- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’برابری‘ ایران کے سامنے ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کا علاج

زاہدان میں عیدالفطر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اسلامی جمہوریہ ایران کے عنوان کی جانب اشارہ کیا اور برابری و یکساں رویے کو نظام حکومت کے تقاضوں کے عین مطابق اور ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کا علاج قرار دیا۔

سنی آن لائن کی رپورٹ کے مطابق، چھبیس جون دوہزار سترہ کو نماز عید سے پہلے خطاب کے دوران خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسلام اعلی ظرفی کی بہترین مثال ہے اور ظاہر ہے اللہ تعالی کا دین جس میں آسمانی رواداری اور وسعت نظر شامل ہے، کس قدر اعلی ظرف کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران ’اسلامی‘ بھی ہے اور ’جمہوریت‘ کا بھی دعویدار؛ ان دونوںکا تقاضا ہے کہ اعلی حکام اپنی نگاہیں کشادہ رکھیں اور سب کو دیکھیں۔ حکام کے علاوہ، شیعہ و سنی علمائے کرام خاص کر نظام حکومت کے حامی حضرات اپنی نگاہیں بلند رکھیں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسلام میں نگاہیں فرقہ وارانہ اور لسانی نہیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ افراد کے مسلک اور قومیت کو چھوڑ کر اسلامی نقطہ نظر سے لوگوں کو دیکھا جائے جو سب کو شامل ہوتاہے۔ تمام مسالک و لسانی برادریوںکو یکساں رویے سے لیاجائے اور سب کے حقوق کا خیال رکھاجائے۔

انہوں نے مزید کہا: محدود مسلکی پالیسیاں اور رویے ایران کے لیے خطرناک ہیں جن سے ہماری قومی وحدت اور امن کو نقصان پہنچتاہے۔ عوام اور ان کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: ایران میں بسنے والے شیعہ و سنی ایک دوسرے کے لیے موقع ہیں اور ملازمتوں اور عہدوںکی تقسیم میں تمام ایرانیوں کو حصہ دینا چاہیے۔ کسی مخصوص مسلک یا لسانی گروہ کو ترجیح نہ دیں۔ اسی صورت میں ہمارا قومی اتحاد محفوظ رہے گا اور ممکنہ چیلنجز سے نمٹنا ممکن ہوگا۔

سنی علما کے اندرون ملک سفروں کو مشکوک نگاہوں سے نہ دیکھیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایران میں بعض سنی علمائے کرام کے اسفار پر پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی ہیں اور امید ہے جب وہ کہیں سفر پر جاتے ہیں بدگمانی سے گریز کرکے ان کا پیچھا نہ کیا جائے کہ یہ کہاں جانا چاہتے ہیں! فون کرکے انہیں سفر سے منع نہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا: ہمارا شکوہ سب سے زیادہ مشہد کے حکام سے ہے کہ وہاں اہل سنت کے علما کے سفروں کے حوالے سے زیادہ تنگ نظری دیکھنے میں آتی ہے۔ مشہد ایک سیاحتی، زیارتی، علمی اور کاروباری شہر ہے جہاں متعدد جامعات بھی موجود ہیں۔ شہریوںکو اس شہر کی جانب رخ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، لہذا اعلی حکام اس شہر کا خیال رکھیں۔

ممتاز سنی عالم دین نے کہا: علمائے اہل سنت بھی ایرانی ہیں اور ہر ایرانی شہری کی طرح ان کا بھی حق بنتا ہے کہ جہاں چاہیں آزادانہ سفر کرسکیں۔ اس حوالے سے انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ اگر فلاں شہر چلوں تو روک دیں گے۔ حکام ہمارے سفروں سے نہ ڈریں۔ ہمارا اتحاد ایک بات سے نہیں ٹوٹ سکتا۔

جہاد کا فتویٰ صرف ماہر و مخلص علمائے کرام ہی دے سکتے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے حرم مکی میں بعض انتہاپسندوں کی جانب بدامنی پھیلانے کی ناکام سازش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: کچھ لوگ حرم مکی میں دھماکہ خیر مواد سے بدامنی پھیلانے کی سازش کررہے تھے کہ ناکام ہوئے۔ حرم ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان اپنی جگہ کیڑے مکوڑوں پر بھی ہاتھ نہیں اٹھایاجاسکتا اور درختوں کے پتوں تک کو توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ خودکش جیکٹس سے لیس ہوکر وہاں کیسے مسلمانوں کو مارنا جائز ہوگا؟ ایسا کرنے والوں کا دین کیا ہے؟

انہوں نے مزید کہا: حرم مکہ ہو یا مدینہ منورہ، وہاں لوگوں کو مارنا انتہائی گھٹیا حرکت اور جرم عظیم ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بے گناہ لوگوںکو قتل کرنا کس قدر عام ہوا ہے کہ افغانستان، پاکستان، ایران اور دیگر جگہوں پر نہتے افراد کو ماراجاتاہے۔ جہاد کا فتوی صرف باشرع اور متقی و ماہر علمائے کرام ہی دے سکتے ہیں۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: کچھ انتہاپسند مسجدوں اور نماز جنازہ کے لیے اکٹھے ہونے والوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ بہت سارے دھماکوں سے پہلے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتاہے ، پھر دھماکے کی آواز سنی جاتی ہے۔ یہ انتہاپسندی ہے اور اسلام نے ہرگز ایسی حرکتوں کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہ طیش میں آنے والے ناراض لوگوں کا کام ہے اور ہم خیرخواہی کی بنا پر انہیں کہتے ہیں کہ اپنی آخرت کی فکر کریں اور ایسے اعمال سے گریز کریں۔

رمضان کی کامیابیوں کی حفاظت کریں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے رمضان المبارک میں مسلمانوں کی کامیابیوں کی جانب اشارہ کیا اور ان کی حفاظت و استمرار پر زور دیا۔

انہوں نے مسجدوں سے مستحکم تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا: رمضان میں مسجدیں آباد تھیں اور ہم نے باجماعت نمازیں قائم کی۔ رمضان کے بعد ایسا ہی ہونا چاہیے اور مسجدوں سے نہیںبھاگنا چاہیے۔ مساجد سے تعلق ایمان کی نشانی ہے۔

مولانا عبدالحمید نے سحرخیزی اور تہجد پڑھنے کو رمضان کی دیگر کامیابی قرار دی اور سال کے تمام مہینوں میں تہجد پڑھنے کی تاکید کی۔ انہوں نے کہا یہ نماز روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ، جسمانی منافع سے بھی خالی نہیں ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے غیررمضان میں نفلی روزوں، تلاوت قرآن اور گناہوں سے دوری پر زور دیتے ہوئے کہا: پوری زندگی میں گناہوں سے دور بھاگ جائیں اور اللہ تعالی کو خود سے ناراض نہ کریں۔ کسی کو معلوم نہیں اس کی موت کب واقع ہوگی۔ آج عید کا دن ہے اور اسلام میں عید اور خوشی و مسرت کا اظہار نماز، تکبیر اور عبادات سے ہوتاہے۔