- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حجرِ اسود……….. تاریخ و مقام!

ایک سوال ذہن میں اکثر اُٹھتا رہتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ’’حجر الاسود‘‘ پہلے یمن میں لوگوں کی تحویل میں تھا، تو کیوں تھا؟ اور کس طرح ان تک پہنچا اور کہاں سے آیا؟ اور اس پتھر کو کس ذریعہ سے یمن پہنچایا تھا؟ اس کے بعد کن وجودہات کی بنا پر یہ پتھر یمن سے مکہ پہنچا اور کیا ذریعہ تھا؟ پھر مکہ معظمہ میں کس وجہ سے اس پتھر کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی؟
واضح رہے کہ حجر اسود کے اندر ایسی زبردست قدرتی مغناطیسی کشش موجود ہے کہ ہر ملک و قوم اور رنگ و نسل کے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، یہ پُر شکوہ پتھر جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا۔
طوفان نوح میں آدم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اُٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکم جبل انہ قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اُسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔ (تفسیر قرطبی)
اس کے فضائل اور اوصاف میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، لیکن جنت کا یہ انمول موتی، عالی مرتبت، مقدس و متبرک یاقوت، گردشِ ایام کی ستم رانیوں سے محفوظ نہ رہ سکا، متعدد بار اُسے فساق و فجار ظالموں کے ہاتھوں تختۂ مشق بننا پڑا، بارہا حوادثات کا شکار ہوا اور اس کے نازنین بدن پر کتنی ہی مرتبہ زخم آئے۔
317ھ میں جب مکہ مکرمہ قرامطہ کے دستِ تصرف میں آیا، تو ابوطاہر سلیمان بن الحسن نے جو قرامطہ کا سردار تھا، حرم محترم میں خون کی ہولی کھیلی۔ ۸؍ذوالحجہ ۳۱۷ھ کو اس قدر قتل عام کیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہ زمزم بھر گیا، شہر اور مضافات کے تیس ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلادیا، جن میں سترہ سو حاجی اور سات سو طواف کرنے والے بھی شہید ہوگئے، اس نے یہ سارا کھیل میزابِ رحمت یعنی کعبہ شریف کا پرنالہ جو سونے کا تھا، اُکھاڑنے، مقام ابراہیم اور حجر اسود چوری کرنے کی نامشکور جسارت کے لیے کھیلا تھا۔
دو آدمی اس مذموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے، مگر آن واحد میں سر کے بل زمین پر گر کر واصل جہنم ہوگئے، مقام ابراہیم تو اس کے دست تصرف سے مامون رہا، کیونکہ خدام حرم نے اُسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیا تھا، مگر ۱۴؍ذوالحجہ ۳۱۷ھ بروز اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابوطاہر کے حکم سے حجر اسود کو کدال سے اُکھاڑلیا، اس پر کئی ضربیں لگائیں جس سے کچھ ریزے ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے اور اس کی جگہ خالی رہ گئی، تقریباً بائیس سال کا طویل زمانہ گزرجانے کے بعد بحرین کے شہر ’’ہجر‘‘ سے بروز بدھ ۱۰؍ذوالحجہ۳۳۹ھ کو یہ مبارک پتھر واپس ہوا، واپسی بھی معجزنما تھی، قرامطیوں سے بار بار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذرِ لنگ پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیا ہے، ان میں سے اسے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں، اگر تمہارے پاس کاس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کرلو، چنانچہ علماء کرام سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ان سب پتھروں کو آگ میں ڈالا جائے، جو پتھر آگے میں پگھل یا پھٹ جائیں وہ حجر اسود نہیں، حجر اسود کو آگ متاثر نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منوا کر اُسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنادیا گیا۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: ’’یہ ظالم ابوطاہر چیچک کے عارضہ میں مبتلا ہوا، اس کا جسم پھٹ گیا اور نہایت ذلت کے ساتھ مرا۔ ‘‘ (اعلام الاعلام، ص: ۱۶۵، مرقات، ج:۵، ص: ۳۲۰)
علامہ قطب الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابوطاہر قرامطی بدبخت کو ابرہہ کی طرح بیت اللہ کی بجائے اپنے شہر ’’ہجر‘‘ میں حج کا اجتماع کرانے کا جنون دماغ میں پیدا ہوا، اس نے اس غرض سے ایک عالیشان محل بنوایا جس کا نام ’’دارالہجرہ‘‘ رکھا، چنانچہ ۳۱۷ھ میں حج کے ایام میں ایک لشکرِ جرار لے کر مکہ مکرمہ پر حمہ آور ہوا، طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور احرام کی حالت میں حاجیوں پر دست ستم دراز کیا، حد یہ کہ حرم محترم کے اندر بھی بے دریغ قتل کیا، شہر کے علاوہ گرد و نواح میں قتل عام کا بازار گرم کیا، تیس ہزار بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، اس قدر روح فرسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا تھا، وہ ظالم کہتے تھے کہ تم مسلمان کہتے ہو: ’’من دخلہ کان آمنا‘‘ بتاؤ اب امن کہاں گیا؟‘‘
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’ابوطاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا، غلاف کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیا، حجر اسود کو اکھاڑ کے ساتھ لے گیا، اہل مکہ کے گھر بار اور مال و متاع کو لوٹ لیا، اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کردیا کہ آئندہ سے حج اس کے ہاں ہوا کرے گا۔‘‘
خلافت مستکفی کے امراء نے بے حد کوشش کی کہ کسی طرح حجراسود واپس آجائے، انہوں نے پچاس ہزار دینار سرخ کی پیش کش بھی کی، مگر قرامطی ٹَس سے مس نہ ہوئے۔ وہ اس خیال فاسد پر قائم تھا کہ یہ ناپاک جسارت اپنے امام عبیداللہ المہدی والیءِ افریقہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہے، لیکن جب منصور اسماعیل نے قیروان سے حجر اسود کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا اور ادھر عبیداللہ المہدی نے بھی ابوطاہر کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر حجر اسود واپس نہ کرو گے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ، اس لیے مجبوراً ۳۳۹ھ میں واپس کرنا پڑا، جب کے اس سے قبل خلافت مستکفی کی جانب سے پچاس ہزار دینار کے عوض پھی واپسی کا مطالبہ مسترد کردیا گیا تھا۔ (ابن خلدون، ج:۵، ص: ۱۹۶)
اور ’’ہجر‘‘ جیسا کہ بحرین میں ہے، اسی طرح یمن کے ایک شہر کا نام بھی ’’ہجر‘‘ ہے، اسی لیے بعضوں نے بحرین سے تعبیر کیا اور بعضوں نے یمن سے، لیکن دونوں شہر قریب قریب ہیں۔
حجراسود کو بوسہ دینے کے اہمیت یہ ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالی کا ہاتھ ہے، جس مسلمان کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف نصیب نہیں ہوا، لیکن اس نے حجر اسود کا بوسہ لے لیا تو اب اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کا اعزاز حاصل کرلیا۔‘‘ (جامع صغیر، ج:۱، ص: ۱۵۰)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حجر اسود کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ سکے گا اور زبان ہوگی جس سے بول سکے گا اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جنہوں نے اس کو بوسہ دیا تھا۔ (ابن ماجہ ص: ۲۱۷)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے تو اپنے مبارک ہونٹوں سے اس کا طویل بوسہ لیا اور زار و قطار رو رہے تھے، جب فارغ ہوکر دیکھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی گریہ کناں پایا تو آپ اس طرح گویا ہوئے: ’’عمر! یہی جگہ ہے جہاں آنسوؤں کی ندیاں بہائی جاتی ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ، ص: ۲۱۷)
اور مکہ مکرمہ میں اس پتھر کی بڑی اہمیت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پتھر کو مکہ میں بیت اللہ کے ایک گوشہ پر نصب فرمایا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے گوشہ پر ہی بوسی دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بیت اللہ میں ہی اس کی اہمیت ہے۔

تحریر: مفتی محمدانعام الحق قاسمی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ