- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حرام اور ناپاک اشیاء سے تیار کردہ فیڈ کا حکم!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین، مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ:
۱: جو جانور بغیر ذبح کیے مرجائے، مثلاً مردہ مرغی یا مردہ بکرا یا مردہ گائے تو کیا اس کا بیچنا جائز ہے؟
اسی طرح بعض مذبح خانوں میں ذبح کرتے وقت بہنے والا خون جمع کرکے فروخت کیا جاتا ہے اور جانوروں کی انتڑیاں اور وہ اجزاء جن کا کھانا جائز نہیں ہے وہ فروخت کیے جاتے ہیں، ان کا بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

۲: مرغیوں کے لیے جو غذا تیار کی جاتی ہے، اس میں اکثر و بیشتر جانوروں کا خون، انتڑیاں او رمری ہوئی مچھلیاں شامل ہوتی ہیں اور بعض درآمد شدہ مرغیوں کی غذا میں خنزیر کے اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں۔
الف: کیا مرغی خانہ کے مالکان کو قصداً مرغیوں کو ایسی حرام غذا کھلانا جائز ہے؟ کیا ان مرغیوں کو ’’دجاجہ مخلاۃ‘‘ پر قیاس کیا جاسکتا ہے؟
ب: کیا مرغی کی غذا بنانے والے صانعین (Manufactures) کو مرغی کی غذا میں ایسے حرام اجزاء کا استعمال جائز ہے؟

۳: اکثر اوقات کھانے پینے کی اشیاء میں چکن پاؤڈر استعمال کیا جاتا ہے، اس چکن پاؤڈر کے بناتے وقت بعض اوقات مصنوعی اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات مرغی کی انتڑیاں اور مذبح خانے سے حاصل ہونے والے مرغیوں کے مختلف اجزاء سے بنایا جاتا ہے اور ان انتڑیوں کو اُبال کر انہیں خشک کرکے پاؤڈر بنالیا جاتا ہے۔
الف: کیا ایسے چکن پاؤڈر کا استعمال جائز ہے؟
ب: کیا اگر یہ غیر مذبوحہ (مردہ) مرغی کی انتڑیاں استعمال ہوں تو کیا ان کا استعمال جائز ہے؟
ج: کیا چکن پاؤڈر بنانے والے صانعین (Manufactures) کے لیے غیر مذبوحہ مرغی کی انتڑیاں استعمال کرنا جائز ہے یا مردہ مرغی استعمال کرنا جائز ہے؟ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ بالآخر یہ پاؤڈر کی شکل اختیار کرجائے گی۔
مستفتی: سرفراز حمید

 

الجواب حامداً و مصلیاً
۱: صورتِ مسئلہ میں مردار جانوروں کو فروخت کرنا جائز نہیں، نیز جانوروں کے خون کو جمع کرکے بیچنا بھی حرام ہے۔ ’’تنویر الأبصار مع الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’(بطل بیع ما لیس بمال (کالدم) المسفوخ۔۔۔ (والمیتۃ)۔۔۔ و لا فرق فی حق المسلم بین التی ماتت حتف أنفھا أو بحنق و نحوہ)‘‘۔
(فتاویٰ شامی، باب البیع الفاسد، ج:۵، ص: ۵۱)

واضح رہے کہ مذبوحہ جانور کے جسم کے سات اجزاء (یعنی: بہنے والا خون، نر جانور کا آلہ تناسل، کپورے، مادہ جانور کے پیشاب کی جگہ، گلٹی [یعنی سخت گوشت کا وہ ٹکڑا جو کھال اور نرم گوشت کے درمیان اُبھر آتا ہے] مثانہ اور پتہ) کے علاوہ باقی تمام اجزاء کا کھانا اور بیچنا حلال ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’ما یحرم أکلہ من أجزاء الحیوان المأکول سبعۃ: الدم المسفوح و الذکر و الأنثیان و القبل و الغدۃ و المثانۃ و المرارۃ، بدائع۔‘‘
(فتاویٰ شامی، قبیل کتاب الاضحیۃ، ج: ۶، ص: ۳۱۱)

۲: مرغی کی غذاء کی تیاری میں حرام و نجس اجزاء مثلاً خون، خنزیر کے اجزاء یا مردار کے گوشت کی شمولیت کی ہمارے علم کے مطابق رائج دو صورتیں ہوتی ہیں:
پہلی صورت: غذا کی تیاری میں حرام و نجس اجزاء کو اس طور پر شامل کیا جاتا ہے کہ ان اجزاء کی حقیقت و ماہیت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی، یہ اجزاء کے ساتھ خلط (مکس) ہوجاتے ہیں (جس طرح سے آٹے کو شراب سے گوندھ دیا جائے تو شراب کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ وہ آٹے کے ساتھ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ مکس ہوجاتی ہے) تو اس قسم کی غذاء کا حکم یہ ہے کہ نجس و حرام اجزاء کے ملنے کی وجہ سے یہ غذاء بھی حرام ہے اور ان کا بیچنا اور مرغیوں کو کھلانا بھی ناجائز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
“إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ” (البقرۃ: ۱۷۳)
تبیین الحقائق میں ہے:
’’لم یجز بیع المیتۃ و الدم و الخنزیر و الخمر۔‘‘
(تبیین الحقائق، ج:۴، ص: ۳۶۲، دارالکتب العلمیۃ)

البحر الرائق میں ہے:
’’و أما خنزیر فشعرہٗ و عظمہٗ و جمیع أجزاۂٖ نجسۃ۔‘‘
(البحرالرائق، ج:۱، ص: ۱۹۱)

دوسری صورت: غذاء کی تیاری میں حرام و نجس اجزاء کو اس طور پر شامل کیا جاتا ہے اور مختلف کیمیائی مرحلوں سے اس طور پر گزارا جاتا ہے کہ ان حرام و نجس اجزاء کی اصلی حقیقت و ماہیت میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور ان کا سابقہ نام اور خاصیت نئے نام اور خاصیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں (جس طرح سے شراب کو سرکہ بنانے سے شراب کی حقیقت اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ختم ہوکر حقیقتِ سرکہ میں بدل جاتی ہے) تو اس قسم کی تبدیلی کے بعد تیار کی گئی غذاء کا استعمال شرعاً مباح ہے۔
’’تنویر الأبصار مع الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’(و) یطھر (زیت) تنجس (بجعلہ صابونا) بہٖ یفتی للبلویٰ کتنور رش بماء نجس لابأس بالخبز فیہ۔‘‘
(فتاویٰ شامی، باب الأنجاس، ج:۱، ص: ۳۱۵)

فتاویٰ شامی میں ہے:
’’ثم ھذہ المسئلۃ قد فرعوھا علی قول محمدؒ بالطھارۃ بانقلاب العین الذی علیہ الفتویٰ و اختارہٗ أکثر المشائخ خلافاً لأبی یوسفؒ کما فی شرح المنیۃ و الفتح و غیرھما۔‘‘
(فتاویٰ شامی، باب الانجاس، ج:۱، ص: ۳۱۶)

و فیہ أیضا:
’’ثم اعلم ان العلۃ عند محمدؒ التغیر و انقلاب الحقیقۃ و أنہٗ یفتیٰ للبلوی کما علم لما مر، و مقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر و انقلاب حقیقۃ و کان فیہ بلوی عامۃ۔‘‘
(فتاویٰ شامی، باب الانجاس، ج:۱، ص: ۳۱۶)

الف: صورتِ مسؤلہ میں مرغی خانہ کے مالکان کے لیے حرام و نجس اجزاء کی شمولیت سے تیار کردہ غذاء کھلانا جائز نہیں اور ایسی غذا کو فروخت کرکے نفع کمانا بھی ناجائز ہے، البتہ جن مرغیوں کو ایسی غذاء کھلائی گئی ہے ان کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر ان کے گوشت میں کسی قسم کی بدبو پیدا نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں ان مرغیوں کو کھانا جائز ہوگا اور اگر مذکورہ غذاء کی وجہ سے ان کے گوشت میں بدبو پیدا ہوگئی ہو تو جب تک بدبو زائل نہیں ہوجاتی اس وقت تک ایسی مرغیوں کو کھانا جائز نہیں ہوگا، جیسا کہ ’’تنویر الأبصار مع الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’و کرہ (لحمھما) أی لحم الجلالۃ و الرمکۃ و تحبس الجلالۃ حتی یذھب نتن لحمھا و لو أکلت النجاسۃ و غیرھا بحیث لم ینتن لحمھا حلت الخ۔‘‘
(فتاویٰ شامی: کتاب الاباحۃ، ج: ۶: ص: ۳۴۰)

فتاویٰ شامی میں ہے:
’’و فی المنتقیٰ الجلالۃ المکروھۃ التی اذا قربت وجدت منھا رائحۃ فلاتؤکل۔‘‘
(فتاویٰ شامی، ج: ۶، ص: ۳۴۱)

و فیہ ایضا
’’قال السرخسی رحمہ اللہ: الأصح عدم التقدیر و تحبس حتی تزول الرائحۃ المنتنۃ۔‘‘
(فتاویٰ شامی، ج: ۶، ص: ۳۴۱)

ب: مرغی کی غذا کی تیاری میں نجس و حرام اجزاء شامل کرنا جائز نہیں، لہذا مرغیوں کی غذا تیار کرنے والے حضرات ایسے اجزاء ہرگز شامل نہ کریں۔

۳: الف۔ جواب نمبر: ۱ میں ذکر کردہ سات چیزوں کے علاوہ مذبوحہ جانور کے باقی تمام اجزاء کا استعمال جائز ہے، لہذا صورت مسؤلہ میں اگر چکن پاؤڈر بنانے والی کمپنیاں مذبوحہ مرغیوں کے حلال اجزاء کو مناسب ترکیب کے ذریعہ پاؤڈر بناتی ہیں تو ان کا استعمال جائز ہوگا، البتہ اگر مردار مرغیوں کے اجزاء سے چکن پاؤڈر تیار کرتی ہیں تو ان کا استعمال ناجائز ہوگا۔
ب: جائز نہیں۔
ج: جائز نہیں۔

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح: محمد عبدالمجید دین پوری
الجواب صحیح: محمد عبدالقادر
کتبہ: سید مزمل حسن، تخصص فقہ اسلامی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی

بشکریہ: ماہنامہ بینات۔ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ