- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہدِ رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (آٹھویں قسط)

دوسری صدی ہجری میں سنن و آثار اور احکام کے ائمہ اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ
دوسری صدی ہجری میں سنن و آثار اور احکام کا علم تین ائمہ فن میں دائر و سائر سمجھا جاتا تھا۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے:
’’العلم یدور علی ثلاثۃ: مالک، و اللیث، و ابن عیینۃ‘‘۔ (۱)
’’سنن و آثار اور احکام کا فن تین ائمہ امام مالک رحمہ اللہ (۹۳۔۱۷۹ھ) لیث رحمہ اللہ (۹۴۔۱۷۵ھ) اور ابن عینیہ رحمہ اللہ (۱۰۷۔۱۹۸ھ) میں دائر ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا مقولے پر مورخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: دوسری صدی ہجری میں علم سنن و آثار کو ان تین ائمہ حدیث میں محدود و منحصر کرنا صحیح نہیں۔ ان کے ساتھ سات ائمہ فن اور بھی ہیں، اور وہ یہ ہیں: اوزاعی، سفیان ثوری، معمر، ابوحنیفہ، شعبہ، حماد بن مسلم اور حماد بن زید رحمہم اللہ۔ (۲)
حافظ شمس الدین الذہبی الشافعی رحمہ اللہ کے بیان سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ سنن و آثار کے علوم میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہی مرتبہ و مقام ہے، جو امام مالک، ابن عینیہ، شعبہ، حماد بن سلمہ، معمر، سفیان ثوری، لیث اور حماد بن زید رحمہم اللہ کا ہے، ان میں سے اکثر کی روایت بکثرت صحاح ستہ میں موجود ہیں، جیسا کہ ان کے رموز اور علامات سے ظاہر ہے۔

ائمہ جرح و تعدیل کے یہاں امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا مقام
اس امر کی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ متشدد ائمہ جرح و تعدیل کے طبقۂ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ میں کسی امام سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جرح منقول نہیں، بلکہ ان سے امام اعظم رحمہ اللہ کی توثیق منقول ہے۔

طبقۂ اولیٰ
طبقۂ اولیٰ میں امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کا شمار ہے اور شعبہ رحمہ اللہ کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’لولا شعبۃ لما عرف الحدیث بالعراق۔‘‘ (۳)
’’شعبہ رحمہ اللہ اگر نہ ہوتے تو عراق میں حدیث کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔‘‘
لیکن جرح کرنے میں شعبہ رحمہ اللہ، سفیان ثوری رحمہ اللہ سے زیادہ سخت اور تیز ہیں اور شعبہ اولاً خود کوفیُّ المذہب اور امام اعظم رحمہ اللہ کے پیرو ہیں۔ (۴)
ثانیاً: امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ابوالولید طیاسی رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’کان شعبۃ حسن الذکر لأبی حنیفۃ کثیر الدعاء لہ ما سمعتہ قط یذکر بین یدیہ الا دعا لہ۔‘‘ (۵)
’’شعبہؒ ابوحنیفہؒ کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے اور ان کے حق میں بہت دعا کرتے تھے، میں نے انہیں جب بھی سنا کہ ان کے سامنے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر کیا گیا ہو تو انہوں نے موصوف کے لیے (ضرور) دعا کی۔‘‘
اور یحیی بن معین رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’ھذا شعبۃ بن الحجاج یکتب الیہ أن یُحدِّث و یأمرہ و شعبۃ شعبۃ۔‘‘ (۶)
’’شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ کو لکھتے تھے کہ حدیث بیان کریں اور انہیں اس کے بیان کرنے کا حکم دیتے تھے، اور شعبہ تو شعبہ ہیں۔‘‘
امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ رحمہ اللہ کسی سے کہیں اور اسے حکم دیں، خیال فرمائیں وہ کس درجہ کا محدث و حافظ حدیث ہوگا۔

طبقہ ثانیہ
طبقہ ثانیہ میں سید الحفاظ یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ اور عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ داخل ہیں۔ یحیی القطان کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ما رأیت یعینی مثل یحیی بن سعید القطان۔‘‘ (۷)
’’میری آنکھوں نے یحیی بن القطان جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
اور حافظ عصر امام حدیث و علل علی بن المدینی رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’ما رأیت أحدا أعلم بالرجال منہ۔‘‘ (۸)
’’میں نے یحیی سے بڑھ کر رجال کا عالم نہیں دیکھا۔‘‘
یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ جرح کرنے میں ابن مہدی رحمہ اللہ سے زیادہ سخت ہیں، ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ’’الانتقاء‘‘ میں یحیی رحمہ اللہ کا یہ قول بصراحت نقل کیا ہے:
’’لا نکذب اللہ عزوجل، کم من شئی حسن قالہ أبوحنیفہ، و ربما استحسنا الشئی منہ رأی أبی حنیفۃ و أخذنا۔‘‘ (۹)
’’ہم جھوٹ نہیں بولتے، واللہ بہت سی اچھی باتیں ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہی ہیں اور ہم نے ان کی بہت سی باتوں کو اچھا سمجھا اور ان پر عمل کیا۔‘‘
یحیی بن معین رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’کان یحیی بن سعید یذھب فی الفتوی مذھب الکوفیین۔‘‘ (۱۰)
’’یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ کوفیوں کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔‘‘
یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دانی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’واللہ لأعلم ھذی الامّۃ بما جاء عن اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ (۱۱)
’’اللہ کی قسم! ابوحنیفہ رحمہ اللہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم تھے۔‘‘

طبقۂ ثالثہ
طبقۂ ثالثہ میں سید الحفاظ یحیی بن معین رحمہ اللہ (۱۰۸۔۲۳۳ھ) اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔۲۴۱ھ) ہیں۔
یحیی بن معین رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بہ نسبت جرح کرنے میں زیادہ تیز ہیں۔ یحیی بن معین رحمہ اللہ کے متعلق علی بن المدینی رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’انتھی علم الناس الی یحیی بن معین۔‘‘ (۱۲)
’’علماء کا علم یحیی بن معین پر ختم ہے۔‘‘
اور اس امر کا اعتراف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بھی ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’یحیی بن معین أعلمنا بالرجال۔‘‘ (۱۳)
’’یحیی بن معین ہم میں رجال کے سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘
یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ’’صدوق‘‘ بہت سچا قرار دیا ہے، چنانچہ حافظ مغرب علامہ ابن عبدالبر القرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یحیی بن معین سے پوچھا گیا کہ اے ابوزکریا! (یہ یحیی کی کنیت ہے) ابوحنیفہ رحمہ اللہ روایت حدیث میں صدوق ہیں؟ جواب دیا: جی ہاں! وہ صدوق (ہمیشہ سچ بولنے والے) تھے۔‘‘ (۱۴)
یحیی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ثقۃ ما سمعت أحداً ضَعَّفَہ۔‘‘ (۱۵)
’’ابوحنیفہ رحمہ اللہ ثقہ ہیں، میں نے کسی کو انہیں ضعیف کہتے نہیں سنا۔‘‘
اور صالح بن محمد الاسدی الحافظ رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’سمعت یحیی بن معین یقول کان أبوحنیفۃ ثقۃ فی الحدیث۔‘‘ (۱۶)
’’میں نے یحیی بن معین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں ثقۃ اور معتبر تھے۔‘‘
محمد بن سعید العوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سمعت یحیی بن معین یقول: کان أبوحنیفۃ ثقۃ، لا یحدث بالحدیث الا بما یحفظہ و لا یحدث بما لم یحفظ۔‘‘ (۱۷)

طبقۂ رابعہ
طبقۂ رابعہ میں امام حافظ کبیر ابوحاتم محمد بن ادریس حنظلی رازی رحمہ اللہ (۱۹۵۔۲۷۷ھ) اور محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴۔ ۲۵۶ھ) کا شمار ہوتا ہے، اور ابوحاتم رازی رحمہ اللہ جرح کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ کے مقابلے میں زیادہ سخت واقع ہوئے ہیں۔ اسی طرح علی ابن المدینی رحمہ اللہ کو بھی متشدد سمجھا جاتا ہے اور وکیع کو بھی متشدد خیال کیا جاتا ہے۔ ان سے کوئی جرح منقول نہیں، موصوف کے متعلق سید الحافظ یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما رأیت أحداً أقدامہ علی وکیع، کان یفتی برأی أبی حنیفہ و کان یحفظ حدیثہ کلہ و کان قد سمع من أبی حنیفۃ حدیثاً کثیراً۔‘‘ (۱۸)
’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ میں اُسے وکیع پر ترجیح دوں، وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر فتوی دیتے تھے اور وہ اپنی تمام حدیثوں کے حافظ تھے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بہت زیادہ حدیثیں سنی تھیں۔‘‘
ائمہ فن حدیث امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے حدیث روایت کرتے ہیں، یہ فن حدیث میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مہارت و ثقاہت کی روشن دلیل ہے۔ چنانچہ علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے سفیان ثوری رحمہ اللہ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ، وکیع بن الجراح رحمہ اللہ، عباد بن العوام رحمہ اللہ اور جعفر بن عون رحمہ اللہ نے روایت کی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ثقہ ہیں، ان سے روایت کرنے میں کوئی جرح نہیں۔‘‘ (۱۹)
مذکورہ بالا ائمہ فن حدیث میں مجتہد مطلق امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی ہیں، جن کا مذہب جامع الترمذی میں ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح فقہاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد امام عراق حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ المتوفی ۱۲۰ھ بھی ہیں، جنہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے۔ (۲۰)

طبقۂ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ میں حنفی ائمہ فن جرح و تعدیل
شعبہ، امام یحیی بن سعید القطان اور یحیی بن معین رحمہم اللہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق منقول ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں ائمہ فن حدیث و ائمہ جرح و تعدیل ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے تھے۔ اس سے بڑھ کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ثقاہت کی اور کونسی روشن دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟! یہ وہ ائمہ فن ہیں جن کی اجتہادی آراء و اقوال سے فن رجال کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اور راویانِ حدیث و آثار کی ثقاہت کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور اُنہی کے اقوال و آثار کی تقلید کی جاتی ہے۔

فن جرح و تعدیل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مرتبہ
فن جرح و تعدیل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو جو بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ ائمہ فن ان کے اقوال کو کتابوں میں اپنی سند سے نقل کرتے اور بطور سند پیش کرتے ہیں، چنانچہ امام ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ ’’کتاب العلل‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أحداً أکذب من جابر الجعفی و لا أفضل من عطاء بن أبی رباح‘‘ (۲۱)
’’ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے جابر جعفی سے بڑھ کر جھوٹا اور حضرت عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
اور حافظ عبداللہ بن عدی جرجانی رحمہ اللہ نے ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ میں اس بات کو ان الفاظ سے نقل کیا ہے:
’’ما رأیت فیمن لقیتُ أفضل من عطا بن أبی رباح و لا لقیت أکذب من جاب الجعفی۔‘‘ (۲۲)
’’میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں عطا بن ابی رباح سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا اور میں جن سے ملا ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا نہیں دیکھا۔‘‘
مذکورہ بالا ائمہ فن کا اپنی سند سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول نقل کرنا امام موصوف کی ثقاہت اور فن جرح و تعدیل میں ان کی مہارت و امامت کی روشن دلیل ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ و حدیث پر نظر اور صحیح حدیث کا ادراک و بصیرت
فنونِ حدیث میں تفقہ ایک اہم عنصر ہے اور نصف علم کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد حافظ علی بن المدینی رحمہ اللہ المتوفی ۲۳۴ھ کا قول ہے:
’’التفقہ فی الحدیث نصف العلم و معرفۃ الرجال نصف العلم۔‘‘ (۲۳)
’’علم حدیث میں فقہی بصیرت حاصل کرنا آدھا علم ہے اور معرفتِ رجال آدھا علم ہے۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں علموں میں اگر کسی کو دقت نظر و مہارت فن حاصل ہے تو اسے بلاشبہ حدیث کا پورا علم حاصل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن محدثین کو فقہی بصیرت حاصل نہیں وہ کامل محدث نہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ میں یہ دونوں باتیں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ امام موصوف کی فقہی بصیرت اور دینی تفقہ کے متعلق مجتہد مطلق امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’الناس عیال أبی حنیفۃ فی الفقہ۔‘‘ (۲۴)
’’فقہ میں لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بال بچے ہیں۔‘‘
یہی بات امام موصوف سے ان الفاظ میں بھی منقول ہے:
’’الناس فی الفقہ عیال علیٰ أبی حنیفۃ۔‘‘ (۲۵)
’’لوگ فقہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اولاد ہیں۔‘‘
حافظ مغرب علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام شافعی سے اس حقیقت کو ان الفاظ سے بھی نقل کیا ہے:
’’من أراد الفقہ فھو عیال أبی حنیفۃ‘‘ (۲۶)
’’جو فقہ و فقہی بصیرت حاصل کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا محتاج ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں:
’’من أراد أن یتبحّر فی الفقہ فھو عیال أبی حنیفۃ۔‘‘ (۲۷)
’’جو فقہ میں عبور و تبحر چاہتا ہو وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا محتاج ہے۔‘‘

امام ابویوسف رحمہ اللہ کی حجازی ائمۂ فن سے بھی حدیث کی تحصیل
قاضی امام ابویوسف رحمہ اللہ کی حدیث میں وسعت و دقت نظر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف نے عراق ہی کے حفاظ و فقہا اور محدثین سے سنن و آثار کا سماع نہیں کیا تھا، بلکہ حجاز کے نامور حفاظ و فقہاء و محدثین سے بھی احادیث و آثار کا سماع کیا تھا، چنانچہ عباسی خلفا میں پہلا خلیفہ ابوالعباس السفاح عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جب ۱۳۲ھ میں برسر اقتدار آیا تو اس نے مدینہ کے نامور عالم امام مالک رحمہ اللہ کے استاد و شیخ ربیعۃ الرای کو انبار (کوفہ) بلایا، تا کہ عراق میں قضا کا منصب ان کے سپرد کیا جائے۔ (۲۸)
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ اسلام میں عہد رسالت ہی سے منصب قضا اربابِ فتویٰ کو دیا جاتا تھا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، علی المرتضی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم و غیرہ سب ہی اصحاب الرائے اور اربابِ فتویٰ تھے، جیسا کہ ان کے فتووں میں اس امر کی صراحت گزرگئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تفقہ اور فقہی بصیرت کو کیسا بلند مقام حاصل رہا ہے۔ ابوالعباس سفاح کی وفات کے بعد اس کا بھائی ابوجعفر المنصور عبداللہ بن محمد عباسی ۱۳۶ھ میں بر سر اقتدار رہا، اس نے ہاشمیہ سے دارالخلافہ ۱۴۵ھ میں بغداد منتقل کیا تو مدینہ منورہ کے نامور علماء کو بغداد بلایا، چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’خلیفہ عباسی ابوجعفر منصور نے اپنے دور خلافت (۱۳۶۔۱۵۸ھ) میں حجاز کے علماء حفاظِ حدیث اور فقہا و محدثین کو عراق دارالخلافہ (کوفہ) بلایا، تا کہ وہ علوم کی نشر و اشاعت کریں، چنانچہ ہشام بن عروہ رحمہ اللہ، محمد بن اسحاق رحمہ اللہ، یحیی بن سعید الانصاری، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، حنظلہ بن ابی سفیان جمحی، عبدالعزیز عبداللہ بن ابی سلمہ ماجشون رحمہم اللہ و غیرہ آئے تو امام ابویوسف رحمہ اللہ ان کی تعلیمی مجالس میں حاضر ہوتے اور ان سے حدیث سیکھتے تھے اور جو علما حجاز سے آئے ان لوگوں سے بہت زیادہ حدیثیں سنی ہیں۔ انہی وجوہ و اسباب کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں قاضی ابویوسف حدیث کے بڑے عالم تھے۔ (۲۹)
معلوم ہوتا ہے کہ ۱۳۲۔۱۴۶ھ کے درمیانی زمانے میں قاضی ابویوسف رحمہ اللہ نے حجازی علماء سے حدیثوں کا سماع کیا تھا، اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کو سنن و آثار کا سب سے بڑا عالم مانا جاتا ہے۔

فقہ حدیث اور حدیث میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کا مقام و مرتبہ
امام ابویوسف رحمہ اللہ کو فقہِ حدیث اور حدیث میں جو بلند مقام حاصل ہے، اس کے متعلق علامہ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أفقہ أصحابہ أبویوسف۔‘‘ (۳۰) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابویوسف رحمہ اللہ تھے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے سترہ برس استفادہ کیا تھا، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں: ’’صحبت أباحنیفہ سبع عشرۃ سنۃ۔‘‘ (۳۱) ’’میں علم حاصل کرنے کے لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی صحبت میں سترہ برس رہا ہوں۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ کے نامور شاگرد امام مزنی رحمہ اللہ متوفی ۳۶۴ھ فرماتے ہیں: ’’أتبعھم للحدیث۔‘‘ (۳۲) ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں امام ابویوسف رحمہ اللہ سب سے بڑھ کر حدیث کا اتباع کرنے والے ہیں۔‘‘
امام ابویوسف رحمہ اللہ کے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’کان یعقوب أبویوسف منصفا فی الحدیث۔‘‘ (۳۳)۔۔۔ ’’امام ابویوسف یعقوب رحمہ اللہ حدیث میں انصاف پسند تھے۔‘‘
قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کے دوسرے شاگرد سید الحفاظ یحیی بن معین المتوفی ۲۳۳ھ فرماتے ہیں:
’’ما رأیت فی أصحاب الرأی أثبت فی الحدیث و لا أحفظ و لا أصح روایۃ من أبی یوسف۔‘‘ (۳۴)
’’میں نے اصحاب الرای میں قاضی ابویوسف رحمہ اللہ سے زیادہ مضبوط و معتبر راوی اور ان سے بڑھ کر حافظ حدیث اور زیادہ صحیح روایت کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘

—————————————–

حواشی و حوالہ جات
۱: سیر اعلام النبلا، ج: ۸، ص: ۹۴، (ترجمہ امام مالک)
۲: ایضاً۔
۳: تذکرۃ الحفاظ، ج: ۱، ص: ۱۹۳۔ (ترجمہ شعبہ، رقم: ۱۰۷)
۴: میزان الاعتدال، ج: ۱، ص: ۵۹۳ (ترجمہ حماد بن سلمہ، رقم: ۲۲۵۱)
۵: الانتقاء، ص: ۱۲۷۔
۶: الانتقاء، ص: ۱۲۶، اخبار أبی حنیفۃ و أصحابہ للصیمری، ص: ۸۰۔
۷: تذکرۃ الحفاظ، ج: ۱، ص: ۲۹۸۔ (رقم: ۲۸۰)۔
۸: ایضاً۔
۹: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۵۔۳۴۶، الانتقاء، ص: ۱۳۲، تہذیب الکمال للمزی، ج: ۳، ص: ۱۴۱۷۔
۱۰: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۵، الانتقاء، ص: ۱۳۲، تہذیب الکمال، ج:۳، ص: ۱۴۱۷۔
۱۱: مقدمہ کتاب التعلیم، تحقیق محمد عبدالرشید نعمانی، حیدرآباد پاکستان، لجنۃ احیاء الادب السندی، ۱۳۸۳ھ، ص: ۱۳۴۔
۱۲: تذکرۃ الحفاظ، ج: ۲، ص: ۱۴۹۔
۱۳: الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ج: ۲، ص: ۴۳۰۔
۱۴: جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۹۔
۱۵: الانتقاء، ص: ۱۲۷۔
۱۶: تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۰۵۔
۱۷: ایضاً۔
۱۸: جامع بیان العلم، ج: ۲، ص: ۱۴۹۔
۱۹: ایضاً۔
۲۰: جامع المسانید، ج: ۱، ص: ۵۵۵۔
۲۱: و تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۸۔
۲۲: جامع بیان العلم و فضلہ، ج: ۲، ص: ۱۳۵۔
۲۳: المحدث الفاصل، دارالفکر، ص: ۳۲۰۔
۲۴: الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الفقہا، مصر، مکتبۃ القدسی، ۱۹۳۰ء، ص: ۱۳۶، تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۱۔
۲۵: تاریخ الاسلام للذہبی، دارالکتاب العربی، ص: ۳۰۷۔
۲۶: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۶۔
۲۷: تہذیب الکمال، ج: ۱۹، ص: ۱۱۱۔
۲۸: تاریخ بغداد، ج: ۸، ص: ۴۲۱۔
۲۹: مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ج: ۲، ص: ۳۰۷۔
۳۰: سیراعلام النبلا، ج: ۵، ص: ۲۳۶ (ترجمہ حماد بن ابی سلیمان)
۳۱: مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ، ص: ۴۱۔
۳۲: تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، ج: ۲، ص: ۱۷۶۔
۳۳: ایضاً، ج: ۲، ص: ۱۷۹۔
۳۴: مناقب الامام ابی حنیفۃ و صاحبیہ، ص: ۴۰۔

جاری ہے۔۔۔

ساتھویں قسط [1]

تحریر: مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ ربیع الأول ۱۴۳۶ھ
جامعہ علامہ بنوری ٹاون۔کراچی