- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اسلام کی حقانیت پر اعتراف کے بغیرکامیابی حاصل نہیں ہوسکتی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اسلام، قرآن پاک اور نبی کریم ﷺ کو ناقابل انکار حقائق یاد کرتے ہوئے کہا کہ انسان کو اپنی نجات و کامیابی کے لیے اسلام کی حقانیت پر اعتراف کرنا پڑے گا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے دس شعبان المعظم کے خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیت: «إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ» [رعد: 11] کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اگرچہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ اور قبضہ قدرت میں ہے لیکن ہر فرد کی تقدیر اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالی نے خیر وشر دونوں کو ایجاد فرمایاہے اور انسان کو یہ اختیار دیا گیاہے کہ اچھائی یا برائی کا انتخاب کرے۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے انسان کو خیر وشر کے انتخاب میں آزاد رکھاہے لیکن اس اختیار و آزادی کے بعد خبردار فرمایاہے کہ برائی کا انتخاب کرنے والوں کا انجام برا ہوگا؛ ”انا اعتدنا للظالمین نارا“۔ جو کفر کی راہ پر چلتاہے وہ عذاب الہی سے دوچار ہوکرجہنم کی آگ میں گرفتار ہوجائے گا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: تاریخ انسانیت میں بشر کو جن تغییرات اور اتارچڑھاو کا سامنا کرنا پڑاہے، سب اسی کے کرتوتوں کے نتائج ہیں۔ ناشکری اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پامالی نے لوگوں کے کارنامے سیاہ کردیے ہیں۔ جب فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت مسترد کردی جو توحید کی پرچار کرتے تھے، اللہ کے عذاب و غضب میں گرفتار ہوا۔ جن قوموں نے اللہ تعالی کی یاد سے غفلت کرکے اپنی ذمہ داریاں پس پشت ڈالی ہے، ان کا انجام بہت برا ہوا اور وہ سخت عذاب سے دوچار ہوئیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزیدگویاہوئے: اگر لوگ اللہ کا شکر بجا لائیں اور حقائق کو دیکھ لیں تو ان کی دنیا و آخرت آباد و تابندہ ہوجائے گی اور وہ اللہ تعالی کے عذاب و گرفت سے بچ جائیں گے۔ قرآن پاک کے مطابق شکر اور ایمان دو ایسی حقیقتیں ہیں جن پر توجہ دینا قوموں کی فلاح و کامیابی کا باعث ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ رب العزت نے انسانوں کو عقل اور بصیرت کی نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ معاشرے میں موجود حقائق کو دیکھ کر سمجھ لیں۔ اللہ تعالی نے انسان کی بہتر رہنمائی کی خاطر عقل و بصیرت کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام اورآسمانی کتابوں کو بھیجا تاکہ انسان آسانی سے حقائق سے آگاہ ہوجائے۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں کہا: لہذا ان تمام نعمتوں کے باجود اگر انسان حقائق سے چشم پوشی کرے تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ جو لوگ اسلام جیسی واضح حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں دراصل توحید، معاد اور رسالت انبیا سے روگردانی کرتے ہیں اور اپنی تقدیر سے کھیل کر اللہ کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔

حقائق کو نظرانداز کرنا مسلم ممالک کے بحرانوں کی اصل وجہ ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کےدوسر ے حصےمیں مسلم ممالک میں سیاسی و سکیورٹی بحرانوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معاشرے کے حقائق نظرانداز کرنے کو تمام مسائل کی بنیادی وجہ قرار دی۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آج کی دنیا حقیقت پسند نہیں ہے بلکہ ہر کوئی اپنی خواہشات کے پیچھے لگا ہواہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج زمینی حقائق کو نظرانداز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا: مسلم ممالک میں بطور خاص سیاسی، معاشی، معاشرتی و سکیورٹی مسائل کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے؛ معاشرے میں موجود حقائق کو نظرانداز کرنا اور دوسروں پر کوئی توجہ نہ دینا! اگر دنیا والے اس حقیقت پر دھیان دیتے تو آج کا انسانی معاشرہ کمتر مسائل سے دست و گریبان ہوتا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: مشرق وسطی میں لوگ پریشان ہیں۔ آئے روز معصوم و نہتے لوگ قتل ہورہے ہیں اور اجتماعی قبریں دریافت ہوتی ہیں۔ خطرناک اور ماڈرن اسلحے کی خرید میں مسلم حکام ایک دوسرے سے سبقت لینے میں مصروف ہیں۔ یہی خطرناک اسلحہ مسلمانوں پر ٹیسٹ ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: آج اگر مشرق وسطی میں بحرانوں کی بھرمار ہے اور ہر سو خونِ مسلم بہہ رہاہے، اس کی وجہ بھی حقائق سے غفلت ہے۔ تکفیر، انتہاپسندی و شدت پسندی جیسے مسائل کے پیچھے بھی اسی غفلت کا ہاتھ ہے۔ اختلافات و منازعات کم ہونے کے بجائے اضافہ ہورہے ہیں۔ یہ سب اسرائیل سمیت تمام سامراجی قوتوں کے مفاد میں ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ان لڑائیوں سے مسلمان ہی نقصان سے دوچار ہورہے ہیں۔

صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: یمن، پاکستان، عراق، لیبیا، افغانستان اور شام جیسے ممالک میں حکام نے حقائق سے چشم پوشی کی اور اپنے عوام کی مختلف اکائیوں کے حقوق پر توجہ دینے کے بجائے انہیں دباتے رہے، نتیجے میں بحران پیدا ہوئے اور اب مسلمانوں کے مفادات خسارے سے دوچار ہیں۔ اگر ان ملکوں میں مختلف لسانی و مسلکی گروہوں اور برادریوں کے حقوق پر توجہ دی جاتی آج وہاں مسائل کھڑے نہ ہوتے۔

انہوں نے کہا: یمن کی گزشتہ اور موجودہ حکومتیں اگر حقائق پر توجہ دیتی، اب وہاں حالات مختلف ہوتے۔ اسی طرح شام اور عراق کے حکام اگر اپنی قوموں کی تمام برادریوں کے حقوق و مطالبات پر توجہ دیتے، اب شامی و عراقی قومیں مسائل سے دوچار نہ ہوتیں اور خود وہاں کے حکام مسائل کے شکنجے میں نہ پڑجاتے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے مسلم ممالک میں امتیازی پالیسیوں اور رویوں کی وجہ سے مختلف قسم کے بحران سر نکال رہے ہیں۔ وہاں کے حکام زور کی زبان سے بات کرنے اور دباو کی پالیسی ہی سے کام لیتے رہے اور اب امن کی بحالی سے عاجز ہوچکے ہیں۔ دباو کی پالیسی مسائل کو راکھ کی نیچے آگ کی طرح صرف چھپادیتی ہے۔

مسلم ممالک کے منازعات عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے
ممتاز سنی عالم دین نے عالم اسلام کے سب سے اہم بحران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عالم اسلام کے سب سے بڑے مسائل میں مسلم ممالک کے منازعات و اختلافات شامل ہیں۔ جب تک مسلم حکام مذاکرات کی میز پر اکٹھے نہیں ہوں گے تب تک وہ مسائل کے حل میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے مزیدکہا: فرقہ وارانہ اور مذہبی لڑائیوں کے نقصانات کافی گہرے ہوتے ہیں اور پوری مسلم دنیا ان لڑائیوں کی لپیٹ میں آتی ہے۔ ایسی فسادات کے اثرات اور ان سے جنم لینے والے بغض ونفرت صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرے یا اس پر حملہ آور ہوجائے۔ اس سے سب خسارے میں پڑجاتے ہیں اور بدامنی خود ان کے ملکوں میں پھیل جاتی ہے۔

مسلم ممالک ایک دوسرے کے داخلی امور میں مداخلت سے گریز کریں
رابطة العالم الاسلامی کی سپریم کونسل کے رکن نے تاکید کرتے ہوئے کہا: عرب اورایران سمیت تمام مسلم ممالک کے مفادات کے خلاف ہے کہ وہ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کریں۔ یہ کام ان ملکوں کے قومی مفادات اور امن کے خلاف ہے۔ سعودی عرب اور ایران سمیت کسی بھی ریاست کے مفادات اس میں نہیں ہیں کہ وہ کسی اور ملک میں لڑائی میں لگ جائیں اور کسی ملک پر حملہ آور ہوجائیں۔

مولانا نے کہا: تمام مسلم ممالک کے سربراہاں اکٹھے ہوکر مشکلات کا حل سیاسی طریقوں سے نکال لیں۔ یمن، عراق اور شام جیسے ملکوں میں شیعہ وسنی سمیت تمام اقلیتوں اور اکائیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ سیاستدانوں کو چاہیے اپنی قوموں کی آواز سنیں اور ان کے مسائل پر توجہ دیں۔

انہوں نے مزیدکہا: میری آرزو یہی ہے کہ عالم اسلام کے چوٹی کے شیعہ و سنی علمائ، جن کا عوام پر اثرو رسوخ ہے، اکٹھے ہوکر وفدوں کی شکل میں مسلم ممالک کا دورہ کریں اور مسلم حکام کو ایک دوسرے سے قریب کریں۔ اسی صورت میں بڑے مسائل کا حل ممکن ہے جبکہ اقلیتوں کے حقوق یقینی بن جائیں گے اور قوت کی تقسیم سے قومی صلح کی فضا قائم ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: عالمی سامراجی طاقتوں کی کوشش یہی ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے دور رہیں، ان کا مفاد اسی میں ہے۔ لیکن مسلمانوں کو ہوشیار و بیدار رہنا چاہیے۔ عالم اسلام کے تمام مسائل بعض علتوں اور اسباب کے معلول ہیںجو معاشرے میں موجود ہیں۔ معاشرے کے حقائق کو نظرانداز کرنے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔