- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مسلم حکام تلخ کلامی و بیان بازی سے گریز کریں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایران سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہامسلم حکمران بیان بازی اور ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔

سولہ جون دوہزار سترہ کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مسلم حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف سخت کلام استعمال نہ کریں، مسلم ممالک کے درمیان کافی حد تک کشیدگی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: تلخ کلامی و بیان بازی اور الزام تراشیوں سے اختلافات و کشیدگیوں میں اضافہ ہوگا اور جنگ و لڑائی کا خطرہ بھی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: مسلم حکام و رہ نما ایک ایسی زبان استعمال کریں جس سے مسلم ممالک کے درمیان قربت میں اضافہ ہو۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا آج کوئی شخص ایسی بات زبان پر لائے جس کا نتیجہ صلح ہو، میں اس بات کو مان لوں گا۔ اس کلام نبوی سے غصیلے دشمن کو مصالحت کے لیے تیار ہونا پڑا۔ ہمیں بھی آپﷺ کی سنت زندہ رکھ کر ایسی ہی باتیں زبان پر لانی چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران سمیت تمام مسلم ممالک کے سربراہان بیان بازی اور ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے کا سلسلہ بند کریں۔ عالمی سامراج مسلم ممالک کے درمیان فتنہ بپا کرنے کی کوششوں میں ہے۔ لہذا مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے بات کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ایران، سعودی عرب سمیت تمام عرب اور مسلم ممالک اپنے مسائل و تنازعات کو سیاسی طریقوں اور مذاکرات و بات چیت سے حل کریں۔ ایران، سعودی عرب، قطر اور تمام مسلم ممالک کا تعلق اسلام اور مسلمانوں ہی سے ہے، امریکا و دیگر سامراجی طاقتوں سے نہیں! ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے کہ امریکا، اسرائیل اور روس کومسلمانوں کے اختلافات سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہماری خواہش ہے کہ عراق اور شام کے مسائل عراق اور شام ہی میں حل ہوجائیں۔ عراق اور شام جیسے ممالک کے مسائل کو ایران میں نہیں لانا چاہیے۔ ہم کسی کو ایران میں بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایران کی سنی برادری تشدد و شدت پسندی کے خلاف ہے
ممتاز سنی عالم دین نے ایران میں حالیہ بدامنی کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ’لڑائی اور تشدد‘ کو اہل سنت ایران کے لیے ’ناقابل قبول‘ یاد کیا۔
انہوں نے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ دھماکہ خیز مواد لے کر ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عراق اور موصل میں شکست سے دوچار ہونے والے عناصر بدلہ دیگر علاقوں میں لینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ایرانی قوم بشمول شیعہ و سنی جنگ و لڑائی سے نفرت رکھتی ہے، عراق اور شام و یمن میں جنگ کی تباہ کاریاں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ شدت پسندی و عسکریت پسندی سے ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ بند ہوجائے گا اور بدنامی بھی ہاتھ آتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: ایران کی سنی برادری تشدد اور مسلح لڑائی کو مسترد کرتی ہے، چاہے کسی بھی شخص کی طرف سے ہو۔ ہم نے اڑتیس سالوں تک اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے صبر سے کام لیا۔ ہمارا مطالبہ برابری اور مذہبی آزادی کا نفاذ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم و انتخاب ہے۔ ہم صرف پرامن اور قانونی راستوں ہی سے اپنے مطالبات پیش کرتے رہیں گے۔
انہوں نے حالیہ صدارتی انتخابات میں اہل سنت برادری کے متحدہ ووٹ اور صدر روحانی سے حمایت کو اعلی حکام کے نزدیک سنی برادری کی مقبولیت میں اضافے کا باعث یاد کرتے ہوئے کہا: سنی برادری نے ہمیشہ قومی تہواروں میں شرکت کرکے اپنے ملک کی حمایت کی ہے۔ اب ان کے جائز مطالبات کو جامہ عمل پہنانے کی امیدوں میں کافی حد تک اضافہ آیاہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: ہمارے خیال میں سیاسی طریقے سے مسائل کا حل بہتر انداز میں نکالا جاسکتاہے۔ قانونی حقوق حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ شام و عراق سمیت بحران سے دوچار دیگر ممالک کے حوالے سے ہمارے خیال میں سیاسی حل اور مذاکرات سے مسائل ختم کرنے کا امکان ہے۔

بندے کو خیرخواہ سمجھنے والے بدامنی پھیلانے سے باز آئیں
ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید نے تشدد پر یقین رکھنے والے اور خودکش حملے کرانے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جو لوگ خودکش جیکٹس اپنے جسموں سے باندھ کر خود کو اڑادیتے ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ تم کس کو مارنا چاہتے ہو؟ کس معقول دلیل اور شرعی اصل کی بنا پر تم معصوم اور نہتے شہریوں کو مسجدوں، بازاروں اور عوامی مقامات میں مارتے ہو؟ کس نے تمہیں یہ فتوا دیا ہے کہ عوامی مقامات میں جاکر خودکش حملہ کرو اور حتی کہ نمازجنازہ کے لیے اکٹھے ہونے والوں کو نشانہ بناو؟ جو لوگ ایسے فتوے دیتے ہیں اور معصوموں کا خون بہاتے ہیں، یوم حساب میں اللہ تعالی کو کیا جواب دیں گے؟
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: جو لوگ میری باتوں پر توجہ دیتے ہیں اور بندے کو خیرخواہ سمجھتے ہیں، ان سے میری درخواست ہے کہ بدامنی پھیلانے اور تشدد سے باز آجائیں۔ وہ نوجوان جو کسی وجہ سے ملک چھوڑکر چلے گئے ہیں، ان سے درخواست ہے کہ ایران میں بدامنی پھیلانے سے رک جائیں اور یہاں مسائل پیدا نہ کریں۔
انہوں نے اظہارِ خیال کی آزادی پر زور دیتے ہوئے کہا: البتہ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ لوگوں کے منہ پر تالہ لگاکر تنقید پر پابندی لگادے۔ البتہ بات معقول ہونی چاہیے۔ ہم بات چیت کے ذریعے معاشرے میں اصلاح لانا چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ہم بحیث اہل سنت ایران اپنی بات کہہ دیتے ہیں، ہم ایرانی مسلمان ہیں اور حکام و متعلقہ ذمہ داران سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک سے مذہبی و مسلکی نگاہیں ختم کریں، ہماری نگاہیں قومی ہونی چاہییں اور ایران میں میرٹ اور اہلیت کا راج ہونا چاہیے۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ایران میں کسی خاص مکتبہ فکر یا لسانی گروہ خود کو برتر نہ سمجھے کہ تمام عہدوں اور اسامیاں صرف انہیں مل جائیں۔ ایسے رویے ملکی مفادات اور قومی اتحاد کے سراسر خلاف ہیں۔ ہر جگہ اہلیت ہی کی بنیاد پر لوگوں سے کام لیا جائے۔ ہم بھی کسی بھی شخص کو یہاں بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اتحاد و بھائی چارہ سے اپنے مسائل کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔

رمضان سے خوب فائدہ اٹھائیں
اپنے خطاب کے پہلے حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے رمضان کے عشرہ اخیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: رمضان اپنے آخری دنوں میں داخل ہوچکاہے۔ اس کا آخری عشرہ کوتاہیوں کے ازالہ کا بہترین موقع ہے۔ اس عشرے میں گناہوں کی آلودگی سے پاکی حاصل کرنے کا اہتمام کریں اور اپنے گیارہ مہینے اور آخرت کے سفر کے لیے کوئی توشہ تیار کریں۔
انہوں نے کہا: اس عشرے میں منیت و خودپسندی و تن آسانی کو پس پشت ڈال کر عبادتوں کا اہتمام کریں اور سنت کے مطابق یکسوئی اختیار کریں۔ اس عشرے میں اعتکاف کے لیے بیٹھنے کا اہتمام ہونا چاہیے جو تزکیہ نفس اور اصلاح کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔

ممتاز سنی رہ نما نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں دینی مدارس خاص کر ’دارالعلوم زاہدان‘ سے مالی تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا: زکات کی ادائیگی سے بندہ بخل و کنجوسی اور حب مال کی بیماری سے پاک و صاف ہوجاتاہے۔ لہذا اس مہینے میں مستحق افراد سے تعاون کریں، خاص کر دینی مدارس سے جو عوام ہی کے چندوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ دارالعلوم زاہدان آپ کے تعاون کا مستحق ہے جو آپ کا سب سے بڑا دینی و تعلیمی ادارہ ہے اور اس کی خیر و بھلائی ہر سو پہنچ رہی ہے۔ یہ کسی بھی حکومت سے مالی تعاون نہیں لیتا اور عوام ہی کے چندوں پر گزارہ کرتاہے۔ لیکن اب بری معاشی صورتحال نے اس کی خدمات و ترقیاتی کاموں کو مشکلات سے دوچار کیا ہے اور قرضوں کا بڑا بوجھ سر پر ہے۔ لہذا اس جامعہ سے خصوصی طور پر تعاون کا فیصلہ کریں۔