- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رحمت عالم محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالی نے قران مجید میں اپنے حبیب r کا متعدد مقامات پر صفت رحمت سے ذکر فرمایا ہے رحمۃ کا لفظ اپنے اندر اہم ترین صفات و معانی کوشامل ہے، چناچہ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم کو بیان کرے کے لئے ہمیں اردو میں شفقت نرمی حنان رافت وغیرہ الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے ،اس کی نقیض و ضدحدت و شدت سختی و غلظت وغیرہ ہے ۔
رحمت یہ ایک ایسا عاطفہ اور جذبہ ہے جس کے وجود سے بندہ میں بر و احسان اورخیر و بھلائی کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ، اللہ تعالی نے اپنے اندر اس صفت مبارکہ کے وجود کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے: هو الرحمن الرحيم(وہ بہت رحمت والا،نہایت ہی مہربان ہے) اور ارشاد فرمایا : اسی مبارک صفت سے اللہ تبارک وتعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے متصف ہونے کو ان الفاظ سے بیان فرمایا : {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ [التوبة : 128]} تمہارے پاس ایک ایسے رسول تشریف لائے ہیں جو تم ہی میں سے ہیں ، جن کو تمہاری مشقت کی بات نہایت گراں گززرتی ہے ، جو تمہارے خیر خواہ ہیں اور مومنین کے ساتھ بڑے ہی شفیق و مہربان ہیں ، نیز ارشاد باری تعالی ہے : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [آل عمران : 159] اللہ کی رحمت سے تم ان (مؤمنین )کے لئے نرم مزاج ہو ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : لا يرحم الله من لا يرحم الناس ” (بخاری و مسلم) اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتے جو لوگوں پر رحم نہ کرے ۔ الغرض رحم کی صفت ایسی عظیم ہے کہ جس کے اندر سے یہ صفت جاتی رہی وہ بہت ساری خیر سے محروم ہوگیا بلکہ ایسے شخص کی زندگی شقاوت و محرومیت کا شکار ہو جاتی ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صادق و مصدوق اس حجرہ شریفہ کے مکین ابوالقاسم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :رحمت کسی بدبخت ہی سے چھینی جاتی ہے « لاَ تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلاَّ مِنْ شَقِىٍّ.(أبوداود والترمذي») آپ ﷺ رحمت و شفقت کا پیکر ِبے مثال ، بلکہ رحمت و رافت کا محور و مرکز تھے آپ کی اس صفت عظیم کا قران کریم نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ [الأنبياء : 107] (اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی بناکر بھیجاہے) آپ ﷺ کی ذات جہاں مؤمنین کے لئے رحمت ہے وہیں کفار بلکہ تمام بنی نوع انسان حتی کہ حیوان تک کے لئے بھی آپ ﷺ رحمت و شفقت کا پیکر جمیل ہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر تمام مخلوق کے لئے آپ کی رحمت عامہ کا اعلان کر دیا گیا، کون ہے جو آپ ﷺ کی اس صفت رحمت میں شریک و سہیم ہو ؟ آپ کی لائی ہوئی شریعت آپ کا پیش کردہ دین اسلام ،اس کا پیغام سب کچھ ہی سراپا رحمت و خیر ہے ،جس میں ساری ہی انسانیت کی بھلائی و خیر خواہی اور تمام دنیائے انسانیت کے لئے پیغام رحمت و رافت ہے ، وہ دین رحمت جس پیغام ہی سلامتی کا ضامن جس کا رسول ہی رحمت کا مظہر اور سلامتی کا علمبردار، جس کا نبی رحمت ساری دنیا میں پیغام محبت عام کرنے کا داعی ، جس کا تحیہ اور سلام بھی سلامتی کی دعا پر مشتمل اور اہل جنت کے سلام کے مشابہ ہو ، تو کیا اس جیسی رحمت و الفت و محبت و رافت کی چھایا رکھنے والے کوئی دین و ملت یا پیغمبر و پیشوا اس زمین کے اوپر یا آسمان کے نیچے پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ، اس لئے جو شخص بھی انصاف پسندی اور منصف مزاجی سے سرورِدوعالم ﷺ کی زندگی کا جائزہ لے آپ rکے اخلاق شریفانہ اور محامد کریمانہ پر نظر ڈالے تو اس کو یقیناً اس کا اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ﷺ کی ذات میں سارے فضائل جمع کر دیئے گئے ہیں ۔ اور سب ہی فضائل و محاسن آپ کی طبیعت و شرست میں ایسے طور پر ودیعت کر دیئے گئے تھے کہ اس میں آپ کو ذرا بھی تکلف کا سہارا نہ لینا پڑتا بلکہ یہ محامد و کریمانہ اخلاق گویا آپ کی فطرت کے ساتھ لازم و ملزوم تھے ،اور آپ ﷺ کے ہر قول و فعل میں رحمت کا پہلو نمایاں تھا ۔
طائف کے لوگوں نے کیا کچھ کم ستایا تھا آج اہل طائف کے محاصرے کا وقت ہے چاہتے تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے، ان کی نسلوں کو ختم کردیتے ، بعض صحابہ کے کہنے کے باوجود کہ قبیلہ ثقیف (طائف کا مشہور و معروف قبیلہ ) کے لئے بد دعا فرمادیں آپ ﷺ کی زبان مبارک سے محبت و شفقت سے لبریز یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں : أللهم اهد ثقيفا وائت بهم (مسلم) اے اللہ! قبیلہ ثقیف کے لوگوں کو ہدایت عطا فرما کر میرے پاس بھیج دے ۔
حدیث شریف کے تناظر میں معلوم ہوا کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ : اپنے نبی رحمت کی اتباع میں وہ کفار تک کے لئے بد دعا نہیں بلکہ اس کی ہدایت کی دعا کرتا ہے ، نبی رحمت ﷺ سے ایک مرتبہ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! مشرکین کے لئے بد دعا فرما دیجئے (ادع على المشركين والعنهم ) لسانِ نبوت سے نکلے ہوئے الفاظ تھے :إنما بعثت رحمة ولم أبعث لعانا”(مسلم)میں تو صرف پیمبر رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں نہ کہ لعنت کرنے والا ۔
حضرت نبی اکرم ﷺ نہ صرف یہ کہ صفت رحمت سے خود متصف تھے بلکہ آپ ﷺ نے یہ صفات کریمانہ اپنے اصحاب و احباب کے اندر بھی پیدا فرمائی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے زریں صفحات شاہد ہیں کہ مسلمانوں کے غیر مسلموں سے تعلقات استوار رہے باہمی تعاون اور رواداری کی مثالیں قائم ہوئیں ، عدل و انصاف کے نقوش روشن ہوئے حتی کہ اہل کتاب سے ازدواجی رشتے و مصاہراتی تعلقات ہوئے اور اس کی اجازت دی گئی ۔
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے غزوات اور سرایا کا تعلق ہے تو ان کا مقصد بھی دعوت رحمت کے انتشار اور دنیائے انسانیت کو دین رحمت سے روشناس کرانے بھٹکتی اور سسکتی انسانیت کو اس کے خالق و مالک سے ملانا تھا، کہ یہ دین اسلام دینِ رحمت ہے جس میں محبت و رافت شفقت و الفت کی چھاپ نمایاں ہے جہاں امن ہی امن اور سلامتی ہی سلامتی سایہ فگن ہے، اسلام کی اساس ہی سلامتی پر ہے اس مذہب کا سلام جس کو نماز جیسی عبادت کے اختتام پر روزانہ متعدد بار دہرایا جاتا ہے اس کے الفاظ دیکھئے تو سلامتی کی دعا کے سوا کچھ نہیں : السلام علیکم و رحمۃ اللہ ،جس دین نے اپنے متبعین کو قدم قدم پر سلامتی کا سبق دیا ہو جہاں صبح و شام سلامتی کی دعائیں زبان زد خاص و عام ہوں ، جس مذہب کے رب کا نام بھی السلام ہو کہ جس کا ذکر کرنا ہر نماز کے بعد مسنون ہو :”أللهم أنت السلام و منك السلام”کیا وہ مذہب سلامتی سے عاری،ظلم ودہشت اور حقد و بغض و عداوت سے پُر ہوسکتا ہے ؟
ہرگز نہیں اس دینِ رحمت نے قدم قدم پر اپنے متبعین کو سلامتی قائم کرنے کا سبق سکھایا ہے کہ تمام مخلوقات کے لئے اس کے دل میں رحمت کے جذبات ہمیشہ موجزن رہیں ، اسلام میں جنگ کا نظریہ مدافعانہ ہے یعنی انسانوں کو اعتدا٫ات و زیادتی سے روکنے کیلئے اسلام میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے ، [1] ارشاد ربانی ہے : فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ [البقرة : 194] پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو اس کی زیادتی کے بقدر تمہیں بدلہ لینے کی اجازت ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو یاد رہے کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں افراد سے جنگ کی جنہوں نے آپ سے اعلان جنگ کیا ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [البقرة : 190] اور اللہ کے راستے میں ایسے لوگوں سے قتال کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو بلا شبہ اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ زندگی پر نظر ڈالئے تو ہمیشہ آپ نے صلح و سلامتی کے ہرموقع پر سبقت و پہل فرمائی ہے قرآنی حکم بھی یہی ہے کہ : وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا [الأنفال : 61] اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح قبول کرلینا۔
اس کے برخلاف جب ہم ماضی قریب کی جنگوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں ، چنانچہ پہلی عالمی جنگ کے موقع پر صرف چند سالوں 1914ء سے 1918ء ہی میں چونسٹھ لاکھ جانوں کا قتل عام ہوتا نظر آتا ہے ۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ میں انسانی تباہ کاری کی یہ تعداد 1939 ء سے 1945تک پینتیس ملین سے لیکر ساٹھ ملین تک پہونچتی ہے اور یہ بھی تقریبی اندازہ ہے صحیح تعداد اس سے متجاوز ہی ہے ۔ اسی پر دوسری بعض جنگوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے مثلاً : چین میں مارکسی نظام کو ملک میں نافذ کرنے کیلئے 1965 کے مختصر زمانہ میں اکسٹھ ملین لوگوں کو برباد کیا اسی طرح ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں بم برسا کر ذرا سی دیر میں ساری آبادی جو تقریباً ستر ہزار تھی تباہ کردی گئی کچھ لوگوں کی جان بچی بھی تو وہ مرنے والوں سے بری حالت میں تھے ۔ 1975 سے 1979ء تک کمپوڈیا کی ایک تہائی آبادی کو صرف نظریاتی اختلاف کی وجہ سے تباہ و برباد کر دیا گیا اسی طرح بوسینیا کے دس ہزار افراد جس میں بچے بھی شامل تھے صرف تین دن میں دنیا سے نیست و نابود کردیئے گئے ۔
یہ حالات تباہی تو کچھ پہلے کے تھے اب اس نئی ٹیکنالوجی کے دورِ عروج میں جس میں پوری دنیا کو انٹرنیٹ وغیرہ میڈیا نے ایک گاؤں کے مثل کردیا ہے ساری دنیا کے آنکھوں کے سامنے لاکھوں لوگوں کو زندگی سے محروم کیا جارہا ہے ، عراق کے احوال کس سے پوشیدہ ہیں جہاں 2003ء سے لیکر ابتک ہزاروں گھروں کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے لاکھوں افراد زندگی سے محروم ہوگئے ہیں اور بلا توقف یہ تباہی کا سلسلہ جاری ہے ، اس سے قبل افغانستان ، ایران عراق جنگ ، اور وقت حاضر میں ملک شام ، پڑوسی ملک برما ، مصر و فلسطین وغیرہ متعدد ممالک میں جو جانی نقصان ہو رہا ہے وہ لرزا دینے والا ہے ۔
اسلام کی سماحت کا روشن ثبوت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے مخالفین یا غیروں کے ساتھ ہمیشہ تعلقات صحیح اصول و ضوابط اور عدل و انصاف کی بنیادوں پر قائم کئے ہیں ، جس میں خیر خواہی اور احسان و حسن سلوکی کی تابندہ مثالیں قائم کیں ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر باہمی معاونت حتی کہ ازدواجی تعلقات اور شادی بیاہ جیسے گہرے رشتے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔

حسن مدنی ندوى ( مدینہ منورہ)
(بصیرت فیچرس)