- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ہندوستان میں خطابت کے ائمہ اربعہ اور امیرِ شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا مقام

ہندوستان کی اِس سرزمین میں ایک ہی عصر میں ایسے چار خطیب جمع ہوگئے تھے جن میں سے ایک کی بھی نظیر عالمِ اسلام میں نہیں تھی اور ظاہر ہے کہ جب عالم اسلام میں نظیر نہ تھی تو غیر اسلای دنیا میں کہاں سے نظیر ملے گی؟
جوہرِ خطابت جس انشراح صدر کا محتاج ہے، اللہ تعالی نے یہ حصہ غیرمسلموں کو نصیب ہی نہیں فرمایا۔ مسلمان کے سینہ میں جو فیضانِ الہی ہوتا ہے کافر کے سینہ میں اس کی گنجائش نہیں۔ مسلمان کا دل و دماغ جس جذبے سے سرشار ہوتا ہے کافر اس نعمت سے محروم ہے۔ مسلمان کے دل میں عواطف و جذبات کا جو سمندر متلاطم ہوتا ہے غیراسلامی دل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسلامی روح جس منبع قدس سے سیرابی حاصل کرتی ہے کافر کی روح کی تشنہ لبی کو اس سے کیا نسبت!
پہلے خطیب مولانا ابوالکلام آزاد، دوسرے خطیب مولانا احمد سعید دہلوی، تیسرے خطیب مولاناشبیراحمد عثمانی اور چوتھے خطیب مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری تھے۔ میرے خیال میں یہ ایک عصر کی خطابت کے ائمہ اربعہ تھے۔ ایک دفعہ ضلع سورت کے ایک گاؤں میں حضرت مولانا العارف حسین احمد کے ساتھ رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی، تنہائی میں اس موضوع کا ذکر آگیا، اتفاق کی بات ہے جو میرا خیال تھا حضرت رحمہ اللہ نے بعینہ اسی طرح فرمایا، بہرحال مجھے اپنی اصابتِ رائے پر خوشی ہوئی، پھر فرمایا کہ اب مولانا حفظ الرحمن صاحب بھی قریب قریب ان کے ہورہے ہیں، اب میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مولانا قاری طیب صاحب بھی اس صف کے قریب آرہے ہیں۔ میرے ذہن میں ان چاروں خطیبوں کی خطابت کی خصوصیات ہیں جو نہایت دلچسپ ہیں اور دقیق بھی ہیں، افسوس کہ اس وقت ان کی تفصیلات کی نہ ہمت ہے نہ وقت، لطف تو اس وقت آتا کہ پورا موازنہ و مقارنۂ واقعات ہوسکتا۔ اب تو چند نامعلوم اشارے شاہ جی رحمہ اللہ سے متعلق عرض کرتا ہوں۔
خطابت اور خصوصاً عوام کو مسحور کرنے کا جہاں تک تعلق ہے، اس موضوع کی جتنی صلاحیتیں ہوسکتی ہیں قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ حضرت شاہ جی رحمہ اللہ کو عطا فرمائی تھیں۔ قد و قامت، شکل و صورت، قوت و طاقت، شجاعت و جرأت، فراست و تدبر، غیرت و حمیت، ذکاوت و شدتِ احساس، رقتِ عواطف و جذبات کا تلاطم، بلندیِ آواز و خوش گلوئی، قرآن کریم کے ساتھ قلبی تعلق اور استحضار، منتخب ترین فارسی، اردو اشعار و ہر موضوع پر عمدہ ذخیرہ کا استحضار، دردناک اور فلک شگاف آواز کے ساتھ قرآن کریم کا پڑھنا، مخالفین کے مجمع پر قبضہ کرنا، عالم و جاہل، مرد و عورت، مخالف و موافق، سب کا یکساں طور پر متاثر ہونا، یہ ان کی وہ خصوصیات ہیں کہ ان میں کوئی ہمسری نہیں کرسکتا۔
مجمع کو رُلانا، تڑپانا، ہنسانا ان کی خطابت کا ادنیٰ کرشمہ تھا، مجمع سے اپنی بات منوانا، نناوے فیصد مخالفوں کو اپنا ہم خیال بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ بعض اوقات تو بولنے سے پہلے ساحرانہ نگاہ ہی سے مجمع کو مسخر کرلیتے تھے۔ نگاہ کیا تھی غضب کی نگاہ تھی، آوازی تھی یا بجلی کوندتی تھی۔ اتنا کامیاب ترین خطیب کسی نے سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا۔ عقلی و فکری خصوصیات کی کامیاب ترین تمثیل اور اپنے موضوع و اطوار سے وہ نقشہ کھینچتے تھے دنیا کا کوئی خطیب ان کی نقالی نہیں کرسکتا تھا۔ ہندوستان کی سرزمین میں یہ وہ واحد خطیب تھے جس نے اپنی خداداد ساحرانہ قوتِ خطابت سے دنیا و سیاست کی وہ خدمت کی جو ایک پوری قوم نہیں کرسکتی۔ تنہا ان کی شخصیت نے وہ کام کیا جو ایک صدی میں ایک ادارے کو کرنا چاہیے تھا۔ یہ شخص کسی اور قوم میں ہوتا تو نہ معلوم اس کی کیا یادگاریں قائم ہوتیں، لیکن مسلمان قوم اپنی زندگی ختم کرچکی ہے۔ اس ختم شدہ دور میں یہ حیرت انگیز خطیب آئے، ورنہ تاریخ کے کسی بہترین دور میں پیدا ہوتے تو نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

مولانا انور شاہ صاحب رحمہ اللہ امیر شریعت رحمہ اللہ کی نظر میں
قدرت نے فوق العادت زبان کی شیرینی، بیان کی روانی اور فوق العادت مؤثر تعبیر کی قوت عطا فرمائی، بعض اوقات ایک جملہ میں پوری پوری داستان ختم کردیتے تھے، ایک دفعہ جامع ڈابھیل تشریف لائے، اساتذۂ جامعہ مروتی اسٹیشن پر استقبال کے لیے گئے، لارہ میں آرہے تھے، میں نے کہا: شاہ جی! آج تو حضرت شیخ پر ایک تقریر کردیجئے (یعنی حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمہ اللہ پر) فوراً فرمایا: ’’بھائی یوسف! کیا کہوں! صحابہ رضی اللہ عنہم کا قافلہ جارہا تھا، انورشاہ صاحب پیچھے رہ گئے۔‘‘ بے اختیار میں نے کہا: ’’حسبک اللہ یا عطاء اللہ!‘‘ اور رفقاء نے جملہ نہیں سنا تھا، جب سنایا سب تڑپ گئے۔

غیرمسلموں کو تبلیغِ اسلام
ایک دفعہ تو ساری ضلع سورت میں سکھوں اور ہندوؤں کی ایک عورت پر ایک تقریر منظور فرمائی۔ ایک تھیڑہال کا انتخاب ہوا، جامع ڈابھیل کے اساتذہ اور طلبہ بھی شریک تھے۔ حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ بھی تشریف رکھتے تھے، اس تقریر کی تاثیر و حلاوت، فوق العادت خطابت کا کمال آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے، اس کی شیرینی کام و دہن میں ہے، ہندوؤں اور سکھوں سے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے بلند کروائے تھے۔ سلام کی حقانیت، اللہ کی عظمت اور توحید، گوشت خوری کے منافع، بت پرستی کی قباحت پر حیرت انگیز بیان تھا۔ حضرت شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ زار و قطار رو رہے تھے۔ میں نے کبھی ان کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تقریر کے بعد میں نے سنا، فرماتے تھے: میں نے بیسیوں تقریریں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی سنی ہیں، لیکن اتنی مؤثر تقریر آج تک نہیں سنی اور فرمایا کہ: آج عطاء اللہ شاہ نے حق تبلیغ ادا کردیا ہے، اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم، متکلم، خطیب کی یہ داد کتنی قیمتی ہے۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ مولانا انورشاہ صاحب رحمہ اللہ کی نظر میں
امام العصر حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمہ اللہ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی اور دعا کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسا خطیب کبھی نہیں دیکھا جو روتوں کو ہنساتا ہے اور ہنستوں کو رُلاتا ہے اور فرماتے تھے کہ: مرزا غلام قادیانی کے خلاف ان کی ایک تقریر وہ کام کرتی ہے جو ہماری پوری تصنیف نہیں کرسکتی۔ کسی مجلس میں اُنہیں دیکھتے تو باوجود اس کے متانت و وقار کا پہاڑ تھا، محظوظ ہوتے جس کی انتہا نہیں۔

لاہور کا تاریخی اجلاس جس میں آپ امیرِ شریعت بنائے گئے
مئی ۱۹۳۰ء کا جو تاریخی اجلاس ’’انجمن خدام الدین لاہور‘‘ کا ہورہا تھا، جس کا سماں آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے، اس وقت امام شیخ رحمہ اللہ کا اسم گرامی مولانا ظفرعلی خاں نے امارت کے لیے پیش کیا۔ حضرت شیخ نے کھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنی کمزوری کی وجہ سے معذرت پیش کی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی امارت کی نہ صرف تجویز کی بلکہ امیر بنا کر فرمایا: میں بھی اس مقصد کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، آپ حضرات بھی ان سے بیعت کریں اور اپنے دونوں ہاتھ مبارک سید بخاری کے ہاتھ میں دے دیئے۔
وہ منظر بھی عجیب تھا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رورہے تھے اور کہتے ہیں کہ خدا کے لیے مجھے معاف فرمائیں، میں اس کا اہل نہیں اور حضرت شیخ اصرار فرما رہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے مولانا عبدالعزیز گوجرانوالہ نے پہلی بیعت فرمائی، پھر مولانا ظفرعلی خاں مرحوم نے بیعت کی، راقم الحروف بھی اس مجمع میں شریک تھا اور غالباً تیسرا نمبر بیعت کرنے والوں میں میرا تھا، اس وقت شاہ جی رحمہ اللہ ’’امیر شریعت‘‘ بنائے گئے اور ان کی شخصیت میں مقبولیت اور جاذبیت کا دور شروع ہوا، جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا اور اس کے بعد اخلاص کے ساتھ خدمت کی توفیق ان کو ملی، وہ ان کی زندگی کا تاریخی دور ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی یہ عام مقبولیت اور مجاہدانہ سرگرمیاں، منصفانہ خدمات اور حیرت انگیز تاثیر اور بے پناہ محبوبیت حضرت مولانا انورشاہ رحمہ اللہ کی کرامت تھی۔ اپنے ہاتھ مبارک جو اُن کے ہاتھوں میں رکھ دیئے تھے اس کی وجہ تھی اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمہ اللہ کو جو قادیانی فرقہ سے بغض و عناد تھا س نے عطاء اللہ کی صورت اختیار کر لی تھی۔ دراصل شاہ جی رحمہ اللہ کا وجود حضرت مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی کرامت تھا، جس کی وجہ سے علماء، صلحاء، عرفاء و اتقیاء، وقت کے بڑے بڑے اہلِ فضل و کمال مولانا عطاء اللہ شاہ رحمہ اللہ کے جاں نثار، محب، والہانہ معتقد بن گئے تھے: “ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ”

(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت، امیرشریعت نمبر، ص: 332-330)