- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

پاکستانی مدارس اور جرمنی کے طلبہ کے مابین مکالمت

پاکستان کے دینی تعلیمی اداروں کی شہرت مغربی دنیا میں اچھی نہیں، جنہیں شدت پسندی کی تربیت گاہیں سمجھا جاتا ہے۔ مگر جرمنی کی ایرفُرٹ یورنیوسٹی ان مدارس کے طلبہ سے مکالمت کے ذریعے اس غیر حقیقی سوچ کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
رواں ہفتے جرمنی میں ایک نوجوان افغان مہاجر نے ایک ٹرین میں کلہاڑی اور چاقو سے حملہ کر کے تین افراد کو زخمی کر دیا۔ وُرسبرگ شہر میں پیش آنے والے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور ایک بار پھر مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحانات پر بحث ہونے لگی۔ فرانس اور بیلجیم میں دہشت گردانہ واقعات کے بعد اب جرمنی میں بھی اس نئے واقعے نے یورپی شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ تشدد کے ان واقعات کی وجوہات کیا ہیں؟ ایک ایسے وقت پر جب اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے، دو مختلف نظریات کے درمیان پل تعمیر کرنے کی کوششیں بھی بظاہر کم نہیں ہیں۔
ایسی ہی ایک کوشش ابھی حال ہی میں جرمنی کی ایرفُرٹ یونیورسٹی نے پاکستانی دینی مدارس کے طلبہ کو ایک ورک شاپ میں مدعو کر کے کی۔ پاکستان کے چار معروف مذہبی مدرسوں سے بلائے گئے ان بارہ طلبہ نے ’مذہبی رواداری اور مذہبی اجتماعیت: امن کی اخلاقیات کی جانب‘ کے نام سے منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس کے منتظمین کے مطابق ایسے پاکستانی دینی مدارس کے طلبہ کا مغربی ثقافت سے بہتر تعارف ان مسلمانوں کے لیے سیکولر اور جمہوری اقدار کو سمجھنے اور ان کا احترام کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایرفُرٹ یونیورسٹی کی ایک طالبہ پیٹریسیا جان کا کہنا ہے، ’’ہم جب اس ورک شاپ کے انعقاد کی تیاری کر رہے تھے، تو جانتے تھے کہ یہ ایک حساس نوعیت کا موضوع ہے۔ مگر یہ جان کر ہمیں خوشی ہوئی کہ ہمارا سامنا تو ہم جیسے ہی لوگوں سے ہوا۔‘‘
لاہور کے ایک مدرسے کی طالبہ امنہ فاطمہ کے لیے بھی یہ ورک شاپ سیکولر اور جمہوری اقدار کو سمجھنے کے سلسلے میں پہلا قدم تھی۔ ان کے مطابق، ’’یہاں آنے سے قبل میں جرمن باشندوں سے خوف زدہ تھی کہ وہ شاید مجھے اسکارف پہننے کی وجہ سے پسند نہیں کریں گے، مگر میں جب سے یہاں آئی ہوں، مجھے ایسا کچھ ہی محسوس نہیں ہوا۔‘‘
امنہ فاطمہ نے مزید کہا، ’یہ لوگ جب بھی ہم سے ملتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔‘‘
ایرفُرٹ یونیورسٹی کے اس پروجیکٹ کے سربراہ پروفیسر جمال ملک کے مطابق، ’’ہم اس پروجیکٹ پر پچھلے دو برسوں سے کام کر رہے تھے۔ مدارس کے طلبہ کو جرمنی بلانے کے راستے میں بہت سی مشکلات تھیں۔ ہمیں صرف ان طلبہ کے لیے جرمنی کے ویزوں کے حصول کے سلسلے میں ہی مسائل پیش نہیں آئے، بلکہ مدرسوں کے ان طلبہ کے والدین کو یہ سمجھانے میں بھی ہمیں مشکلات پیش آئیں کہ ان نوجوانوں کو اس ورک شاپ میں شرکت کی اجازت دی جانا چاہیے۔‘‘
اس پروجیکٹ کا ابتدائی مقصد پاکستان کے پانچ اہم مسالک کے طلبہ کو ایک جگہ جمع کرنا اور ایک دوسرے سے مکالمت کا موقع فراہم کرنا بھی تھا، تاکہ فرقہ واریت پر مبنی تناؤ میں کمی کی جا سکے اور باہمی احترام کو فروغ دیا جائے۔ تاہم پروفیسر جمال ملک کے مطابق جرمن طلبہ نے بھی اسلام کو سمجھنے کے لیے اس پروجیکٹ میں شرکت میں دلچسپی دکھائی۔ ’’وہ چاہتے تھے کہ ان پاکستانی طلبہ سے ملا جائے اور ان سے بات چیت کی جائے۔‘‘
DW اردو