- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بیٹی الله کی رحمت

الله تعالی نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ یَہَبُ لِمَنْ یَشَاء ُ إِنَاثاً وَیَہَبُ لِمَن یَشَاء ُ الذُّکُورَ،أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَإِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَن یَشَاء ُ عَقِیْماً﴾․(سورہ الشوریٰ، آیت:50-49)
ترجمہ:” آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف الله ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے …۔“

اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ الله تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لیے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرما دیتا ہے ۔ لڑکیاں اور لڑکے دونوں الله کی نعمت ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں او رمرد عورتوں کے محتاج ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

الله کی اس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں، حالاں کہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ الله کی عطا ہے۔ کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانہ جاہلیت کے کافروں کا عمل تھا، جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے :”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے … خوب سن لو کہ وہ ( کفار مکہ) بہت برا فیصلہ کرتے ہیں۔“ (سورہٴ النحل:59-58) لہٰذا ہمیں بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی یقینا خوشی ومسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے۔
لڑکیوں کی پرورش کے فضائل سے متعلق چند احادیث
حضرت ابو سعید خدری  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے ( یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں الله تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو الله تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی النفقہ علی البنات)

اسی مضمون کی حدیث حضرت ابوہریرہ  سے بھی مروی ہے، مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو ( تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟ ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لیے بھی جنت ہے ۔( اتحاف السادة المتقین)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)

حضرت انس  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے(اور جب شادی کے قابل ہو جائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں ۔ (ترمذی، باب ماجاء فی النفقہ علی البنات)

حضرت عائشہ سے ایک قصہ منقول ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی، جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دے دی، اس الله کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا،حالاں کہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوری دیر کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دوٹکرے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لیے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت اسلامیہ کے مطابق تعلیم وتربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر الله تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں حاصل ہوں گی۔
1..جہنم سے چھٹکارا۔ 2..جنت میں داخلہ۔3..حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہم راہی۔

قرآن کی آیات ودیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شریعت اسلامی کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت وہی کر سکتا ہے جو الله تعالیٰ سے ڈرتا ہو، جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا ( کہ ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں الله تعالیٰ سے ڈرتا رہے)۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چا ربیٹیاں تھیں… حضرت فاطمہ ، حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تین بیٹیوں کا انتقال آپ کی زندگی میں ہو گیا تھا، حضرت فاطمہ کا انتقال آپ صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں جنت البقیع میں مدفون ہیں۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرت فاطمہ  کے ساتھ بہت ہی شفقت او رمحبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے۔

مسئلہ… جہاں تک محبت کا تعلق ہے، اس کا تعلق دل سے ہے اور اس میں انسان کو اختیار نہیں ہے، اس لیے اس میں انسان برابری کرنے کا مکلف نہیں ہے ۔ یعنی کسی ایک بچہ یا بچی سے محبت زیادہ کر سکتا ہے۔ مگر اس محبت کا بہت زیادہ اظہار کرنا کہ جس سے دوسرے بچوں کو احساس ہو ، منع ہے۔

مسئلہ… اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دینے میں برابری ضروری ہے۔ لہٰذا ماں باپ اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اگر پیسے یا کپڑا یا کھانے پینے کی کوئی چیز تقسیم کریں تو اس میں برابری ضروری ہے اور لڑکی کو بھی اتنا ہی دیں جتنا لڑکے کو دیں۔ شریعت کا یہ حکم کہ لڑکی کا لڑکے کے مقابلے میں آدھا حصہ ہے یہ حکم باپ کے انتقال کے بعد اس کی میراث میں ہے۔ زندگی کا قاعدہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے دونوں کو برابر دیا جائے۔

مسئلہ… اگر ماں باپ کو ضرورت کے موقع پر اولاد میں کسی ایک پر کچھ زیادہ خرچ کرنا پڑے ، تو کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً بیماری، تعلیم اور اسی طرح کوئی دوسری ضرورت ہو، تو خرچ کرنے میں کمی بیشی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

مسئلہ… بیٹی کی شادی کے بعد بھی بیٹی کا حق میراث ختم نہیں ہوتا ہے۔ یعنی باپ کے انتقال کے بعد وہ بھی باپ کی جائیداد میں شریک رہتی ہے۔

مولانا محمد نجیب قاسمی
ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ
جامعہ فاروقیہ کراچی