا تھا اور صاحب حق سے نادم ہوکر معافی مانگی، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی ہو اور برابر اس سے معافی طلب کرتا رہا، یہاں تک اس مظلوم نے اسے معاف کردیا تو اس کے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (تفسیر القرطبی: ۱۸؍۱۹۹، ۲۰۰)
یہی حال باقی تمام معاصی و گناہوں کا ہے کہ اگر حقوق اللہ سے تعلق ہے تو ذکر کردہ شرائط کے مطابق توبہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق کا معاملہ ہو تو مذکورہ طریقۂ توبہ کو اپنانے کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرے یا معاف کروائے۔

سلفِ صالحین کا طرز عمل
سلف صالحین کی رائے یہ کہ جس شخص کی موت کسی نیک عمل جیسے رمضان کے روزے یا حج یا عمرہ کے بعد واقع ہوجائے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ جنت میں جائے گا۔ خود اکابرین سلف صالحین عمر بھر نیک اعمال میں صَرف کرنے کے باوجود موت کے وقت توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے اور اپنا عمل استغفار اور کلمہ طیبہ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ پر ختم کیا کرتے تھے۔ علاء بن زیاد کا جب آخری وقت آپہنچا تو رونے لگے، کسی نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: اللہ کی قسم! میری یہ خواہش و چاہت ہے کہ توبہ کے ذریعے موت کا استقبال کروں۔ ان سے عرض کیا گیا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ ایسا کرلیں، انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر نئے کپڑے منگوائے، انہیں زیب تن کیا، پھر قبلہ کی جانب رخ کرکے اپنے سر کو دو مرتبہ جھکایا، پھر پہلو کے بل لیٹ گئے اور روح پرواز کرگئی۔ عامر بن عبداللہ رحمہ اللہ وقت اجل رونے لگے اور فرمانے لگے: ایسے ہی وقت کے لیے عمل کرنے والے عمل کرتے ہیں۔ اے اللہ! میں آپ سے اپنی کمی اور کوتاہی کی معافی چاہتا ہوں اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، پھر اس کے بعد مسلسل ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا ورد کرتے رہے، یہاں تک کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ عمرو بن العاص رحمہ اللہ نے موت کے وقت فرمایا: اے اللہ! آپ نے ہمیں طاعت کا حکم دیا، ہم نے اس کی کوتاہی کی اور آپ نے معاصی سے منع کیا ہم ان کا ارتکاب کربیٹھے، ہمارے لیے سوائے آپ کی معافی و مغفرت کے اور کوئی چارہ کار نہیں، پھر اس کے بعد ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا ورد کرتے رہے، یہاں تک کہ موت نے آلیا۔

توبہ کی دعوت
برادران عزیز! آج انسان گناہ و معاصی کے بحر عمیق میں ڈوبا ہوا ہے، نفس بشر خطا و لغزش سے بچا ہوا نہیں، لیکن مایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں، ہر وہ شخص جس نے گناہ و معصیت کے ذریعے اپنے نفس پر ظلم و زیادتی کی ہے، اسے اس بات کی خوشخبری ہو کہ اللہ پاک اپنے پاک کلام میں انہیں توبہ و رجوع کی دعوت بھی دے رہے ہیں اور یہ اعلان بھی فرما رہے ہیں کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
«قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿۵۳﴾ وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ﴿۵۴﴾» (الزمر: ۵۳۔۵۴)
ترجمہ: ’’کہہ دے: اے میرے بندو! جنہوں کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر، آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے، بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ، وہ جو ہے وہی گناہ معاف کرنے والا مہربان ہے، اور رجوع ہوجاؤ اپنے رب کی طرف اور اس کی حکم برداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب، پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا۔ (ترجمہ از شیخ الہند)
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
«وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى» (طہ: ۸۲)
ترجمہ: ’’اور میری بڑی بخشش ہے اس پر جو توبہ کرے اور یقین لائے اور کرے بھلے کام، پھر راہ پر رہے۔‘‘ (ترجمہ از شیخ الہند)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’من آیس عباداللہ بعد ھذا فقد جحد کتاب اللہ‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۷؍۱۰۸)
ترجمہ: ’’جس نے اس کے بعد اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا تو گویا اس نے کتاب اللہ کا انکار کیا‘‘۔
حماد بن سلمہ رحمہ اللہ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ کی عیادت کے لیے آئے تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالی میرے جیسے کی مغفرت فرمائیں گے؟ تو حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور اپنے والدین میں کسی ایک کا محاسبہ اختیار کرنے کا کہا جائے تو میں اللہ کے محاسبہ کو اختیار کروں گا، اس لیے کہ اللہ تعالی میرے ساتھ میرے والدین سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ’’کتاب التوابین‘‘ میں ایک نوجوان کا قصہ نقل کیا ہے کہ رجاء بن سور کہتے ہیں: ایک دن صالح کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ گفتگو فرما رہے تھے، انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے کہا: اے نوجوان (قرآن میں سے) پڑھو، اس نے اللہ تعالی کے اس ارشاد کی تلاوت کی:
«وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ» (غافر: ۱۸)
ترجمہ: ’’اور خبر سنا دے ان کو اس نزدیک آنے والے دن کی جس وقت دل پہنچیں گے گلوں کو تو وہ دبا رہے ہوں گے، کوئی نہیں گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔ (ترجمہ از شیخ الہند)
شیخ صالح رحمہ اللہ نے آیت کی تفسیر میں فرمایا: جب رب العالمین خود لوگوں سے مطالبہ کرنے والے ہوں تو اس دن ظالموں کے لیے کیسے کوئی دوست سفارش کرنے والا ہوگا؟ اگر تم لوگ وہ منظر دیکھ لو کہ جب گناہ گاروں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکر کر ننگے پیر اور برہنہ حال جہنم کی طرف لایا جائے گا، ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں پیلی اور جسم خوف سے پگھلے جارہے ہوں گے اور وہ پکار رہے ہوں گے: اے ہماری ہلاکت! اے ہماری موت! یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہمیں کہاں لے جایا جارہا ہے؟، وہ کیا ہی منظر ہوگا جب ملائکہ انہیں آگ کی لگاموں کے ذریعے ہانکتے لے جارہے ہوں گے، کبھی منہ کے بل انہیں گھسیٹا جارہا ہوگا اور کبھی اس حال میں کہ وہ خون کے آنسو رو رہے ہوں گے، دل ان کے حیران اور وہ تکلیف سے چلا رہے ہوں گے، وہ ایک ایسا خوفناک منظر ہوگا کہ کوئی آنکھ اسے دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کسی دل میں اتنا حوصلہ نہیں کہ بے قرار نہ ہو اور قدم اس دن کی شدت کی وجہ سے بے قابو ہوں گے۔ پھر روتے ہوئے فرمانے لگے: کیا ہی برا منظر اور کیا ہی برا انجام ہوگا۔ ان کے ساتھ سامعین بھی رونے لگے، حاضرین مجلس میں ایک گناہ و مستی میں ڈوبا ہوا جو ان بھی بیٹھا ہوا تھا، اس نے شیخ کی یہ گفتگو سن کر کہا: اے ابوالبشر! کیا یہ سارا کچھ جو آپ نے بیان کیا قیامت کے دن ہوگا؟ شیخ نے فرمایا، ہاں! اے میرے بھتیجے! اس سے بھی بڑھ کر حالات ہوں گے، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ آگ میں چیخ رہے ہوں گے، یہاں تک کہ چیختے چیختے ان کی آواز بیٹھ جائے گی اور عذاب کی شدت کی وجہ سے صرف ایک بھنبناہٹ باقی رہ جائے گی۔ اس غافل جوان نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور کہا: اے اللہ! ہائے میری زندگی کے غفلت کے ایام، ہائے میرے آقا و مولا! میں نے اطاعت میں کوتاہی سے کام لیا، ہائے افسوس! میں نے اپنی عمر دنیا کی فانی زندگی کے لیے برباد کردی، اس کے بعد اس جوان نے رونا شروع کردیا اور قبلہ رخ ہوکر کہنے لگا: اے اللہ! آج میں ایسی توبہ کے ساتھ آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں جس میں کسی ریا کا شائبہ نہیں۔ اے اللہ! میری توبہ قبول فرما اور اپنا فضل و کرم ہمارے شامل حال فرما۔ اے ارحم الراحمین! اے اللہ! آپ کے لیے میں اپنی گردن سے گناہوں کے بار اتار پھینکتا ہوں اور اپنے تمام اعضاء و جوارح اور سچے دل کے ساتھ رجوع کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر آپ میری توبہ قبول نہیں کریں گے تو یہ میری ہلاکت اور بربادی ہے، اس کے وہ جوان بے ہوش ہوکر گر پڑا، اُسے وہاں سے منتقل کیا گیا۔ شیخ صالح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ دنوں تک اس کی عیادت کرتے رہے، پھر اس جوان کا انتقال ہوا، اس جوان کے جنازہ میں خلق خدا نے شرکت کی، وہ روتے ہوئے اس کے لیے دعائے مغفرت کررہے تھے۔ شیخ صالح گا ہے بگاہے اس جوان کا اپنی مجلس میں تذکرہ کرتے اور فرماتے: میرے والدین اس پر قربان ہوں، یہ قرآن کا قتیل ہے، یہ وعظ اور غم و حزن کا قتیل ہے (یعنی قرآن کی اس آیت اور اس کی تفسیر نے اس نوجوان پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ قیامت کے دہشت ناک احوال کے خوف سے جان سے گزر گیا) راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے موت کے بعد ان کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا بنا؟ ان نے کہا کہ شیخ صالح کی مجلس کی برکت میرے شامل حال رہی اور میں اللہ کی وسیع رحمت میں داخل ہوا، یعنی میری مغفرت کردی گئی۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو گناہ کو گناہ سمجھ کر اس سے بچنے اور سچی توبہ کی توفیق دے اور تمام امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)