- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عصرِ حاضر میں اشتغال بالحدیث کی ضرورت

کسی صاحب بصیرت الله والے نے کیا خوب کہا ہے:”اصلاحِ نفس کے لیے اشتغال بالحدیث سب سے اقرب ذریعہ ہے۔“ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکارحبّ النبی صلی الله علیہ وسلم اور اطاعت رسول صلی الله علیہ وسلم کے جذبے سے سرشار کوئی بھی صاحبِ علم شخص نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ حدیثِ نبوی امت اسلامیہ کے لیے ایک ناگزیر حقیقت اور اس کے وجود کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اس کی حفاظت، ترتیب وتدوین، حفظ اور نشر واشاعت کے بغیر امت کا یہ دینی وذہنی، عملی اور اخلاقی دوام وتسلسل برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔

اور کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ اس لیے کہ سنت نبی صلی الله علیہ وسلم ہی وہ آہنی ڈھانچہ ہے، جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے، اگر آپ کسی عمارت کا ڈھانچہ ہٹا دیں تو کیا آپ کو اس پر تعجب ہو گا کہ عمارت اس طرح ٹوٹ جائے، جس طرح کاغذ کا گھروندا؟!

امت میں دینی ذوق کا تسلسل حدیث کا مرہون منت
عصرِ قریب کے نامور عالم دین او رعظیم مصلح وداعی حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی (متوفی1999ء) رحمہ الله امت میں دینی ذوق او راسلامی مزاج کا تسلسل وتوارث حدیث ہی کو قرار دیتے ہوئے ایک جگہ رقم طراز ہیں:
”حدیث وسنت کی بدولت حیات طیبہ کا امتداد وتسلسل اس وقت تک باقی رہا اور امت کو اپنے ہر دور میں وہ روحانی، ذوقی، علمی اور ایمانی میراث ملتی رہی جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو براہِ راست حاصل ہوئی تھی، اس طرح صرف عقائد واحکام ہی میں ”توراث“ کا سلسلہ جاری نہیں رہا، بلکہ ذوق ومزاج میں بھی توارث کا سلسلہ جاری رہا، حدیث کے اثر سے عہد صحابہ کا ”مزاج ومذاق“ ایک نسل سے دوسری نسل اور ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ تک منتقل ہوتا رہا اور امت کی طویل تاریخ میں کوئی مختصر سے مختصر عہد ایسا نہیں آنے پایا، جب وہ ” مزاج ومذاق“ یکسر ناپید اور معدوم ہو گیا ہو، ہر دو رمیں ایسے افراد رہے ، جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کے مزاج ومذاق کے حامل کہے جاسکتے ہیں، اپنی عبادت کا ذوق، وہی تقویٰ وخشیت، وہی استقامت وعزیمت، وہی تواضع واحتساب نفس، وہی بدعات سے نفرت اور جذبہٴ اتباع سنت، جو حدیث کے مطالعہ وشغف کا نتیجہ ہے، یا ان لوگوں کی صحبت وتربیت کا فیض ہے، جنہوں نے اس مشکوٰة نبوت سے روشنی حاصل کی ہو اور اس میراث نبوی سے حصہ پایا ہو، امت کا یہ ذہنی ومزاجی توارث قرنِ اول سے اس چودہویں صدی ہجری کے عہد انحطاط ومادیت تک برابر قائم ہے۔

جب تک حدیث کا یہ ذخیرہ باقی، اس سے استفادہ کا سلسلہ جاری اور اس کے ذریعہ سے عہدِ صحابہ کا ماحول محفوظ ہے، دین کا یہ صحیح مزاج ومذاق، جس میں آخرت کا خیال دنیا پر، سنت کا اثر رسم ورواج پر، روحانیت کا اثر مادیت پر غالب ہے، باقی رہے گا اور کبھی اس امت کو دنیا پرستی، سرتاپا مادّیت، انکارِ آخرت اور بدعات وتحریفات کا پورے طور پر شکار نہیں ہونے دے گا، بلکہ اس کے اثر سے ہمیشہ اس امت میں اصلاحی وتجدیدی تحریکیں اور دعوتیں اٹھتی رہیں گی اور کوئی نہ کوئی جماعت حق کی علم بردار اور سنت وشریعت کے فروغ کے لیے کفن بردوش رہے گی، جو لوگ امت کو زندگی، ہدایت اور قوت کے اس سرچشمہ سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور اس میں اس ذخیرہ کی طرف سے بے اعتمادی اور شک وارتیاب پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ وہ امت کو کیا نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کو کس عظیم سرمایہ او رکتنی بڑی دولت سے محروم کر رہے ہیں؟ وہ نہیں جانتے کہ وہ اس امت کو اس طرح سے ”محروم الارث“، منقطع الاصل اور آوارہ کر دینا چاہتے ہیں، جس طرح یہودیت اور عیسائیت کے دشمنوں، یا حوادثِ روز گارنے ان عظیم مذاہب کو کر دیا، اگر وہ سوچ سمجھ کر ایسا کر رہے ہیں، تو ان سے بڑھ کر اس امت او راس دین کا دشمن کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ پھر اس ” مزاج ومذاق“ کو دوبارہ پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں، جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کا امتیاز تھا اور جو یا تو کامل طور پر براہ راست صحبت نبوی صلی الله علیہ وسلم سے پیدا ہو سکتا ہے، یا بالواسطہ حدیث کے ذریعہ جو اس عہد کا جیتا جاگتا مرقع اور حیاتِ نبوی کا بولتا چالتا روز نامچہ ہے اور جس میں عہدِ نبوی کی کیفیات بسی ہوئی ہیں۔“ (حدیث کا بنیادی کردار، ص:41-39، طبع مجلس نشریات اسلام)

اصلاحِ معاشرہ کے لیے اشتغال بالحدیث کی ضرورت
یہ بات بالکل واضح سی ہے کہ نفوس کی اصلاح سے ہی پورے معاشرے کی اصلاح ہے۔ اس لیے ہمارے ذاتی، شخصی، خانگی، خاندانی، علاقائی، ملی اور عالمی غرض ہمہ جہت مسائل کی اصلاح کے لیے ہمیں اپنے پورے معاشرتی نظام میں کسی نہ کسی حد تک اشتغال بالحدیث کی از حد ضرورت ہے۔

اشتغال بالحدیث کا کیا مطلب ہے؟ معاشرے کے مختلف طبقات میں اس کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ یہ جاننے سے قبل ہم علمِ حدیث کا مفہوم سمجھنا اور اس کا تعارف کرانا ضروری خیال کرتے ہیں۔

علمِ حدیث کا تعارف
مشہور حنفی مُحدِّث اور فقیہ علامہ عینی (متوفی855ھ) علم حدیث کی تعریف کرتے ہوئے صحیح بخاری کی مشہور اور ضخیم شرح ” عمدہ القاری“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:”فھو علم یعرف بہ أقوال رسول الله صلی الله علیہ وسلم وأفعالہ وأحوالہ․“( مقدمة عمدة القاری، ص11، طبع ادارة الطباعةالمنیریة)

یعنی علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال معلوم کیے جاتے ہیں۔

بعض محدثین نے حدیث کے معنی میں وسعت پیدا کی ہے اور علم حدیث کا تعارف اس طرح سے کیا ہے : ”ماأثر عن النبيصلی الله علیہ وسلم من قول أو فعل أو تقریر أو صفة خِلقیة أو خُلقیة أو سیرة، سواء کان قبل البعثة أوبعدھا․“(دکتور مصطفی سباعی، السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامي، ص:57، طبع دارالسلام)

یعنی جو کچھ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہو وہ حدیث ہے خواہ قول وفعل یا تقریر ہو، یا جبلی یا اخلاقی صفات ہوں، یا قبل از نبوت یا مابعد کی سیرت مبارکہ ہو۔

عصرِ قریب کے نامور ادیب، سلطان القلم علامہ سید مناظر احسن گیلانی ( متوفی1956ء) زمانے کی ذہنیت اور مذاق کا لحاظ رکھ کر علم حدیث کے مفہوم کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ” فن حدیث دراصل اس عہد اور زمانہ کی تاریخ ہے جس میں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جیسی ہمہ گیر عالم پر اثر انداز ہونے والی ہستی انسانیت کو قدرت کی جانب سے عطا ہوئی۔“(سید مناظر احسن گیلانی، تدوین حدیث، ص:9، طبع المیزان)

امام بخاری رحمہ الله ( متوفی256ھ) نے بھی اپنے مجموعہٴ حدیث کا نام کچھ ایسا رکھا ہے جس سے اسی وسعت کا اشارہ ملتا ہے:”الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله صلی الله علیہ وسلم وسننہ وأیامہ․“(معرفة انواع علم الحدیث، ص:94، طبع دارالکتب العلمیة)

علمِ حدیث کی اہمیت ومرتبت
مشہور مؤرّخ اور سیرت نگار علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ الله (متوفی1373ھ) بڑے ہی جامع اور پُر مغز الفاظ میں علمِ حدیث کی اہمیت ومرتبت بیان کرتے ہوتے رقم طراز ہیں:
”علم القرآن اگر اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو علم حدیث شہ رگ کی ، یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء وجوارح تک خون پہنچا کر ہر آن ان کے لیے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتا رہتا ہے، آیات کا شانِ نزول اور ان کی تفسیر، احکام القرآن کی تشریح وتعیین، اجمال کی تفصیل، عموم کی تخصیص، مبہم کی تعیین، سب علمِ حدیث کے ذریعے معلوم ہوتی ہے، اسی طرح حامل قرآن محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت اور حیات طیبہ او راخلاق وعادات مبارکہ اور آپ کے اقوال واعمال اور آپ کے سنن ومستحبات اوراحکام وارشادات اسی علم حدیث کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح خود اسلام کی تاریخ، صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کے احوال اور ان کے اعمال واقوال اور اجتہادات اور استنباطات کا خزانہ بھی اسی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اس بنا پر اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اسلام کے عملی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کے بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے موجود وقائم ہے او ران شاء الله تعالیٰ تا قیامت رہے گا۔“(تعارف تدوین حدیث، ص:د)

حدیث مسلمانوں کی زندگی کا معیار اور مصلحین اُمّت کی تربیت گاہ
حدیث نبوی ایک ایسی صحیح میزان ہے جس میں ہر دور کے مصلحین ومجددین اس امت کے اعمال وعقائد، رحجانات وخیالات کو تول سکتے ہیں اور امت کے طویل تاریخی وعالمی سفر میں پیش آنے والے تغیرات وانحرافات سے واقف ہو سکتے ہیں، اخلاق واعمال میں کامل اعتدال وتوازن اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک قرآن وحدیث بیک وقت سامنے نہ رکھے جائیں، اگر حدیث نبوی کا وہ ذخیرہ نہ ہوتا جو معتدل، کامل ومتوازن زندگی کی صحیح نمائندگی کرتا ہے اور وہ حکیمانہ نبوی تعلیمات نہ ہوتیں اور یہ احکام نہ ہوتے جن کی پابندی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی معاشرہ سے کرائی تو یہ امت افراط وتفریط کا شکار ہو کر رہ جاتی اور اس کا توازن برقرار نہ رہتا اور وہ عملی مثال نہ موجود رہتی، جس کی اقتدا کرنے کی خدا تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں ترغیب دی ہے:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․(الاحزاب:21) ترجمہ:” یعنی یقینا تمہارے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات اسوہٴ حسنہ ہے۔“

سنت نبوی اور حدیث نبوی کے مجموعے ہمیشہ اصلاح وتجدید اور امتِ اسلامیہ میں صحیح اسلامی فکر کا سرچشمہ رہے ہیں، انہی سے اصلاح کا بیڑا اٹھانے والوں نے تاریخ کے مختلف دوروں میں صحیح علم دین اور خالص فکر اسلامی اخذ کیا، انہی احادیث سے انہوں نے استدلال کیا اور دین واصلاح کی دعوت میں وہی ان کی سند اور ان کا ہتھیار اور سپر تھی، بدعتوں، فتنوں اور شروفساد سے جنگ ومقابلہ کے معاملہ میں وہی قوت محرکہ ودافعہ تھی، آج جو بھی مسلمانوں کو دین خالص اور اسلام کا مل کی طرف آنے کی پھر دعوت دینا چاہتا ہے اور ان کے اور نبوی زندگی اور کامل اسوہ کے درمیان تعلق استوار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جس کو بھی ضرورت اور زمانہ کے تغیرات نئے احکام کے استنباط کرنے پر مجبور کرتے ہیں، وہ اس سرچشمہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

حدیث وسنت سے ناواقفیت اسلامی معاشرہ کے زوال کا سبب
اس حقیقت پر اسلام او رمسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی حدیث وسنَّت کی کتابوں سے مسلمانوں کے تعلق اور واقفیت میں کمی آئی اور طویل مدت تک یہ کمی باقی رہی تو داعیوں اور اخلاق کی تربیت، نفوس کا تزکیہ کرنے والے روحانی مربیوں کی کثرت، دنیا میں زہد اختیار کرنے اور کسی حد تک سنت پر عمل کرنے کے باوجود اس مسلم معاشرہ میں، جو علوم اسلامیہ کے ماہرین اور فلسفہ وحکمت کے اساتذہ فن اور ادباء وشعراء سے مالا مال تھا اوراسلام کے قوت وغلبہ اور مسلمانوں کی حکم رانی میں زندگی گزار رہا تھا، نت نئی بدعتوں، عجمی رسم ورواج اور اجنبی ماحول کے اثرات نے اپنا تسلط قائم کر دیا، یہاں تک کہ اندیشہ ہونے لگا کہ وہ جاہلی، معاشرہ کا دوسرا ایڈیشن اور اس کا مکمل عکس بن جائے گا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئی اور حدیث حرف بہ حرف ثابت ہوئی”لتتبعنَّ سنن من قبلکم، شبراً بشبر، وذراعاً بذراع․“ ( صحیح البخاری، باب ماذکر عن بني إسرائیل، رقم الحدیث3456، طبع دارالسلام)

یعنی تم پچھلی امتوں کے راستوں پر قدم بہ قدم چلو گے۔ اس وقت اصلاح کی آواز خاموش اور علم کا چراغ ٹمٹمانے لگے گا۔دسویں صدی ہجری میں ہندوستان کے دینی حالات اور مسلمانوں کی زندگی کا جائزہ لیجیے، جب کہ برصغیر ہند کے علمی دینی حلقوں کا حدیث شریف اور سنت کے صحیح مآخذ ومراجع سے تعلق تقریباً منقطع ہو گیا تھا، علمِ دین کے مراکز اور حجاز ویمن، مصروشام کے ان مدارس سے جہاں حدیث شریف کا درس ہوتا تھا، کوئی رابطہ نہ تھا اور کتب فقہ، اصول اور ان کی شروح اورفقہی باریکیوں اور موشگافیوں اور حکمت وفلسفہ کی کتابوں کا عام چلن تھا، بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح بدعتوں کا دور دورہ تھا، منکرات عام ہو گئے تھے اور عبادتوں اور تقرب الی الله کی کتنی نئی شکلیں اور نئے طریقے ایجاد کر لیے گئے تھے۔ (حدیث کا بنیادی کردار، ص:32-31)

”گجرات کو مستثنیٰ کرکے جہاں علمائے عرب کی تشریف آوری اورحرمین شریفین آمدورفت کی وجہ سے حدیث کی اشاعت ہو چکی تھی اور علامہ علی متقی، برہان پوری اور ان کے نامور شاگرد علامہ محمد طاہر پٹنی پیدا ہوئے تھے (دسویں صدی ہجری میں) ہندوستان صحاح ستہ اور ان مصنفین کی کتابوں سے ناآشنا تھا، جنہوں نے نقد حدیث اور ردِ بدعت کا کام کیا اور سنتِ صحیحہ اور احادیثِ ثابتہ کی روشنی میں زندگی کا نظام العمل پیش کیا، ہندوستان کے ان مقامی روحانی فلسفوں اور تجربوں کا اثر اپنے زمانہ کے مشہور و مقبول شطاری بزرگ شیخ محمد غوث گوالیاری رحمہ الله کی مقبول کتاب جواہر خمسہ میں دیکھاجاسکتا ہے، جس کی بنیاد زیادہ تر بزرگوں کے اقوال او راپنے تجربات پر ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحیح احادیث کے ثابت ہونے یا معتبر کتب شمائل وسیر سے اخذ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا،اس میں نمازِ احزاب، صلوٰة العاشقین، نماز تنویر القبراو رمختلف مہینوں کی مخصوص نمازیں اور دعائیں ہیں، جن کا حدیث وسُنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔“(تاریخ دعوت وعزیمت244/4، طبع مجلس نشریات اسلام)

یہ صرف ”جواہر خمسہ“ کی خصوصیت نہیں، بزرگوں کے ملفوظات کی غیر مستند کتابوں میں اس کی متعدد مثالیں مل سکتی ہیں۔

علم حدیث کی شرافت وفضیلت
اس علم کی شرافت وفضیلت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اس میں اشتغال رکھنے والے کے لیے پیغمبر دو جہاں صلی الله علیہ وسلم نے از خود اپنی زبانِ مبارک سے ان عظیم الشان کلمات سے دعا دی ہے، جس کی قبولیت میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ”نضّر الله امرأً سمع مقالتي فخفظھا فأدَّاھا کما سمعھا․“(مسند البزار: مسند جبیر بن مطعم، رقم الحدیث3416، طبع مکتبة العلوم والحکم)

یعنی الله تعالیٰ سر سبز وشاداب رکھے اُس بندے کو جو میری بات سنے، اسے یاد رکھے، پھر اُسے (اچھی طرح) ادا کرے۔ (یعنی دوسروں تک آگے پہنچائے) جیسا کہ اُس نے مجھ سے سُن رکھا ہے۔

پھر اس پر مستزاد یہ کہ علمِ حدیث میں اشتغال رکھنے والے کی زبان درود شریف کے ورد سے”رطبُ اللسان“ رہتی ہے، جو ایک مسلمان کے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔

علم حدیث کی جامعیت
علم حدیث ایک کثیر الفنون علم ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے دریا کی سی ہے، جس سے سو کے قریب نہریں نکلتی ہوں۔ چھٹی صدی ہجری کے مشہور مُحدث امام ابوبکر حازمی رحمہ الله (متوفی584ھ) علم حدیث کی وسعت وجامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:”جان لو کہ علم حدیث کی بہت سی انواع ہیں، جو سو کے قریب ہیں، ان میں سے ہر ایک نوع مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر طالب حدیث اس کے حصول میں اپنی پوری عمر بھی صرف کر دے تو بھی اس کی انتہا تک پہنچ نہیں سکتا، لیکن مبتدیٴ حدیث اس بات کا محتاج ہے کہ ہر نوع سے ضروری باتوں کو حاصل کرے، کیوں کہ انہی انواع کو ”اصول حدیث“ کہا جاتا ہے۔ جو شخص ان اصول سے غافل رہے گا، اس پر مقصود تک پہنچنے کا راستہ دشوار رہے گا۔“ (عجالة المبتدی وفضالة المنتھي فی النسب، ص:3)

حافظ ابن الصلاح رحمہ الله (متوفی643ھ) نے علوم حدیث کی پینسٹھ انواع کو تفصیلاً اپنی کتاب ”علوم الحدیث“ (جو مقدمہ ابن الصلاح کے نام سے مشہور ہے) میں ذکر کیا ہے۔ امام سیوطی رحمہ الله ( متوفی911ھ) نے”تدریب الراوی“ میں اس پر اٹھائیس انواع کا اضافہ کرتے ہوئے علومِ حدیث کی انواع کو ترانوے تک پہنچایا ہے اور حافظ ابن الصلاح کی روش پر چلتے ہوئے ہر نوع کی وضاحت بمع امثلہ کی ہے۔ (جاری)

 

مولانا عبدالماجد رفیق
رفیق شعبہ تخصص فی الحدیث واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ