عدالتی فسخ نکاح کی شرعی حیثیت

عدالتی فسخ نکاح کی شرعی حیثیت

استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ:
۱۔ مسماۃ فائزہ دختر افسر علی شاہ کا نکاح منظور حسین شاہ سے ہوا، مگر لڑکے کے کردار کو دیکھ کر افسر علی شاہ صاحب نے رخصتی نہ کی۔ مطالبہ طلاق کیا گیا، مگر منظور حسین نے اطلاق دینے سے انکار کردیا اور خود دوسری شادی کر کے بیٹھ گیا۔
۲۔ اجرائے ڈگری کے بعد رائج الوقت قانون میں مدعا علیہ (خاوند) کو عدالتی کے خلاف اعلیٰ عدالت میں ۳۰ دن کے اندر اندر اپیل کرنی چاہیے تھی، مگر اس نے آج مؤرخہ ۲۰۱۳۔۱۱۔۱۵ تک کوئی اپیل دائر نہیں کی اور نہ ہی فیصلے پر کوئی اعتراض عدالت مجاز میں داخل میں داخل کیا۔ اب دریافت طلب امور مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) کیا عدالتی تنسیخ طلاق کے قائم مقام ہے؟
(۲) کیا عورت اس کی بنیاد پر خاوند سے طلاق لیے بغیر دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے؟
(۳) کیا خلع کی رقم ادا کیے بغیر تنسیخ قابل تسلیم ہے؟
(۴) کیا خلع کے لیے ضروری ہے کہ عورت پیشکش کرے اور مرد اسے قبول کرے؟
(۵) خلع کے الفاظ عدالت لکھے تو کیا رقم واجب الادا ہوگی؟
المستفتی، افسر علی شاہ
۱۵؍۱۱؍۲۰۱۳

الجواب
اسلام دین فطرت ہے اور اس کے قوانین بھی انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم‘‘ (اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم پر حکمران ہوں، ان کی اطاعت کرو)۔ حدیث میں ارشاد ہے: ’’السلطان ولی من لا ولی لہ‘‘۔ فقہی ضوابط میں بنیادی قاعدہ ہے کہ ظالموں کے مقرر کردہ قاضیوں کے فیصلے بھی نافذ العمل ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں۔
اب تنقیح طلب امور مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ کیا پاکستان میں شدہ عدالتیں اسلامی نظام اور اس کے اصل قضا سے متصادم ہیں؟
۲۔ کیا ان عدالتوں کا حکم کافر عدالتوں کا ہوگا یا مسلمان عدالتوں کا ہوگا؟
۳۔ کیا پاکستان کا عدالتی نظام کفر پر مبنی ہے یا اسلام کے مطابق ہے؟
۴۔ کیا پاکستان کا طرز حکمرانی اسلامی ہے یا کافرانہ؟
۵۔ کیا پاکستان کے کسی بھی فرقے کے عالم دین نے ان عدالتوں کو غیراسلامی قرار دے کر عوام کو مطلع کیا ہے کہ نہ ان عدالتوں میں حاضر ہوں اور نہ ان کے احکام کو تسلیم کریں؟
۶۔ کیا پاکستان میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، جماعت اسلامی میں سے کسی بھی فرقے کے علماء نے ان عدالتوں کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے؟

ان تنقیحات کا جواب مندرجہ ذیل ہے:
۱۔ ہرگز نہیں۔ فسق کی بناء پر عدالتی نظام کو تلپٹ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ فاسق کی قضاء جائز ہے۔ (ہم نے فاسق کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہمارے علماء کے ہاں داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے اور ججز کی اکثریت کلین شیو ہے۔)
جہاں تک عدالتی سسٹم کا تعلق ہے تو وہ ہرگز اسلام سے متصادم نہیں۔ عدالتی نظام انہی بنیادوں پر استوار ہے جو بنیادیں مسلم فقہاء نے متعین کر رکھی ہیں۔
۲۔ مسلمان عدالتوں کا حکم ہے، کیونکہ ججز مسلمان ہیں اور آئیں پاکستان میں صاف اور واضح شق موجود ہے کہ اسلام سے متصادم کوئی قانون سازی نہ ہوگی۔ جزوی طور پر اگر بعض غیر اسلامی قوانین موجود ہیں تو ان سے ریاستی قوانین کے خلاف بغاوت کی اجازت نہیں دی جاسکتی نہ ہی قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے، جب تک کفرِ بواح کا مطلب ہے کہ ارتکاب حرام کے لیے حکومت فرمان جاری کرتی پھرے، مگر ایسا اس ملک میں نہیں ہے۔
۳۔ نہ کفر پر مبنی ہے نہ مکمل اسلام کے مطابق ہے۔ درمیانہ سا ہے، قابل برداشت ہے۔
۴۔ نہ اسلامی نہ کافرانہ۔ جمہوری ہے، جو نام نہاد جمہوریت کے پردے میں چند خاندانوں کی اجارہ داری پر قائم ہے۔
۵۔ قیام پاکستان کے بعد کے عدالتی نظام کے خلاف کسی عالم دین کا فتویٰ میری نظر سے نہیں گزرا، بلکہ علماء خود ان عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے رہے۔
۶۔ بہت سارے فیصلے مسترد کیے، لیکن وہ اس لیے نہیں کہ ان کا عدالتی نظام سے کوئی اختلاف تھا، بلکہ محض کسی مخصوص فیصلے پر اظہار ناراضگی کیا، جیسے عائلی قوانین کے تحت کیے گئے فیصلے۔

اور اب آپ کے سوالات کا ضمن دار جواب دیا جاتا ہے:
۱۔ عدالت مجاز با اختیار ہے۔ میاں بیوی نے حاضر ہو کر عدالتی اختیار کو تسلیم کیا ہے، اسی لیے جواب دعویٰ اور شہادتیں پیش کی گئیں، لہذا عدالتی فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہے اور یہ تنسیخ طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔
۲۔ ہاں، دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ اگر ماں جوان ہو اور بیوہ ہو اور وہ باہر گھومتی پھرتی ہو اور بیٹے کو شک ہو کہ وہ باہر فساد کے لیے جاتی ہے تو بیٹا اس کو نہیں روک سکتا، البتہ بیٹا عدالت میں مقدمہ دائر کرے گا۔ عدالت بیٹے کو ماں کا گارڈین مقرر کرے گی، تب اسے ماں کو روکنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ (دیکھیے فتاویٰ قاضی خان جلد نمبر ۱ صفحہ ۲۰۱)۔ اس جزی سے معلوم ہوا کہ بیٹا ماں پر کنٹرول کرنے کا حق نہیں رکھتا، مگر عدالت کو کنٹرول کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ عدالت ماں کی کچھ نہیں لگتی۔ لیکن چونکہ عدالت اولی الامر میں آتی ہے، اس لیے اسے حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
۳۔ عدالت مجاز نے نکاح فسخ کردیا اور صاف الفاظ میں تحریر کردیا کہ بعد گزرنے عدت کے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ تو اب کیا اشکال ہے؟ اگر تنسیخ خلع پر موقوف ہوتی تو عدالت مشروط حکم جاری کرتی۔ جو یوں ہونا چاہیے تھا: ’’بعض از ادائے خلع و انقضائے عدت دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے‘‘۔ مگر ایسے الفاظ عدالتی حکم میں موجود نہیں ہیں۔
۴۔ ہاں خلع کے لیے پیشکش ضروری ہے۔ مگر عدالت میں عورت اور مرد دونوں طرف سے عدالت ہی کو فیصلہ کن اختیار حاصل ہیں۔
۵۔ اگر مہر ادا کیا گیا، ہو اور تنسیخ کے بجائے خلع ہو تو عورت کو مہر واپس کرنا ہوگا۔ اور اگر مہر نہ ادا ہوا ہو تو کچھ بھی نہیں۔ اذا لم یکن المھر مقبوضا سقط عن الزوج المھر و یا یتبع احدھما صاحبہ بشئی۔ یعنی اگر مہر ادا نہیں ہوا تو دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے کچھ نہیں لے سکتا۔ (قاضی خان ۲۵۳، جلد ۱)
لہذا سینئر سول جج کا فیصلہ تنسیخ نکاح ہے، خلع نہیں۔ خلع روایتی طور پر لکھا گیا ہے جو کہ ۱۹۶۴ کے ایکٹ کی ضرورت ہے۔ شرعاً نہ اس کی ضرورت ہے نہ کوئی شرعی حیثیت۔ متعنت خاوند کے لیے عدالتی کاروائی کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ فائزہ کی عدت ۲۲ اکتوبر کو پوری ہوگئی۔ وہ جہاں چاہے، شادی کرستی ہے۔ جو علماء کرام عدالتی تنسیخ کو تسلیم نہیں کرتے، وہ بتائیں کہ وہ خاوند جو یہ الفاظ کہتے ہیں کہ ’’جیسے تیرے دانت سفید ہیں، اسی طرح تیرے بال سفید ہوں گے، طلاق نہیں دوں گا‘‘، مجھے علماء بتائیں کہ کیا ایسی عورتیں طلاق کے انتظار میں بدکاری کا ارتکاب کرتی رہیں؟ وہ اپنی جنسی تسکین کے لیے کدھر جائیں؟ استغفراللہ کہنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔
کعب بن ثور؍ کعب بن یسار رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف فرما تھے۔ یہ واقعہ تقریبا ۲۰ ہجری کا ہے۔ ایک عورت دربار خلافت میں حاضر ہوئی اور منہ پر اپنا پلو رکھ کر یوں گویا ہوئی: امیرالمومنین! میرا خاوند بہت نیک ہے۔ ساری رات مصلے پر گزارتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ماشاء اللہ! تم جیسی نیک عورتیں اپنے خاوند کی تعریف کرتی ہیں۔ کعب بن یسار رضی اللہ عنہ بولے: امیرالمومنین! آپ اس عورت کی بات نہیں سمجھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، تم سمجھے ہو؟ کہا، ہاں۔ یہ عورت اپنے خاوند کی شکایت کر رہی ہے کہ وہ اس کے جنسی حقوق پورے نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کو دوبارہ بلایا اور کہا، کعب کہتا ہے کہ تم شکایت کرنے آئی ہو۔ کہا، ہاں۔ امیرالمومنین مجھے اس چیز کی خواہش ہے جس کی ہر جوان عورت کو خواہش ہوتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کعب تم ہی فیصلہ کرو۔ خاوند کو طلب کیا گیا اور پوشھا گیا تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا، مجھے سورۃ واقعہ نے قیامت اور قبر کے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اس لیے رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور دن کو روزے رکھتا ہوں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ تمہیں ہفتے میں ہر چوتھے دن بیوی کے حقوق زوجیت پورے کرنے ہوں گے، کیونکہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ تمہاری ایک بیوی ہے۔ تم تین دن عبادت کرو اور چوتھے دن اس کی جنسی تسکین کا اہتمام کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس فیصلے پر خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اذھب فقد جعلنٰک قاضیاً علی البصرۃ‘‘۔ جاؤ، میں نے تمہیں بصرہ کا جج بنادیا۔ (اخبار القضاۃ للوقیع صفحہ ۱۷۶ مطبوعہ بیروت، ادب القاضی للخصاف جلد ۲ صفحہ ۳۲۰)
یہ وہ دور تھا جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون قرار دیا تھا اور فرمایا: ’قرنی‘ کہ میرا قرن سب سے بہتر ہے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دور حکومت، فاروق اعظم صدر مملکت، نہ ٹی وی نہ ریڈیو، نہ سی ڈیز نہ انٹرنت، نہ سینما ہاؤس، نہ بھڑ کیلے لباس، نہ مرد و زن کا اختلاط، نہ موسیقی کی مخلفیں۔ ان تمام موجب فتنہ وسائل کی معدومی کے باوجود خاتون اپنے جنسی حق کی شکایت کرنے صدر مملکت کے پاس پہنچ گئی۔ اس واقعے سے اس دور کی حقیقت پسندی کا پتا چلتا ہے۔ آج کا دور ہوتا تو اس خاتون کو بے حیا قرار دیا جاتا۔
دوسرا واقعہ بھی معروف ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کے وقت گشت فرما رہے تھے کہ ایک مکان سے گانے کی آواز آئی جس کا لب لباب یہ تھا کہ شب طویل ہے۔ میرا ہم عمر نہیں ہے کہ میں اس سے پیار کروں۔ اگر عمر رضی اللہ عنہ اور خدا کا خوف نہ ہوتا تو۔۔۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح پوچھا کہ یہ کس کا گھر ہے؟ معلوم ہوا کہ ایک فوجی کا ہے جو علاقہ شام میں جہاد میں مصروف ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے اسی وقت گشتی مراسلہ جاری فرمادیا کہ کوئی فوجی چار ماہ سے زیادہ گھر سے باہر نہ رہے۔ ہر چار ماہ بعد چھٹی آیا کرے۔ یہ مراسلہ بھی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا سے استفار کرکے تیار کیا گیا، جبکہ صدر مملکت فاروق اعظم نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ ایک بیوی اپنے خاوند کے بغیر کتنا عرصہ صبر کرسکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ۔ یہی وجہ ہے کہ ایلاء بھی چار ماہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ اور اس طرح کے درجنوں واقعات ’’خیر القرون قرنی‘‘ کے ہیں۔ آج تو فحاشی اور بے حیائی بیڈ روم میں گھس گئی ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ’’لمن اخذ بالساق‘‘ پر اصرار اور عدالتی تنسیخ سے انکار اور خاوند کے تعنت کو مدنظر نہ رکھنا عورت کو بدکاری کی وادی میں دھکلینے کے مترادف ہے۔
پاکستان اسلامی ملک ہے۔ اس کی عدالتوں کے فیصلے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم نے تو ۱۹۹۰ء میں انگلستان کی عدالتوں کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنے کا فتویٰ دیا ہے کہ وہاں کا ماحول یہاں سے زیادہ خوفناک ہے۔ اگر وہاں خاوند تعنت کا مظاہرہ کرتا ہے اور طلاق نہیں دیتا تو وہاں بدکاری کے لیے تمام راستے کھلے ہیں۔ اس لیے دونوں میاں بیوی عدالت میں حاضر ہو کر اپنا موقف بیان کرتے ہیں تو وہ فیصلے بھی قابل عمل ہیں۔ البتہ حکم علی الغائب میں ہر کیس کو علیحدہ دیکھا جائے گا۔ فقہاء اسلام نے عورت کو جو حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں دیے ہیں، اتنے حقوق تو یورپ نے نہیں دیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

مفتی محمد رویس خان ایوبی
ریٹائرڈ ضلع مفتی آزاد کشمیر
۱۹؍محرم الحرام ۱۴۳۵ھ؍ بمطابق ۲۳ نومبر ۲۰۱۳

مکتوب بنام: مولانا مفتی عصمت اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب مفتی عصمت اللہ صاحب! عصمہ اللہ عن جمیع الزلات و الاخطاء۔
برادرم جناب سید افسر علی شاہ صاحب؍منظور حسین شاہ صاحب۔
میرے فتوے کے رد میں دارالعلوم کراچی کی مہر اور بنوری ٹاؤن کی مہر اور فاروقیہ کہ مہر سے مزین فتویٰ موصول ہوا۔ مندرجہ ذیل تنقیحات معزز اور مکرم مفتیان کرام کی خدمت میں پیش ہیں۔ از راہ کرم اگر وہ ان کا جواب مدلل اور مبرہن فرما کردے دیں تو میں اپنا فتویٰ واپس لے لوں گا:
(۱) اسلام میں قاضی کے اختیارات کیا ہیں؟
(۲) کیا قاضی کو عقود میں انشاء اور فسخ کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟
(۲) ’’السلطان ولی من لا ولی لہ‘‘ میں ’سلطان‘ میں قاضی شامل ہے یا نہیں؟
(۴) کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس ریاست میں قائم شدہ عدالتیں بھی اسلامی عدالتیں ہیں یا کافرانہ؟
(۵) ان عدالتوں سے وہ فیصلے جو اسلامی فقہ کے کسی بھی فقہی قاعدہ یا قرآن کے کسی بھی حکم کے مطابق اختلاف آراء فقہاء کیے جائیں۔ کیا وہ نافذ العمل ہیں یا قابل استرداد؟
(۶) اسلامی فقہ کی کون سی معتبر کتاب ہے جس میں عدالت کو ’’عدالت‘‘ کے بجائے لڑکی یا لڑکے کی طرف سے وکیل مقرر کیا جاسکتا ہے؟
(۷) عدالت کی حیثیت قضاء قاضی کی ہے یا وکیل اور ثالث کی؟ اگر دوسری صورت ہے تو کسی معتبر اسلامی فقہ کی کتاب کا حوالہ تحریر فرما کر راہنمائی فرمائیں۔
(۸) آپ نے مدعیہ کے بیان اور دعویٰ کو خود سنا؟ پڑھا؟ کیا مفتی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صورت مسئلہ کی تحقیق کے بغیر اور بشرط صحت سوال کی قید کے بغیر فتویٰ جاری فرمادے؟
(۹) کیا نفرت، بغض کے لیے فقہا نے شہادت پیش کرنے کا حکم دیا ہے؟ اگر دیا ہے تو نفرت ثابت کرنے کے لیے خاتون کا خاوند کے خلاف تنسیخ کا دعویٰ کافی ہے یا نفرت کے لیے گواہ پیش کرے؟
(۱۰) جناب مفتی صاحب! مدعیہ نے ایک با اختیار عدالت کے سامنے دعویٰ دائر کیا، اس نے بیان دیا، اس نے الزامات لگائے۔ یہ الزامات غلط تھے تو مدعا علیہ اپنے جواب میں ان کی تردید کرتا اور گواہان صفائی پیش کرتا۔ کیا آپ نے عدالت میں پیش کیے جانے والے بیانات شہادتوں کی مصدقہ نقول ملاحظہ فرما کر فتویٰ صادر فرمایا؟ کیا آپ نے خاتون کی دعویٰ کی مصدقہ نقل منظور حسین سے طلب فرمائی تا کہ پتہ چلے کہ دعویٰ مباح کیا ہے؟ (دعویٰ کی متعدد اقسام ہے، آپ کو علم لوگا، رویس)۔ ممکنہ ہے، مستحیلہ ہے، محرم ہے، قابل سماعت ہے بھی یا نہیں؟
(۱۱) شوہر نے جس تحریری بیان کے ذریتے مدعیہ کے الزامات کو مسترد کیا ہے، کیا وہ بیانات عدالتی تصدیق کے ساتھ آپ کے پاس موجود ہیں۔
(۱۲) اگر عورت بقول آپ کے راضی ہونے کے لیے تیار نہیں اور دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تو فرمایئے، شریعت میں اس کا کیا علاج ہے؟ جو خاتون بوجہ نفرت شوہر کے پاس نہ رہنا چاہے، کیا آپ اسے بندوق کے زور پر بسا سکتے ہیں؟ ’’حلیہ ناجزہ‘‘ مصنفہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ پڑھ لیں۔
(۱۳) خاوند نہ طلاق دے نہ خلع تسلیم کرے تو فرمایئے، نفرت کرنے والی عورت کو آپ اسلامی فقہ کے کون سے قاعدہ کے تحت آباد فرمائیں گے؟
(۱۴) آپ نے کیسے لکھ دیا کہ شرعی شہادت کے بغیر فیصلہ بیوی کے حق میں کردیا جو شرعاً درست نہیں؟ رضامندی سے خلع کی ضرورت کیسے باقی رہ گئی جبکہ عدالت خود بااختیار ہے؟ بایں ہمہ لڑکا کہتا ہے کہ اگر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو مجھے خلق کی بنیاد پر تفریق بین الزوجین پر کوئی اعتراض نہیں۔
(۱۵) عصمت اللہ صاحب! جایئے اور تقی عثمانی صاحب سے پڑھوالیں کہ:
On The other hand, thw defendent stated that he wants to populatw thw plaintiff. However if thw plantiff does not want to live with him, he has got no objection upon dissolutior marrying on thw basis of KHULA.
’’اگر مدعیہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے خلع کی بنیاد پر شادی ختم کرنے پر اعتراض نہیں‘‘۔
یہ جملہ کیا بتا رہا ہے اور اس کا فقہی مفہوم کیا ہے؟ جایئے مفتی تقی عثمانی صاحب سے راہ نمائی حاصل کریں کہ ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘ کا مفہوم کیا ہوتا ہے؟ اور کیا یہ تسلیم خلع اور قبول ہے یا نہیں؟ مندرجہ بالا جملہ کے بغیر بھی عدالت کو فسخ کا اختیار حاصل ہے، لیکن بغرض بحث مان بھی لیا جائے کو توکیل ضروری ہے تو ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوہر کی رضامندی ظاہر ہے تو پھر خلع کا فیصلہ قبول کرنے میں آپ کو کیا دشواری ہے؟ آپ خود لکھتے ہیں کہ شوہر کی رضامندی ظاہر ہو رہی ہے۔
مفتی صاحب! آپ کی اپنی تحریر آپ کے خلاف جارہی ہے۔ فیصلہ سے قبل رضامندی کی بنیاد پر عدالت نے فیصلہ کردیا تو اب آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ’’شرعا غیر معتبر ہے‘‘۔ ’’کہا جائے گا‘‘ کیا جملہ ہے، اس کی وضاحت فرمائیں۔
قاضی؍جج وکیل ہوتے ہیں؟ اس کی دلیل درکار ہے۔ دلیل دیں، کس کتاب میں لکھا ہے کہ عدالتیں اپنے آپ کو وکیل بنائیں اور فیصلہ کرنے کے بجائے لوگوں کی وکالت کریں۔ خلع کے معتبر ہونے کے لیے کیا ضروری ہے اور کیا نہیں؟ آپ کا پورا فتویٰ بغیر حوالہ کے ہے۔ آپ نے فقہ حنفی کی معتبر کتب میں سے کسی کتاب کا کہیں بھی کوئی حوالہ نہیں دیا۔
’’یک طرفہ‘‘ کی تعریف کریں۔ اسے شرعی اصطلاح میں ’’قضاء علی الغائب‘‘ کہتے ہیں۔ کیا مدعا علیہ کا حاضر ہوکر عدالت میں جواب دعویٰ داخل کرنا، مقدمے کی پیروی کرنا ’قضاء علی الغائب‘ ہے؟
مفتی صاحب! آپ عدالتی اصطلاحات سے ناواقف ہیں۔ ’دارالعلوم‘ ایک بڑا ادارہ ہے۔ آپ کا فتویٰ قطعا غلط ہے، بے بنیاد ہے، اس ادارء کے نام کو بٹہ نہ لگائیں۔
قضاء قاضی ’مُلزَم‘ ہے۔ کیا آپ نے غور فرمایا کہ ’’عقود‘‘ میں جہاں قاضی کو انشاء کے اختیارات حاصل ہیں، وہیں اسے فسخ کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ قاضی تو والدین سے زیادہ اختیارات کا مالک ہے۔ پڑھیے ترمذی شریف۔ ’’فان اشتجروا فالسطان ولی من لا ولی لہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ قاضی کتنا بااختیار ہے، پڑھیے بدائع الصنائع، قاضی خان، البحر الرائق، میسوط سرخسی، فتح القدیر، البنایہ، درمختار، ردمختار، محیط، برہانی۔
’’فالاصل ان قضا القاضی بشاھدی الزور و فی ما لہ ولایۃ الانشاء فی الجملۃ یفید الحل عند ابی حنیفۃ‘‘۔
اگر دو جھوٹے گواہ کسی راہ چلتی خاتون کے بارے میں گواہی دے دیں کہ مسٹر حمید نے عدالت میں دعویٰ کردیا کہ سلمیٰ میری بیوی ہے، جبکہ حقیقت میں وہ اس کی بیوی نہ تھی۔ عدالت نے گواہ طلب کیے اور جھوٹے گواہوں نے گواہی دی کہ ہاں سلمیٰ اور حمید کا نکاح ہوا ہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سلمیٰ، حمید کے لیے بطور بیوی حلال ہے۔ قضاءً اور دیانۃ قاضی کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ یہ مسئلہ احناف کا مشہور و معروف مسئلہ ہے کہ ’ھل ینفذ قضاء القاضی ظاھراً و باطناً‘۔ کیا قاضی کا فیصلہ عنداللہ اور اس دنیا میں دونوں طرح سے قابل عمل ہے یا نہیں؟ تو امام صاحب کا موقف تمام فقہ احناف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن امور میں قاضی کو ’’دلایت انشاء‘‘ حاصل ہے، ان میں قاضی کا فیصلہ ظاہراً و باطناً نافذ ہوگا۔
مفتی عصمت اللہ صاحب! یہ ہیں قاضی کے اختیارات۔ فیصلہ زیر سماعت میں مسماۃ فائزہ کے الزامات کا جواب منظور حسین نے عدالت میں دیا ہے۔ خود حاضر ہوا، تردید کی کہ الزامات غلط ہیں۔ آپ اس کی تردید کو تسلیم کرتے ہیں، مگر اس کے اس جملے کو نظرانداز کررہے ہیں: ’’اور اگر مدعیہ میرے ساتھ رہنے پر راضی نہیں تو مجھے بر بنائے خلع شادی کے خاتمے پر اعتراض نہیں‘‘۔
مفتی صاحب! آپ بھی یک طرفہ ٹریفک چلا کر دارالعلوم کی ساکھ کو مجروح نہ کریں۔
قال ابوحنیفۃ: اذا حکم الحاکم بعقدا و فسخ او طلاق نفذ حکمہ ظاھراً و باطناً۔
امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: جب حاکم کسی معاہدے کے ہونے یا ختم کرنے کا فیصلہ صادر کرے یا طلاق کا فیصلہ صادر کرے تو اس کا فیصلہ ظاہرا اور باطناً نافذ ہوگا۔ (بدائع الصنائع، ۷؍۱۵۔ شرح فتح القدیر ۵؍۴۹۲۔ رد المختار ۴؍۴۶۲۔ الفقہ الاسلامی، ۵۹۴۶)۔
حق تفریق قاضی کو حاصل ہے یا نہیں؟ ملاحظہ فرمائیں: مرد و عورت کافر تھے۔ عورت مسلمان ہوگئی، مرد نہ ہوا۔ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ بالغ ہے تو اگر اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو قاضی تفریق کا حکم جاری کرے گا۔ خود بخود یا کسی مفتی کے فتوے سے نکاح ختم نہیں ہوگا، تفریق کا اختیار صرف عدالت کو ہے۔ (قاضی خان ۲۶۳ جلد ۳)۔
زوجان مسلمان ارتدا معا لم یقع الفرقۃ بینھما استحساناً۔
دونوں مرتد ہوگئے تو ان کا نکاح پھر بھی برقرار رہے گا مگر استحساناً۔ تا ہم تفریق کی صورت میں انہیں قاضی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
ایلاء، لعان دونوں صورتوں میں تفریق فتوے کی بنیاد پر نہ ہوئی بلکہ قضاء قاضی ضروری ہے۔ جبکہ ایلاء خاوند نے کیا، تہمت خاوند نے لگائی مگر عدالت کے بغیر وہ آزاد نہیں ہوسکتی۔
طلاق مکرہ واقع ہے، کیا یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک نہیں؟ شبانہ کے خاوند کے گلے پر چھری رکھ کر اسے کہا کہ بیوی چھوڑ دیا جان دو۔ اس نے طلاق دے دی اور جان بچالی تو امام صاحب کے ہاں طلاق واقع ہوجائے گی۔ فرمایئے، طلاق واقع ہوگئی؟ مگر کیا جبر سے بیع بھی ہوگی یا نہیں؟ جبر کے تحت کلمہ کفر سے بندہ کافر ہوجائے گا؟ ’ثلاث جدھن جدوھزلھن جد‘ میں اکراہ کہاں سے داخل ہوگیا؟ ’رفع عن امتی الخطاء و النسیان و ما استکرھوا علیہ‘ کا کیا مطلب ہے؟ اگر ہزل والی حدیث قابل عمل ہے تو اکراہ والی کیوں نہیں؟
اگر اکراہ سے آپ کے ہاں بیوی جدا ہوجاتی ہے تو ایک قانونی عدالت جسے حاکم وقت نے آئین پاکستان کے تحت قائم کیا ہے اور اس عدالت نے مدعیہ اور مدعا علیہ دونوں کے دلائل سنے، دونوں طرف سے رواج اور عدالتی ضرورت کے مطابق مدعیہ اور مدعا علیہ کے وکیل پیش ہوئے، اور عدالت نے فریقین کو بعد از سماعت اپنا فیصلہ سنا دیا جو کہ تفریق بالخلع ہے تو اس عدالتی حکم سے عدم وقوع طلاق کا فتویٰ کیسے درست ہے؟ پستول کی گولی یا چھری کے دباؤ سے آپ منکوحہ شبانہ کو غیر کے لیے آزادی دلواتے رہیں مگر عدالتی فیصلہ جسے عملاً مدعا علیہ منظور نے تسلیم کیا ہے، اسے آپ بچگانہ الفاظ کے ساتھ طفل تسلیاں دے کر ’’دارالعلوم‘‘ کے عظیم نام کو دھبہ لگاتے ہیں: ’’یہی کہا جائے گا کہ فیصلہ یک طرفہ ہے۔‘‘ یہ ’’جائے گا‘‘ مستقبل کا صیغہ ہے، اس کا مطلب بیان فرمایئے۔ شرعاً کیوں غیر معتبر ہے؟ دلیل دیں، آپ نے کوئی تفصیل اوپر نہیں بیان کی۔

اب منظور حسین کی اس درخواست پر تنقیحات ملاحظہ فرمائیں:
تنقیحاتِ بیان، منظور حسین:
(۱) آپ نے رخصتی کے لیے درخواست کی تو کیا آپ نے عدالت میں گواہ پیش نہیں کیے کہ رخصتی نہ کرنے میں افسر علی شاہ والد فائزہ قصور وار ہے؟
(۲) اگر آپ اصرار کرتے رہے، وہ انکار کرتے رہے تو آپ نے فائزہ کو چھوڑ کر کسی دوسری لڑکی سے شادی کیوں کی؟ آپ کے دوسری لڑکی سے شادی کرلینا ہی اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ فائزہ کے الزامات درست تھے۔
(۳) کیا آپ نے عدالت کو بھی کہا کہ سارے الزامات غلط ہیں؟ اور میں قرآن پر ہاتھ رکھتا ہوں؟
(۴) اگر لڑکی نے یہ کہا ہے کہ مجھے مردوں سے نفرت ہوگئی ہے تو نفرت کو محبت میں نہ عدالت بدل سکتی ہے نہ ماں باپ۔ اس کا علاج صرف فسخ ہے جو عدالت نے کردیا۔
(۵) آپ نے دوران سماعت مقدمہ محسوس کیا کہ عدالت صرف لڑکی کی بات سن رہی ہے، آپ کی بات نہیں سن رہی۔ ظاہر ہے یہ کھلی جانبداری ہے۔
(۶) جج صاحبہ نے اپنی طرف سے لکھ دیا کہ مجھے خلع کی بنا پر تفریق میں کوئی اعتراض نہیں۔
محترم! ان باتوں کا جواب درکار ہے کہ معزز عدالت نے آپ کو سنا نہیں، اس نے اپنی طرف سے آپ کی کچھ الفاظ منسوب کیے۔ لڑکی جھوٹی ہے، آپ سچے ہیں۔ آپ کے خلاف بر بنائے خلع فیصلہ عدالت غلط ہے۔ آپ مفتیوں کے پاس گھومنے کے بجائے اس فیصلے کے خلاف اس عدالت سے اعلیٰ عدالت میں کیوں نہیں گئے جو کہ اصلی جائے اپیل ہے؟ سینئر سول جج کے فیصلہ کے خلاف مندرجہ Proper Forum (اصلی دادرسی کی جگہ) ہیں:
سینئر سول جج کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ، ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ، اور شرعی مقدمات کے لیے شریعت کورٹ؍وفاقی شرعی عدالت؍اپلیٹ بینچ، اسلامی نظریاتی کونسل۔ مگر افسوس کہ آپ اس فیصلہ کے خلاف کسی بھی ایسے ادارے میں جانے سے گھبراتے ہیں جہاں صحیح طریقے سے مقدمے کی چھان بین ہو۔ آپ رقعہ بدست ’’لقمان شاہ‘‘ ارسال فرما کر عدالتی فیصلہ منسوخ نہیں کروا سکتے۔ عزیزم! یہ Love Letter نہیں، عدالت کا فیصلہ ہے۔ تعویز گنڈا نہیں۔

خلاصہ:
مفتی عصمت اللہ صاحب نے بدون تحقیق فتویٰ صادر فرمایا ہے اور بنوری ٹاؤن والوں نے دارالعلوم کی مہر دیکھ کر مہر لگادی ہے۔ جامعہ فاروقیہ نے بھی یہی وطیرہ اپنایا ہے۔ اتنے بڑے ادارے کہ مہر اس بے دردی سے استعمال کرنا ’’جسارت‘‘ ہے۔ میں جناب مفتی محمدتقی صاحب کو بھی خط لکھ رہا ہوں۔

میرا فتویٰ یہ ہے کہ:
(۱) فائزہ کا نکاح ختم ہوگیا ہے۔ البتہ اگر اس نے مہر وصول کرلیا تو وہ رقم منظور کو واپس کرے۔ نہیں وصول کیا تو نہ خاوند کا کچھ دینا ہے نہ فائزہ نے لینا ہے۔
(۲) یہ تنسیخ طلاق بائن کے حکم میں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ: (الف) فائزہ جہاں چاہے، جب چاہے، جس سے چاہے، شادی کرسکتی ہے۔ کسی عدت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ غیر مدخولہ بہا ہے۔ (ب) ہاں، اگر فائزہ منظور سے صلح کرنا چاہے تو تجدید نکاح کے بعد دوبارہ منظور کے عقد میں جاسکتی ہے۔

والسلام
قاضی محمد رویس خان ایوبی
ریٹائرڈ مفتی ریاست جموں و کشمیر
مدیر دارالافتاء میر پور آزاد کشمیر
۳ فروری ۲۰۱۴ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتویٰ کے حوالہ جات:
فقہ السنہ جلد ۲، ص۲۴۶،۲۴۸،۲۴۹۔
قانون فسخ ازواج ۱۹۲۔ ۱۹۲۹۔دفعہ نمبر۶
مصری قانون (۷) (۸)
پاکستان فیملی لاز،ایکٹ ۱۹۶۴ء، دفعہ ۴؍۱۰۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل از مولانا لدھیانوی، جلد۶، ص۱۰۷۔
فتح القدیر، البنایۃ، البحر الرائق، ردالمختار، درمختار، محیط برہانی، قاضی خان، بدائع الصنائع۔

بشکریہ ماہنامه الشریعہ (جون 2015ء)


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “عدالتی فسخ نکاح کی شرعی حیثیت

  1. امدادالله says:

    انداز اختلاف اچھا نہیں لگا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں