- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سیرت طیبہ اجمالی نظر

لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں دَاخل ہوتے ہیں، لیکن دُنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیں،بلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سر مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبُّ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اُس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریش مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وَسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔

آج اَگر آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی جگہ کوئی اور دُنیا کا فاتح حکم ران ہوتا تو اَپنے دُشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکم ران کیا کرتے ہیں، لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمة للعٰلمین ہیں، اخلاق کے اُونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اَعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:

﴿وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم﴾۔(القلم:2)
ترجمہ: اور بے شک آپ بڑے بلند اخلاق پر قائم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: اخ کریم وابن اخ کریم۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں۔ یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:

﴿لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾۔(یوسف:92)
ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔

یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذہبوا فأنتم الطلقاء۔

جاوٴ تم سب آزاد ہو۔

آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا اسے امن ہے ، جو مسجد حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔

اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سے محبت کرنے لگے۔ اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے وَہاں اَپنے عمل سے اُن کے سامنے اَعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح وَاضح ہیں ،جن کی نظیر اِنسانی تارِیخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

غزوہٴ حنین
فتح مکہ کے بعد غزوہٴ حنین ہوا،قبیلہ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو اِطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے؟ مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وَسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وَسلم جعرانہ واپس ہوئے، جنگ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے ان کے قیدی واپس کردیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔

9 ھ…اس سال غزوہٴ تبوک ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو رُومیوں کی تیارِی کی اِطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقامِ تبوک پہنچ گئے۔ لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، اَئیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ”اَمیر حج“ بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔

10 ھ…اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک دستہ بنی مذحج کے مقابلہ میں بھیجا، ان کے بیس آدمی مارے گئے، باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو تعلیم وتبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا آخری حج ہے۔ جسے حجة الوداع، حجة البلاغ، حجة الکمال، حجة التمام، حجة الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اُصولوں کی تعلیم فرمائی۔

بنیادی اُصولوں کی تعلیم
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی زندگی حاکم وقت اور قاضی کے لیے نمونہ:

آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے کیوں کہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کام یابی کے ساتھ چلایا۔

آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے، کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اُصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی ،آپ ہی کا فرمان ہے:

”بخدا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وَسلم) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“

اور آپ ہی کا فرمان ہے:
”اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے، لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے ،کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت
بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوہٴ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وَسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ، بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے #
انا النبی لا کذب
انا ابن عبد المطلب
”میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔“

ایک بار اہل مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دُشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے، تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وَسلم تنہا، ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار، باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں، میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ ہی کا ارشاد ہے:
”ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے“۔

سنت مشورہ
آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے، جیسا کہ غزوہٴ بدر اور غزوہٴ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور عدل و اِنصاف
اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و اِنصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انہیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول اِنسان کو ہرگر قتل نہ کیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و تحمل
صبر و تحمل میں آپ سب کے امام ہیں، ایک اعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنی زور سے کھینچتا ہے کہ گردن مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِستقامت کے پہاڑ
حق پر صبر و اِستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی، جس کی نظیر تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے، آپ کے مخالفین نے آپ کو مال ودولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی۔ تاکہ آپ دعوتِ حق کو ترک کردیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرہ برابر متاثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہل حق کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے، آپ نے فرمایا:
”قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں، تاکہ میں اپنی اس دعوتِ حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و کرم
عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، فتح مکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ خود آپ کا ارشاد ہے:”جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔“

آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی سخاوت
جود و سخا میں بھی آپ سب سے آگے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔“

اُونچے اخلاق
اخلاق میں آپ اتنے اُونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا: ”اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں“۔

بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست
اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اُمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے، ایک باپ کیسا ہو اور ایک دوست کیسا ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وَسلم ایک کام یاب معلم اور مربی
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپ کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے، اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اُسوہٴ حسنہ ہیں۔

11ھ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا وِصال
11 ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے رُومیوں کے مقابلہ میں ”اُسامہ کا لشکر“ تیار فرمایا، مگر لشکر کی روانگی سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا مرضِ وفات تھا، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وَسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہے، نماز کی امامت کے لیے اپنی جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ دو شنبہ بارہ ربیع الاوّل کو ۶۳/ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کا وِصال ہوا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم اللہ کی امانت اللہ کے بندوں کو پہنچاچکے تھے اور دعوت و ہدایت کا کام پورا ہوچکا تھا۔ چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کو غسل دیا گیا، تین کپڑوں میں کفن دیا گیا اور مسلمانوں نے غم زدہ دلوں کے ساتھ فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہی حجرہ آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وأتباعہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا۔

اولاد
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے تین صاحب زادے تھے: قاسم، عبد اللہ، اِبراہیم۔ سب کا بچپن میں ہی اِنتقال ہوا۔چار صاحب زادیاں تھیں: زینب، رُقیہ، اُمّ کلثوم اور خاتونِ جنت فاطمة الزہرا۔

ازواجِ مطہرات
خدیجة الکبریٰ، عائشہ صدیقہ، حفصہ، اُمّ سلمہ، سودہ، زینب بنت جحش، میمونہ، زینب بنت خزیمہ، جویریہ، صفیہ، اُمّ حبیبہ۔

حضرت خدیجة الکبریٰ اور زینب بنت خزیمہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی حیات میں ہوئی۔ باقی نو (9) آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے وِصال کے وقت موجود تھیں۔ (رضی الله عنہن)

حسن و جمال
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیں، تاہم دو شعر قارئین کی تشنگیِ شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں #
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا
اور آپ صلی اللہ علیہ وَسلم سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا
آپ صلی اللہ علیہ وَسلم ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے
گویا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وَسلم چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
بشکریہ ماہنامه الفاروق (جامعہ فاروقیہ کراچی) ربیع الثانی 1438هـ