- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

“امن” اور “صحت” بشر کی دو بنیادی ضرورتیں ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے اپنے چوبیس اپریل دوہزار پندرہ (پانچ رجب) کے خطبہ جمعے میں امن اور جسم وروح کی صحت کو ہر انسان کی بنیادی ضرورتیں قرار دے کر مادی و معنوی ترقی پر زور دیا۔
سنی آن لائن کے مطابق، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نمازجمعہ سے خطاب کرتے ہوئے امن و صحت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: بشر کو دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے؛ ایک امن کی اور دوسرا جسم و روح کی سلامتی و صحت کی۔ ان دو ضرورتوں کے بغیر زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور کوئی لطف مادی و معنوی زندگی میں محسوس نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزیدکہا: اگر کسی پاس آرام و راحت کے تمام وسائل و اسباب موجود ہوں لیکن کسی وجہ سے اگر اس کی صحت خراب ہو تو اس اسباب اور سامان راحت سے سکون نہیں ملتا۔ صحت کے بغیر فرد کا دین و دنیا متاثر ہے۔ بندہ اس وقت اللہ کی عبادت وبندگی بآسانی کرسکتاہے جب اس کی صحت ٹھیک ہو؛ درد اور آہوں کے ساتھ عبادت کا لطف بھی حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت عایشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی اگر شبِ قدر پائی تو کون سی دعا پڑھوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي”؛ یہ عافیت کی دعا ہے جو دنیا و آخرت کو شامل ہے۔
زندگی میں امن و سکون کی اہمیت واضح کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: امن بہت اہم ہے؛ جو شخص کسی کا مقروض نہیں ہے، کسی حکومت یا گروہ کو مطلوب نہیں ہے اور سکون سے رہ رہاہے تو اسے اس نعمت پر سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص جتنا بھی بڑا مالدار ہو مگر آزادی وسکون کے بغیر تمام سہولتیں اور آسائش کے اسباب بے کار ہیں۔ جسم و روح کی صحت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر جسم صحت مند ہو تو اس کا اثر روح اور روحانیت پر پڑجاتی ہے۔ نیز اگر روحانی زندگی درست ہو اور بندہ گناہوں میں مبتلا نہ ہوتو اس کا اثر جسم پر بھی ظاہر ہوتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا: اکثر معاشروں میں توجہ مادی زندگی کی ترقی پر دی جارہی ہے اور روحانیت سے غفلت ہے؛ یہ بنی نوع انسان کی بہت سنگین غلطی ہے کہ ایک زاویے کو پکڑلے اور دوسرے کو نظرانداز کردے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص صرف روحانی ترقی کی سوچ میں ہو اور مادی و جسمی ترقی کو بالکل چھوڑدے تو یہ بھی غلطی ہے، دنیا بھی تو ہماری ہے۔ زندگی کی درست ادارت یہی ہے کہ بندہ روح وجسم دونوں کی ترقی کے لیے محنت کرے۔ اپنی اولاد کی دینی و دنیوی تربیت کے لیے کوشش کرے۔

گناہوں کا منفی اثر زندگی پر پڑتاہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے معاشرے میں ہزاروں قسم کے فساد و برائی کے وجود کو گناہ و معاصی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا: سودخوری، چوری، ظلم و جبر اور حرام آمدنی کا منفی اثر زندگی پر پڑتاہے۔ سب سے بری آمدنی حرام والی ہے۔ جبکہ حلال و جائز روزی کی تلاش بڑی عبادتوں میں ایک ہے۔ حرام پیسے کا منفی اثر اور نقصان جسم و روح پر آتاہے۔ کیا معلوم بہت ساری خطرناک بیماریاں بعض گناہوں کے نتیجے میں پھیل چکی ہیں۔ لہذا معاشرہ ہر لحاظ سے پاک و صاف ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: صفائی سترائی اسلامی تہذیب اور ایمان کا حصہ ہے۔ ایمان کا دوسرا حصہ باطن کی صفائی ہے اور قلب کو شرک وکفر، نفاق، حسد اور حب مال و خودپسندی جیسی برائیوں سے پاک و صاف ہونا چاہیے۔ ایک کامل مسلمان اپنے ظاہر و باطن کی صفائی پر توجہ دیتاہے؛ ایسا شخص دنیا میں مختلف قسم کی بیماریوں سے پاک و صاف رہتاہے اور ابدی زندگی میں بھی عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہتاہے۔
مسلمانوں کی مادی و روحانی پس ماندگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں دین صرف نماز کا نام ہے؛ حالانکہ ایک مسلمان کو چاہیے اسلام کے تمام اصول کے پابند ہو اور مالی و جانی عبادات بجا لائے۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی اپنے تمام شعبوں کے ساتھ اسلامی اصول کے مطابق ہونی چاہیے۔ جو لوگ صرف دنیا پر توجہ دیتے ہیں وہ اللہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان، اخلاق اور ہر عمل شریعت اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو تو وہ کامل بن جائے گا۔

معاشرے کو اصلاح و تعمیر نو کی ضرورت ہے
مولانا عبدالحمید نے معاشرے کی اصلاح و روحانی ترقی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: افسوس کا مقام ہے ہمارے معاشرے میں گندگیوں اور خامیوں کی بہتات ہے۔ ہمیں تعمیرنو اور اصلاح و تزکیہ کی ضرورت ہے۔ اصلاح و تزکیہ کے بعد ہماری زندگی بدل جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام و اہل بیت کی محنتوں کی بدولت ان کا معاشرہ سوفیصد اللہ والا اور دیندار معاشرہ بن گیا۔ یہی معاشرہ تمام معاشروں کے لیے مثال بن گیا اور لوگ ان کے دلدادہ ہوگئے۔ انہیں محض دیکھنے سے لوگ جوق درجوق مشرف بہ اسلام ہوجاتے تھے۔
انہوں نے مزیدکہا: اگر انسان کی اصلاح ہوجائے تو وہ اللہ تعالی اور جنت الفردوس تک پہنچ جاتاہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کریں؛ ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کی ظاہری و باطنی گندگیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو ہماری ظاہری و روحانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے معاشرے کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے؛ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے۔
مولانا نے کہا: ماہ رجب و شعبان اصلاح باطن کے لیے بہترین مواقع ہیں، کثرت سے روزہ رکھنا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ آخرت کا کاروان رواں دواں ہے؛ صلح سے کام لیں اور خدا کا قرب حاصل کریں اور بندوں سے بھی نفرت چھوڑدیں۔
اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے ’امن‘ کو کسی بھی خطے کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ضروری یاد کرتے ہوئے کہا: ملک میں ممنوع و حرام سامان سمگل نہیں کرنا چاہیے۔ مسافروں اور شہریوں کے لیے مسائل کھڑے نہیں کرنا چاہیے۔ ہر قسم کی ترقی، خوشحالی، صحت اور مساجد و بازاروں کی رونقیں امن کے سائے میں حاصل ہوسکتی ہیں۔ بدامنی کی صورت میں تمام امور میں خلل آتاہے۔ لہذا امن یقینی بنانے کے لیے کوشش کریں اور متعلقہ حکام کے ساتھ بھی تعاون کریں۔

جنگ کہیں فیصلہ کن نہیں ہے
ایرانی اہل سنت کے ممتاز عالم دین نے خطاب کے دوسرے حصے میں یمن میں فضائی حملے بند کرنے کو ایک خوش آئند اقدام قراردیتے ہوئے کہاہے جنگ کہیں بھی فیصلہ کن نہیں ہوسکتی اور پرامن طریقوں سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یمن میں فضائی حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا اعلان خوشی کا باعث ہے۔ ہمیں امید ہے یمنی عوام مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل سیاسی طریقے اور مذاکرات کے ذریعے نکالیں گے۔
انہوں نے مزیدکہا: جنگ کسی بھی ملک میں مسائل کا حتمی حل نہیں تھا؛ اگر جنگ و لڑائی سے مسائل حل ہوتے تو جن ملکوں میں لڑائیاں جاری ہیں تو وہاں مسائل و بحرانوں کا خاتمہ ہوتا۔ جنگ سے مسائل مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے مذاکرات اور قومی حکومتوں کی تشکیل پر زور دیتے ہوئے کہا: جن ملکوں میں امن کے مسائل موجود ہیں اور خانہ جنگی کی کیفیت ہے، وہاں سب کو مذاکرات کے میز پر اکٹھے ہوکر باہمی گفت وشنید اور قومی حکومتیں تشکیل دینے سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو جن ممالک میں بحران پائے جاتے ہیں، تو ان بحرانوں کی اصل وجہ قوم کی مختلف اکائیوں اور اقلیتوں کے حقوق پامال کرنا ہے۔ اقلیتوں کو نظرانداز کیاگیا اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا تو مسائل پیدا ہوئے۔
ایران سمیت تمام ممالک کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اپنی قوم کی آواز سنیں اور اپنی قوموں پر مزید توجہ دیں۔ قوموں کے جائز اور قانونی مطالبات پر کان دھرنا چاہیے۔جب کسی قوم کی آواز سنی جائے اور عوامی مطالبات پر توجہ دی جائے تو ان کی خوشحالی یقینی ہوگی اور علیحدگی کا خطرہ ٹل جائے گا۔
اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے انہوں نے ہوئے کہا: سیاسی حل اور مذاکرات کے رستے ہموار کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ تمام مسالک و مذاہب اور لسانی برادریوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور قومی حکومتیں بنانے سے بہت سارے مسائل حل ہوتے ہیں۔