- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اہانتِ رسول پر ایک صحابی کا طرز عمل

چند بلاگرز کی طرف سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور اس پر مختلف حلقوں کے شدید رد عمل کے تناظر میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے کچھ ’’بلاگرز‘‘ یاد آگئے ہیں، جن میں سے ایک معروف عام ’’بلاگر‘‘ کا تذکرہ قارئین کے سامنے مناسب معلوم ہوتا ہے۔
صحابی رسول حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ جہاد کے ایک سفر میں وہ آنحضرت کے ساتھ تھے اور عبداللہ بن ابی بھی چند ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا۔ ایک مقام پر مہاجرین اور انصار کے چند لوگوں میں کسی بات پر تنازع ہوگیا، جس پر عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ مہاجرین جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ مدینہ منورہ میں آکر آباد ہوئے ہیں، ان کا معاملہ زیادہ ہی بڑھتا جارہا ہے، اس لیے انصار مدینہ ان مہاجرین پر جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کا سلسلہ روک دینا چاہیے تا کہ یہ لوگ مدینہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی عبداللہ بن ابی نے یہ بھی کہا کہ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عزت والے لوگ (نعوذ باللہ) ذلیل لوگوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیں۔ ان لوگوں کی یہ باتیں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے قریب بیٹھے ہوئے سن لیں اور ان کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیں۔ آنحضرت نے عبداللہ بن ابی کو بلاکر پوچھا تو اس نے ان باتوں سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اتنی پکی قسمیں کھائیں کہ آپ نے زید بن ارقم کو ڈانٹ دیا۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اس پر اس قدر غمزدہ اور پریشان ہوئے کہ اپنے خیمے میں آکر چھپ گئے، مگر اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی ایک مستقل سورت نازل کرکے زید بن ارقم کی صفائی دی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ یہ منافق لوگ جو آپ کے پاس آکر اس بات کی قسمیں اٹھاتے ہیں کہ وہ آپ کو خدا کا رسول مانتے ہیں، سراسر جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ تعالی خود ان کے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ بات جب مدینہ منورہ پہنچی تو غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمیت کچھ لوگوں نے حضور سے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو وہ اس گستاخی پر عبداللہ بن ابی کی گردن اڑادیں، مگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کردیا کہ اس کا تاثر برا ہوگا اور لوگ یہ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اب اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کرنا شروع کردیا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ دل چسپ اور ایمان افروز کردار عبداللہ بن ابی کے اپنے بیٹے کا تھا۔ ان کا نام بھی عبداللہ تھا اور ان کا شمار مخلص صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جب یہ سنا کہ ان کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مہاجر ساتھیوں کے بارے میں یہ باتیں کہی ہیں اور مسلمانوں میں اس کے بارے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے تو وہ خود حضور کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے، اگر آپ اس وجہ سے میرے والد کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی سعادت مجھے عطا فرمایئے، میں اپنے ہاتھوں سے اسے قتل کروں گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی اور نے قتل کیا تو شاید میری خاندانی غیرت اس کے خلاف جاگ اٹھے اور معاملہ کوئی اور صورت اختیار کرلے، پھر حضرت عبداللہ نے صرف اتنی بات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ معلوم کرکے کہ ان کا باپ کس راستے سے واپس آرہا ہے، اس راستے میں ننگی تلوار لے کر کھڑے ہوگئے۔ جب باپ آیا تو حضرت عبداللہ نے اس سے کہا کہ تم نے جناب رسول اللہ کے بارے میں (نعوذباللہ) ذلیل کا لفظ بولا ہے اور خود کو عزیز کہا ہے، اس لیے اب اپنی زبان سے کہو کہ میں ذلیل ہوں اور جناب رسول اکرم عزت والے ہیں، ورنہ اس تلوار سے تمہاری گردن ماردوں گا۔ عبداللہ بن ابی کو بیٹے کی اس دھمکی پر اپنی زبان سے یہ کہنا پڑا کہ میں ذلیل ہوں اور آنحضرت عزت والے ہیں۔ اس کے باوجود بیٹے نے کہا کہ میں تمہیں یہاں سے آگے اس وقت تک نہیں جانے دوں گا جب تک جناب نبی کریم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ تفسیر ابن کثیر کی روایت کے مطابق آنحضرت نے اجازت مرحمت فرمائی تو بیٹے نے اپنے باپ کو راستا چھوڑا اور وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوسکا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس طرز عمل کی وجہ یہ نہیں تھی کہ باپ سے میری کوئی ناراضی تھی بلکہ میرا خاندان اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارے قبیلہ (بنو خزرج) میں اپنے باپ کا مجھ سے زیادہ خدمت گزار کوئی نہیں تھا، لیکن جناب رسول اکرم کی شان اقدس میں گستاخی میرے لیے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں تھی اور اس کے لیے میں اپنے باپ کی جان لینے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔
یہ واقعہ جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، بخاری شریف کی بعض روایات میں بھی ہے اور تفسیر ابن کثیر میں اس کی کچھ تفصیلات مذکور ہیں، اس واقعے میں ہمارے لیے راہنمائی کے مختلف پہلو موجود ہیں۔ ایک یہ کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مسلمان کی محبت و عقیدت کا فطری تقاضا ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح کی توہین کسی صورت برداشت نہ کرے اور اس پر اپنے جذبات و رد عمل کا کھلم کھلا اظہار کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سنگین جرم کی سزا بلاشبہ قتل ہے لیکن جذبات کی شدت کے باوجود از خود کارروائی نہ کرے بلکہ اس معاملے میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسے منافقوں کی حرکتوں کو بے نقاب کیا جائے، انہیں چھپانے کی کوشش کامیاب نہ ہونے دی جائے اور ان کی قسموں پر اعتماد کرنے کی بجائے انہیں بے نقاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اس پس منظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب شوکت صدیقی نے بلاگرز کیس میں جو رویہ اختیار کیا ہے وہ نہ صرف ایک مسلمان کی دینی غیرت و حمیت کا اظہار ہے بلکہ قانون کا محافظ اور اس کے نفاذ کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے یہ ان کا فریضہ بھی ہے۔ قانون موجود ہے، وقوعہ سامنے ہے، جرم بلاشبہ سنگین ترین ہے اور معاملہ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کا ہے، اس لیے قوم ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ دستور و قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کیس کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائیں اور قبولیت و کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔

اشاعت: روزنامہ اسلام۔ 19/03/2017