- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (ساتھویں قسط)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ائمہ فن سے حدیث و آثار کا سماع
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث و آثار کا سماع ائمہ فن سے کیا ہے اور اس کے لیے سفر کیے، چنانچہ مورخ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عنی بطلب الآثار و ارتحل فی ذلک۔‘‘ (۱)
’’موصوف نے حدیث و آثار کی طلب و جستجو میں توجہ کی اور اس کے لیے سفر کیے۔‘‘

ائمہ حدیث سے روایت ۔۔۔ وسیلۂ تقرب
ائمہ حدیث کی سندیں عالی ہوتی ہیں، ان سے روایت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقرب حاصل کرنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقرب اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہے، حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ امام اعمش رحمہ اللہ کی سند سے حسب ذیل حدیث نقل کرتے ہیں:
’’حدثنا أبو العباس محمد بن یعقوب حدثنا الحسن بن علی بن عفان العامری ثنا عبداللہ بن نمیر عن الأعمش عن عبداللہ بن مرّۃ عن مسروق عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أربع من کن فیہ کان منافقاً خالصاً و من کانت فیہ خصلۃ منھن کان فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا حدث کذب، و اذا عاھد غدر، و اذا وعد أخلف و اذا خاصم فجر۔‘‘ (۲)
’’ابوالعباس محمد بن یعقوب نے بیان کیا (ان سے) حسن بن علی بن عفان عامری نے بیان کیا (ان سے) عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا (ان سے) اعمش نے اور اعمش نے عبداللہ بن مرہ سے (اس نے) مسروق سے اس نے عبداللہ بن عمرو سے بیان کیا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: چار عادتیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے اس میں نفاق کی ایک عادت پائی گئی، یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، جب کوئی بات بیان کرے جھوٹ بولے اور جب کوئی معاہدہ کرے اس کا پاس نہ رکھے، جب کوئی بات بیان کرے جھوٹ بولے اور جب کوئی معاہدہ کرے اس کا پاس نہ رکھے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے، جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔‘‘
حاکم رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حسب ذیل اصول بیان کیا ہے:
’’فانّ الغرض فیہ القرب من سلیمان بن مھران الأعمش فان الحدیث لہ و ھو امام من ائمۃ الحدیث و کذلک کل اسناد یقرب من الامام المذکور فیہ، فانہ اذا صحّحہ الروایۃ الی ذالک الامام بالعدد الیسیر فانہ عال۔‘‘ (۳)
’’مذکورۂ بالا حدیث میں مقصد سلیمان بن مہران اعمش سے قرب ظاہر کرنا ہے بلاشبہ یہ ان کی سند سے مروی ہے اور وہ ائمہ حدیث میں سے ایک امام ہے، اور اسی طرح ہر وہ سند جس میں امام موصوف سے قرب میسر ہو، پر اگر اس روایت کی صحت اس امام کی طرف معدو دے چند راویوں سے ہو تو وہ سند عالی ہے۔‘‘
اس اصول کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام فن بھی ہیں اور مقبول امام مجتہد ہیں، ان کی سندیں عالی بھی ہیں اور تقرب الہی کا ذریعہ بھی ہیں۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ائمہ حدیث سے راست روایتیں
علی بن المدینی رحمہ اللہ المتوفی ۲۳۴ھ کا بیان ہے کہ: میں نے (صحیح حدیثوں کی) سندیں دیکھیں تو وہ چھ ائمہ حدیث ہیں۔ (۴)
۱: اہل مدینہ میں محمد بن مسلم بن شہاب الزہری رحمہ اللہ (۵۸۔۱۲۴ھ)
۲: اہل مکہ میں عمرو بن دینار المکی رحمہ اللہ (۴۶۔۱۲۶ھ)
۳: اہل بصرہ میں قتادہ بن دعامہ البصری رحمہ اللہ (۶۱۔۱۱۸ھ)
۴: اہل یمن میں یحییٰ بن ابی کثیر الیمانی رحمہ اللہ (۰۰۔۱۲۹ھ)
۵: اہل کوفہ میں ابواسحاق السبیعی الہمدانی الکوفی رحمہ اللہ (۳۳۔۱۲۷ھ)
۶: سلیمان بن مہران اعمش کوفی رحمہ اللہ (۶۱۔۱۴۸ھ)

ان مذکورہ بالا ائمہ حدیث کی اسانید سے بکثرت روایتیں صحاح ستہ میں منقول ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یحیی بن ابی کثیر الیمانی کے علاوہ تمام مذکورہ بالا ائمہ فن سے راست روایت کرتے ہیں، چنانچہ مورخ اسلام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تذکرے (۵) میں عمرو بن دینار، قتادہ، ابواسحاق السبیعی، محمد بن مسلم بن شہاب زہری کے ناموں کی تصریح کی ہے اور حضرت اعمش کوفی رحمہ اللہ کے تذکرے (۶) میں موصوف سے روایت کا ذکر کیا ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ طبقۂ رابعہ کے نامور حفّاظ حدیث میں
علامہ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ جن کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: ذہبی رحمہ اللہ فن رجال میں اربابِ استقرائے کامل میں سے ہیں۔ (۷) موصوف نے ’’کتاب المعین فی طبقات المحدثین‘‘ کے طبقۂ چہارم کے نامور محدثین میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا ہے، جن کی علمی و تدریسی خدمات کا چرچا مشرق و مغرب ہر طرف پھیلا ہوا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ فن نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا شمار ان نامور حفاظ حدیث میں کیا ہے جن کی علمی و تدریسی خدمات کا اسلامی قلمرو کے مشرق و مغرب میں چرچا رہا ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا کتاب کے مقدمے میں رقم طراز ہیں کہ:
’’یہ مقدمہ احادیث و آثار نبویہ بیان کرنے والے نامور محدثین کرام کے ناموں کے بیان میں ہے، تا کہ دانشمند طلبہ کو بصیرت حاصل ہو اور صاحب افادہ محدث کو وہ باتیں یاد دلاتا ہے جن سے جاہل رہنا طلبہ کے لیے معیوب ہوتا ہے۔ یہ بڑے محدثین کے کامل ترین تذکرہ کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ان محدثین کی نشاندہی کا مرقعہ ہے جن کا ذکر اطراف عالم میں ہر زمانہ میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔‘‘ (۸)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کتاب المعین کی ترتیب یہ رکھی ہے: پہلا طبقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے، پھر اکابر تابعین رحمہ اللہ کا ہے، پھر ائمہ تابعین حسن بصری، مجاہد، پھر تابعین کا تیسرا طبقہ زہری و قتادہ کا ہے، چوتھا طبقہ امام اعمش رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قائم کیا ہے۔ اس سے مورخ اسلام علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی نظر میں مشاہیر محدثین میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہی مقام ہے جو شیخ الاسلام حضرت اعمش رحمہ اللہ کا ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فقہائے امصار سے استفادہ
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اس زمانے کی اسلامی دنیا اور اس کے علمی مرکز کے بہت سے فقیہانِ امصار سے استفادہ کیا، لیکن یہاں ہر چند فقہائے امصار کے تذکرے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱: مفتئ مکہ عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ (۲۷۔۱۱۴ھ)
یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نامور شاگرد اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سب سے بڑے استاد ہیں۔ (۹)
ان کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے: عہد تابعین میں حضرت عطا اور حسن بصری رحمہمااللہ سے زیادہ فتوے دینے والا کوئی نہ تھا، اور مزید یہ کہ حرم مکہ کے مفتی حضرت عطا رحمہ اللہ تھے، اور بصرہ میں مفتی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تھے۔ (۱۰)

۲: مکحول شامی (۰۰۰۔۱۱۲ھ)
مکحول رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’طفت الأرض کلھا فی طلب العلم‘‘۔ ’’میں نے علم کی طلب و جستجو میں اسلامی قلمرو کے اکثر شہروں کا سفر کیا۔‘‘
امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’العلماء أربعۃ سعید بن السمیب بالمدینۃ و الشعبی بالکوفۃ و الحسن بالبصرۃ و مکحول فی الشام۔‘‘ (۱۱) ۔۔۔ ’’علما چار ہیں، مدینہ میں سعید بن المسیب، کوفہ میں شعبی، بصرہ میں حسن اور شام میں مکحول رحمہم اللہ۔‘‘
سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ المتوفی ۱۶۷ھ فرماتے تھے: ’’مکحول أفقہ أھل الشام۔‘‘ (۱۲)۔۔۔ ’’مکحول اہل شام میں سب سے زیادہ فقیہ تھے۔‘‘

۳: یزید بن حبیب مصری (۵۳۔۱۳۵ھ)
مورخ مصر ابوسعید بن یونس رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’موصوف اپنے زمانے میں مصریوں کے مفتی تھے اور یہ پہلے عالم ہیں جنہوں نے سرزمین مصر میں حدیث کو پھیلایا اور حلال و حرام میں بحث کی، مسائل بیان کیے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اہل مصر کا اس سے پہلے موضوعِ سخن فتن، جنگ و جہاد کی داستانیں اور خیر کے کاموں میں شوق و رغبت تھا۔‘‘ (۱۳)

۴: عامر بن شرحبیل الشعبی رحمہ اللہ (۱۹۔۱۰۳ھ)
یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے شیوخ میں سے ہیں۔ (۱۴) شعبی رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’أدرکت خمس ماءۃ من أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ (۱۵) ’’ میں نے پانچ سو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا اور ان سے ملاقات کی ہے۔‘‘
مکحول رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ما رأیت أحداً أعلم من الشعبی۔‘‘ (۱۶) ۔۔۔ ’’میں نے شعبی رحمہ اللہ سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا۔‘‘
ابومجلز رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ما رأیت أفقہ من الشعبی لا سعید بن المسیب و لاطاؤس و لا عطاء و لا الحسن و لا ابن سیرین فقد رأیت کلھم۔‘‘ (۱۷) ۔۔۔ ’’میں نے شعبی سے بڑھ کر فقیہ نہیں دیکھا۔ نہ سعید بن مسیب اور نہ طاؤس اور نہ حسن اور نہ ابن سیرین کوفی، ان کا ہمسر نہ تھا، میں نے ان سب کو دیکھا ہے۔‘‘ رحمہم اللہ
لوگوں میں تین علما تھے: ۱: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے زمانے میں،۔۔۔ ۲: شعبی رحمہ اللہ اپنے زمانے میں، ۔۔۔ ۳: سفیان ثوری رحمہ اللہ اپنے زمانے میں۔ (۱۸)
ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’شعبی رحمہ اللہکے پاس آثار کا علم تھا اور ابراہیم کے پاس قیاس تھا۔‘‘ (۱۹)
ابن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’قدمت الکوفۃ و للشعبی حلقۃ عظمۃ و الصحابۃ کثیر۔‘‘ (۲۰)
’’میں کوفے گیا تو شعبی رحمہ اللہ کا حلقۂ درس بہت بڑا تھا۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر تعداد بیٹھی ہوئی ہوتی تھی۔‘‘

۵: ابوعبدالرحمن طاؤس بن کیسان رحمہ اللہ (۳۳۔۱۰۶ھ)
موصوف نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے حدیثیں سنی تھیں، مورخ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’سمع ثابت، و عائشۃ، و أبی ھریرۃ، و زید بن أرقم، و ابن عباس لازم ابن عباس مدۃً و ھو معدود فی کبراء أصحابہ۔‘‘(۲۱)۔۔۔ ’’موصوف نے زید بن ثابت، عائشہ، ابوہریرہ، زید بن ارقم اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے حدیثوں کا سماع کیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحبت میں ایک مدت رہے ہیں، موصوف کا شمار ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کبار تلامذہ میں کیا جاتا ہے۔‘‘ طاؤس رحمہ اللہ کا اپنا بیان ہے کہ: ’’میں نے پچاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی ہے۔‘‘ (۲۲)
حبیب بن ثابت رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ: ’’میرے پاس پانچ ایسی شخصیات یکجا ہوئی ہیں کہ ان جیسی شخصیات کسی کے پاس جمع نہیں تھیں: عطا، طاؤس، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ رحمہم اللہ۔‘‘ (۲۳)
مذکورہ بالا پانچ میں سے حضرت عطا اور حضرت طاؤس رحمہما اللہ سے راست استفادے کا فخر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو حاصل تھا۔ مورخ ذہبی رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’طاؤس کان شیخ أھل الیمن و برکتھم و مفتیھم، لہٗ جلالۃ عظیمۃ۔‘‘ (۲۴)۔۔۔ ’’موصوف اہل یمن کے شیخ ہیں، ان کا وجود ان کے لیے باعث برکت ہے اور یہ ان کے مفتی تھے، ان کی علمی شان و عظمت (اہل یمن کے یہاں) بڑی تھی۔‘‘
ان (فقہائے امصار) کی احادیث و فقہی آرا بعض کتاب الآثار میں اور بعض مسانید میں منقول ہیں۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علم کوفہ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں تھا، بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت بلاد اسلامی کے علمی مرکزوں کے نامور حفاظ اور مشہور فقہائے امصار کے علوم کی جامع تھی۔
اس زمانے میں دینی قیادت و سیادت انہی فقہا و محدثین کو حاصل تھی جو بڑھ چڑھ کردین کی خدمت میں مشغول رہتے تھے، مجتہدین ائمہ اربعہ میں یہ سعادت و قبولیت بلاشبہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو حاصل ہے، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
یاد رکھئے! حرمین، مکہ، مدینہ، عراقین: کوفہ و بصرہ، مصر و شام اور یمن یہی مرکزی شہر تھے، جہاں پہلی اور دوسری صدی ہجری میں فقہ و حدیث کا بازار گرم تھا اور معمول بہا سنت کا ذخیرہ جن سے احکام کا استخراج و استنباط کیا جاسکتا تھا، انہی فقہا و محدثین کے پاس موجود و محفوظ تھا۔ اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ دوسری صدی کے آخر میں جن ائمہ تابعین کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا علم محفوظ تھا، اس کا جامع فقہ حنفی ہے۔

مجتہدین و مکثرین صحابہ رضی اللہ عنہم کے علوم و روایات کا جامع امام
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو کثرت سے روایت کرنے والے حفاظِ حدیث اور مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کا علم ان کے نامور تلامذہ سے حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہے، چنانچہ مورخ خطیب بغدادی رحمہ اللہ المتوفی ۵۶۳ھ نے اپنی سند سے ربیع بن انس رحمہ اللہ کا بیان نقل کیا ہے کہ:
’’ابوحنیفہ رحمہ اللہ ابوجعفر منصور عباسی (۹۵۔۱۵۸ھ) کے پاس آئے، وہاں اس کا وزیر عیسی بن موسی بیٹھا تھا، اس نے خلیفہ سے کہا کہ امام موصوف اس وقت دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ منصور نے امام اعظم رحمہ اللہ سے پوچھا: تم نے کن سے علم حاصل کیا؟َ فرمایا: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے واسطے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے واسطے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے واسطے سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانے میں روئے زمین پر ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا، یہ سن کر اس نے کہا تم (ابوحنیفہ) نے خود کو خوب پختہ عالم بنایا۔‘‘ (۲۵)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا بیان سے علوم میں وسعت و تنوع اور جامعیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم اور کثرت سے حدیثیں روایت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کے علوم کے جامع تھے اور ان کے پاس احادیث و آثار کا سرمایہ دوسرے ائمہ کی نسبت زیادہ وسیع تھا۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض اسانید زمرۂ اصح الاسانید میں
۱: ابوحنیفہ عن عطاء بن أبی رباح عن ابن عباسؓ۔
۲: ابوحنیفہ عن نافع عن ابن عمرؓ ۔۔۔ کو زمرۂ اصح الاسانید میں شمار کیا گیا ہے۔ جس طرح مالک عن نافع عن ابن عمرؓ صحیح ترین سند ہے، یہی حکم ابوحنیفہؒ عن ابن عمرؓ کا ہونا چاہئے۔ (۲۶)
۳: اہل عراق کی عظیم ترین اور صحیح ترین سند سفیان عن منصور عن ابراہیم عن علقمۃ عن عبداللہؓ ہے۔ (۲۷) ۔۔۔ یہی حکم ابوحنیفہ رحمہ اللہ عن منصور عن ابراہیم عن علقمۃ عن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا ہونا چاہئے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عالی صفت سے آراستگی
ائمہ اربعہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں اسانید میں دوسرے ائمہ کی بہ نسبت واسطے کم پائے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف تابعی ہیں، ان کی حدیثیں ثنائی یعنی بعض بہ دو واسطہ اور بعض وحدان بہ یک واسطہ مروی ہیں۔ دیگر ائمہ جیسے امام مالک رحمہ اللہ کہ وہ تبع تابعی ہیں، ان کے یہاں سند میں واسطے بڑھ جاتے ہیں اور امام اوزاعی رحمہ اللہ بھی تبع تابعی ہیں، ان کے یہاں بھی واسطے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں وحدان پائی جاتی ہیں، ان کے معاصرین امام مالک رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کے یہاں وحدان (بہ یک واسطہ روایت) نہیں پائی جاتی۔

ائمہ فن کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے احکام و نظریات سے اعتناء
اصولِ حدیث کی کتابوں میں ائمہ فن قدما و متاخرین کا اپنی تصانیف میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نظریات و آثار سے اعتناء و بحث کرنا اس امر کا نہایت بین ثبوت ہے کہ اصول حدیث کی کتابوں میں موصوف کے نظریات کو نہایت بلند مقام حاصل ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا شمار بلند پایہ حفاظِ حدیث میں کیا جاتا ہے۔ ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ کے موضوع پر کم و بیش ہر کتاب میں موصوف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ان کی ثقاہت بھی مسلم ہے، چنانچہ حافظ احمد بن عبداللہ العجلی رحمہ اللہ (۱۸۲۔۲۶۱ھ) نے تاریخ ثقات میں موصوف کا تذکرہ کیا ہے۔ (۲۸) جو اُن کی ثقاہت کی دلیل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱: سیر اعلام النبلاء، ج:۶، ص: ۳۹۲۔
۲: معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۱۱۔
۳: ایضاً۔
۴: مقدمہ الجرح و التعدیل، ج:۱، ص: ۵۹۔۶۰، الحدیث الفاصل، ص: ۶۱۴۔
۵: سیر اعلام النبلا، ج: ۶، ص: ۲۹۶۔
۶: ایضاً، ص: ۲۲۷۔
۷: شرح نخبۃ الفکر، الرحیم اکیڈیمی، کراچی، ص: ۱۱۲۔
۸: کتاب المعین فی طبقات المحدثین، عمان، دارالفرقان، ۱۹۸۴ء، ص: ۱۷ و ۵۱۔
۹: سیر اعلام النبلاء، ج: ۶، ص: ۳۹۱۔
۱۰: مقدمہ ابن الصلاح، ص: ۵۱۷۔
۱۱: سیر اعلام النبلا، ج: ۵، ص: ۱۵۸۔
۱۲: ایضاً۔
۱۳: ایضاً، ج: ۲، ص: ۳۲۔
۱۴: تذکرۃ الحفاظ، ۱/۷۹۔
۱۵: سیر اعلام النبلاء، ج: ۴، ص: ۲۹۸۔
۱۶: ایضاً۔
۱۷: ایضاً، ۴/۲۹۹۔
۱۸: ایضاً، ۴/۳۰۰۔
۱۹: تذکرۃ الحفاظ، ۱/۸۲۔
۲۰: سیر اعلام النبلاء، ۴/۳۰۲۔
۲۱: ایضاً: ۵/۳۹۔
۲۲: ایضاً: ۵/۴۳۔
۲۳: ایضاً۔
۲۴: تذکرۃ الحفاظ، ۱/۹۰۔
۲۵: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۲۲۴۔
۲۶: مکانۃ الامام ابی حنیفہ فی الحدیث، محمد عبدالرشید النعمانی، دارالبشائر الاسلامیہ، ۱۴۱۵ھ، ص: ۸۲۔۸۳۔
۲۷: سیر اعلام النبلاء، ج: ۷، ص: ۲۳۶، معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۵۵۔
۲۸: تاریخ الثقات للعجلی، ص: ۴۵۰، (۱۶۹۴)

جاری ہے۔۔۔

چھٹی قسط [1]

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
ماہنامہ بینات، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
صفر المظفر ۱۴۳۶ھ