- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مولانا سید مظفر حسین ندوی رحمہ اللہ

۹نومبر ۲۰۰۱ء کو آزادی کشمیر کے پہلے امیرالمجاہدین اور ممتاز عالم دین مولانا سیدمظفر حسین ندوی نے ۷۹برس کی عمر میں دنیائے فانی کو الوداع کہا۔ مولانا کی وفات سے دور قدیم کے دینی مدارس کے پروردہ اصحاب کی وہ تاب ناک اخلاقی روایت دم توڑگئی ہے جو اللہ تعالی سے حقیقی تعلق، علم و فضل، تقویٰ، حق گوئی، انکسار، تزکیہ نفس، مصلحتوں سے بے نیاز، بے خوفی اور درویشی پر استوار تھی۔ وہ اتحاد امت کے داعی، شرافت کے پیکر اور اپنے احباب اور عزیزوں کے لیے سراپا شفقت و محبت تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اعلائے کلمۃ الحق کا پرچم اٹھائے رکھا۔
مولانا سیدمظفر حسین ندوی رحمہ اللہ ضلع باغ کے ایک گاؤں سوہاوہ شریف میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی کا نام سید محمد ایوب شاہ اور دادا کا نام سیدعلی شاہ المعروف پیرسوہاوی تھا۔ سادات گردیزیہ کے اس علمی گھرانے کی شہرت قبل از تقسیم ریاست پونچھ کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دراز سے لوگ سفر کرکے یہاں اپنی روحانی پیاس بجھانے آتے تھے۔ سید مظفر حسین کی ابتدائی تعلیم کا آغاز گاؤں کے پرائمری اسکول سے ہوا۔ ان کو اس زمانے کے ایک گریجویٹ استاذ ماسٹر خلیل الرحمن سے پڑھنے کا موقع ملا جو ضلع ہزارہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قرآن پاک ناظرہ اور ابتدائی دینی علوم کا آغاز سیدلقمان شاہ سے کیا اور پھر دس گیارہ سال کی عمر میں ان کے والد محترم نے شیخ نبی بخش نظامی اور ممتاز مورخ محمددین فوق جوان دنوں پونچھ شہر میں تھے، کے مشورہ سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ بر عظیم پاک و ہند میں ندوہ میں مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ ندوہ کے اساتذہ میں تھے اور ان کے بڑے بھائی سیدمحمدعلی دارالعلوم کے ناظم تھے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر سے آنے والے بچے کو داخلہ دے دیا اور ہاسٹل میں قیام و طعام کا انتظام بھی کردیا گیا۔ مولانا نے اس ادارہ میں دس برس تک تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی ادارہ میں عربی ادب کے استاذ مقرر ہوئے اور ۱۹۴۶ء تک تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۶ء میں ان کو ضلع پونچھ ریاست جموں و کشمیر میں تبلیغی مشن پر مامور کیا گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان بر عظیم کے طول و عرض میں چل رہی تھی اور کشمیر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرس کے پرچم تلے تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ چنانچہ آپ بھی تحریک آزادی سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعۃ الوداع کے دن سوہاوہ شریف کی مسجد میں آپ نے ایک مقام پر جس عوامی اجتماع سے سردار عبدالقیوم خان نے باغیانہ خطاب کیا تھا، اس کی صدارت مولانا سیدمظفر حسین ندوی نے کی تھی۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور عزم و ہمت کے حوالے سے کوہ گراں تھے۔ چنانچہ عوامی تنظیم کے بعد ۲۶ اگست ۱۹۴۷ء کو جو جلوس باغ کی طرف روانہ ہوا، اس میں مولانا شامل تھے۔ یہ جلوس ہڈاہاڑی کے مقام پر پہنچا جہاں ایک بڑے اجتماع میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا۔ جلسہ کو منتشر کرنے کی غرض سے ڈوگرہ فوج نے گولی چلا دی اور نصف درجن مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔
اسی دوران میں تحریک آزادی کے لیے مسلمانوں کو مسلح کرنے کی ضرورت کے پیش نظر مولانا نے امیرالمجاہدین مولانا فضل الہی چمرقندی سے رابطہ کیا اور کثیر تعداد میں رائفلیں حاصل کیں۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مجاہدین کا ایک قافلہ جس کی قیادت سردار محمد عبدالقیوم خان کررہے تھے، کوہالہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ’’باسیاں‘‘ کے مقام پر پہنچا اور وہاں ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ بعد از نماز اس بات پر بحث ہوئی کہ شرعی طریقہ پر جہاد کو منظم کرنے کے لیے ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہے چنانچہ مشاورت کے بعد اتفاق رائے سے مولانا سیدمظفر حسین ندوی کو امیرالمجاہدین منتخب کیا گیا اور مجاہد رہنماؤں جن میں سردار محمد عبدالقیوم خان، سید علی اصغر شاہ، محمد سلیم خان (بعد میں میجر)، راجہ محمد صدیق خان (بعد میں کرنل)، محمد سعید خان (بعد میں میجر)، محمد حیات خان (بعد میں کیپٹن) و غیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، نے مولانا کے ہاتھ پر جہاد کے لیے بیعت کی۔ بیعت کے الفاظ کو ندوی صاحب نے لکھا اور آج تک یہ تحریر مولانا کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ اس تحریر کے متن کا خلاصہ یہ ہے:
’’آج ہم اللہ کی راہ میں جہاد شروع کررہے ہیں۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے اور کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات دلانا ہمارا نصب العین ہے۔ ہم صرف مقابلہ کرنے والوں سے لڑیں گے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور بیماروں پر یا ہتھیار نہ اٹھانے والوں پر ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ مال غنیمت کو بیت المال میں جمع کروائیں گے۔‘‘
اس بیعت کے بعد جنگی دستوں کی تنظیم کا کام سردار عبدالقیوم خان کے سپرد کردیا گیا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں باغ شہر فتح ہوگیا اور مفتوحہ علاقوں میں جہادی شوریٰ نے مولانا سیدمظفر حسین ندوی کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کردیا۔ آپ کے ساتھ کفل گڑھ کے مولانا امیرعالم خان، مولانا سید ثناء اللہ شاہ، مولانا محمدعبدالغنی، مولانا سیدنظیر شاہ سوہاوی، مولانا عبدالحمید قاسمی عباس پوری کو مختلف شعبوں میں ان کے نائب کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ مولانا محمد عبدالغنی مرحوم کو باغ بیت المال کا امیر مقرر کیا گیا۔
آزاد حکومت کے قیام کے بعد جب یہ عارضی انتظامیہ ختم ہوگئی تو سردار محمدابراہیم خان بانی صدر نے مولانا سیدمظفر حسین ندوی کو ’’انسپکٹر دینیات سکولز؍ کالجز آزاد کشمیر‘‘ مقرر کیا جبکہ دوسرے علماء کرام کو محکمہ افتا میں لگادیا گیا۔ دو برس کے بعد مولانا کو مظفر آباد ڈگری کالج میں بطور پروفیسر اسلامک اسٹڈیز لگایا گیا اور دو برس کے بعد وہ آزاد کشمیر محکمہ امور دینیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی عہدہ پر کام کرتے رہے۔ مزید برآں وہ پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر کے مستقل ممبر اور اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن بھی رہے۔ ۱۹۸۳ء میں وہ ساٹھ برس کی عمر پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ ۱۹۵۱ء میں جب مفتی اعظم فلسطین جناب سیدامین الحسینی پاکستان اور آزاد کشمیر کے دورہ پر آئے تو آپ نے کوآرڈی نیٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیے۔
مولانا نے اپنی تدریسی زندگی کے دوران میں ابتدا سے میٹرک کی سطح تک ’’نور ایمان‘‘ کے نام سے اسلامیات کے مضمون کے لیے ایک سلسلہ کتب تصنیف کیا اور یہ نصاب کئی برس تک آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں رائج رہا۔ ’’نور ایمان‘‘ کے اس سلسلے کو کینیا (افریقہ) کے نصاب تعلیم میں بھی جگہ دی گئی۔ مولانا کی آخری تحریر راقم الحروف کی کتاب ’’فیض الغنی‘‘ کا پیش لفظ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کے ساتھ جب میں ان کے گھر مظفر آباد حاض ہوا تو وہ علالت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن انہوں نے کتاب کا مسودہ رکھ لیا اور دوسرے تیسرے دن ’’پیش لفظ‘‘ لکھ کر حوالے کر دیا۔
مولانا نے بھر پور زندگی گزاری۔ سرکاری ملازمت بھی کی اور منبر و محراب سے بھی عمر بھر ان کا تعلق رہا۔ آزاد کشمیر میں جتنے سربراہان حکومت برسر اقتدار آئے، کم و بیش سب نے مولانا کو بے حد احترام دیا اور ان کی تلخ باتوں سے چشم پوشی اختیار کی۔ مولانا منہ پر کبھی حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ وہ کسی اعلی سطحی اجلاس میں ہوتے یا مسجد کے منبر پر، ان کی حق گوئی ضرب المثل بن چکی تھی۔ وہ تصنع، بناوٹ اور سخن سازی کے فن سے ناآشنا تھے۔ ان کی زبان خوشامد سے کبھی آلودہ نہیں ہوئی۔
۷ اکتوبر کو جب افغانستان پر امریکی بمبار ہوائی جہازوں نے حملہ کیا تو یہ خبر بجلی بن کر ان پر گری۔ دوہا میں او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کی روداد دیکھ کر ان کے دل پر چوٹ لگی اور اس کے بعد وہ بہت مختصر بات کرتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور فرزندوں کا بیان ہے کہ قوت گویائی کم ہونے کے باوجود ان کے ہوش و حواس قائم تھے۔ ان کو کاغذ اور قلم دیا گیا تا کہ وہ آخری نصیحت لکھ سکیں ۔ انہوں نے مضبوطی سے قلم ہاتھ میں لیا اور آخری الفاظ لکھے جو یہ تھے: ’’امریکہ۔۔۔ مردہ باد‘‘ اور کچھ لمحات کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی:
مقام گر یہ ہے اہل قفس کہ فصل بہار
گلوں کو خاک میں خود ہی ملا کے آئی ہے

تحریر: پروفیسر محمد یعقوب شاہق
بشکریہ ماہنامہ الشریعۃ، جنوری ۲۰۰۲ء