- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’مذہبی آزادی‘ و ’ برابری‘ اہل سنت ایران کے مسلمہ حقوق میں شامل ہیں

ایرانشہر (سنی آن لائن) ایران کے نامور سنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایرانی بلوچستان کے مرکزی شہر ایرانشہر میں جامعہ حقانیہ و جامعہ شمس العلوم کی دوسری مشترکہ تقریب دستاربندی و ختم بخاری کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حکام کو اپنی ’بعض داخلہ و خارجہ‘ پالیسیوں پر نظرثانی کی دعوت دی۔
جمعہ چھ جنوری دوہزار سترہ کو نماز جمعہ کے بعد جو شہر کی مرکزی عیدگاہ میں قائم ہوئی جہاں خطیب اہل سنت زاہدان نے عالم اسلام کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج دشمن مسلمانوں کے حوالے سے سازشوں میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں مذہبی و قومیتی لڑائیوں کے ذریعے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالیں اور کمترین بدلے پر اپنے مذموم مقاصد حاصل کریں۔ لہذا مسلمانوں کو چوکس رہنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: دشمن چاہتاہے مسلم ممالک میں تقسیم آئے اور یہ ممالک مزید بکھر جائیں۔ حتی کہ صوبہ سیستان بلوچستان کے لیے بھی سازشیں ہیں۔ لوگوں کو ’مکرانی‘، ’سرحدی‘، ’سربازی‘ و۔۔۔ کے ناموں سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ سارے مسلمان اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے الفاظ سے پرہیز کریں جن سے اختلاف و فرقہ واریت کی بدبو آتی ہے اور مسلمانوں کے مفادات خطرے میں پڑجاتے ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے ایرانی حکام کو مخاطب کرکے مزید کہا: عصرِ حاضر کے حالات کا تقاضا ہے کہ حکام اپنی بعض پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ داخلی امور میں ایرانی مذاہب و قومیتیں جہاں بھی ہوں، وہ ایرانی ہی ہیں اور سب کا تعلق ایران سے ہے۔ لہذا انہیں برابر کے حقوق ملنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ایران کی سنی برادری نے ہمیشہ اپنے ملک کے دشمنوں کی مخالفت کی ہے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ البتہ ان کے کچھ قانونی مطالبات بھی ہیں اور قانونی راستوں اور چینلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کی جد و جہد جاری رکھیں گے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: عالم اسلام اور عالمی تبدیلیوں کے حالات کا بھی تقاضا ہے ہمارے حکام اپنی ماضی کی پالیسیوں میں نظرثانی کریں۔ سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ تمام مسالک و مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے اور نگاہ کی اس تبدیلی سے قومی اتحاد و یکجہتی کو تقویت ملے گی۔ اسی صورت میں دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اہل سنت ایران کا سب سے بڑ امطالبہ یہی ہے کہ امتیازی رویوں کا خاتمہ کیا جائے اور ان کے حقوق پر توجہ دی جائے۔ اسی طرح ان کی مذہبی آزادیوں کو پامال نہ کیا جائے، چاہے وہ ایران کے کسی بھی علاقے اور شہر میں ہوں۔ ہماری آئینی آزادیوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکیں، مسجد اور نمازخانہ تعمیر کرسکیں۔ یہ اہل سنت کے مسلمہ حقوق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: سپریم لیڈر سے درخواست ہے کہ اہل سنت کے حقوق پر توجہ دینے کے احکامات صادر کریں۔ شیعہ مراجع تقلید اور شیعہ و سنی علمائے کرام سے بھی درخواست ہے اپنی نگاہیں وسیع کردیں۔ آج کے حالات ماضی کے حالات سے یکسر مختلف ہیں۔ ہم سب کو وقت کی نزاکتوں اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اسلام ظلم و جبر کے خلاف ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے جامعہ حقانیہ و شمس العلوم کی مشترکہ تقریب دستاربندی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اسلام اعتدال و میانہ روی کا دین ہے اور سب کو اعتدال کا درس دیتاہے۔ اسلام مصالحت اور دوستی کا دین ہے اور دورنگی، منافقت، غنڈائی اور ظلم و جبر کے مخالف ہے۔
انہوں نے مزید کہا: شائد کچھ لوگ میری اس بات کی مخالفت کریں، لیکن میرا خیال ہے کہ اسلام کافروں کو مٹانے کے لیے نہیں ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لیے آیاہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں، عیسائیوں اور بت پرست مشرکین سے معاہدے منعقد کراکے ان سے صلح کیا۔ اسلام اور نبی کریم ﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت کا باعث ہیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: اسلام کا خلاصہ یہی ہے کہ حق اور باطل دنیا والوں کے سامنے واضح ہوجائیں اور لوگ ہدایت و رشد حاصل کریں۔ حق کی راہ بند نہ ہوجائے اور کسی پر جبر بھی نہ ہو۔
مسلمانوں کی اسلام سے دوری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کے مسلمان اس ابدی دین کے تابندہ احکام سے کوسوں دور جاچکے ہیں اور کفر و شرک اور گناہوں کی پلیدیوں میں گر چکے ہیں۔ ان پلیدیوں سے نجات کا واحد راستہ اسلام ہی ہے جس سے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آج کل مسلمان آپس میں لڑرہے ہیں اور مختلف قسم کی مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی و علاقائی لڑائیوں میں اپنی قوتیں کھورہے ہیں۔ یہ سب قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ تمام مسلمانوںکو چاہیے قرآن و سنت کے سایے تلے اکٹھے ہوجائیں۔ اسلامی شریعت پر پابند ہوکر ہی مسلمان کامیاب ہوسکتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلمانوں کی ’ذمہ داری‘ پر زور دیتے ہوئے کہا: مسلم معاشرے کے تمام افراد گناہ اور فساد کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس کریں اور اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرکے دعوت سے کام لیں۔ اسلام نے ہمیں ذمہ داری دی ہے تاکہ ہم اپنی اور معاشرے کی اصلاح کی فکر کریں۔