- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شان حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ

امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب‘ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی والدہ فاطمہ بن اسد بن ہاشم تھیں‘ کنیت ان کی ابوالحسن تھی۔

رسول اللہ ﷺ کے (چچازاد) بھائی اور آپ کے داماد یعنی آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر تھے۔
مدینہ کی طرف ہجرت کی اور بدر میں‘ خندق میں اور بیعۃ الرضوان میں اور تمام مشاہد میں سوا تبوک کے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک رہے‘ تبوک میں آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے اہل و عیال کی نگہداشت کیلئے چھوڑ دیا تھا‘ تمام مشاہد میں ان سے کار نمایاں ظاہر ہوئے‘ جب غزوۂ احد میں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہٗ جن کے ہاتھ میں جھنڈا تھا شہید ہوئے تو پھر رسول اللہ ﷺ نے جھنڈا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو دیا۔
آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فرمایا ’’تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا اسلام: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب ایک دن کے بعد یعنی جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام لاچکیں اور آپ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ چکیں اس کے ایک دن کے بعد آئے وہ فرماتے تھے کہ میں نے دیکھا کہ دونوں نماز ادا فرمارہے ہیں‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ: ’’اے محمد(ﷺ)! یہ کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ خدا کا دین ہے جو اس نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے اور جس کی تبلیغ کیلئے پیغمبروں کو بھیجا میں تمہیں اللہ کی طرف اور اس کی پرستش کی طرف بلاتا ہوں اور لات و عزیٰ کے انکار کرنے کی ترغیب دیتا ہوں‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا یہ تو ایک ایسی بات ہے جو میں نے آج سے پہلے نہ سنی تھی‘ لہٰذا میں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا جب تک ابوطالب سے اس کا ذکر نہ کرلوں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات ناپسند ہوئی کہ قبل اس کے آپﷺ اپنے معاملہ کا اظہار کرنا چاہیں افشائے راز ہوجائے‘ پس آپﷺ نے فرمایا کہ اے علی! اگر تم اسلام نہیں لاتے ہو تو اس راز کو پوشیدہ رکھو‘ پس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس شب کو خاموش رہے پھر اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اور صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمدﷺ شب کو آپﷺ نے مجھ سے کیا فرمایا تھا‘ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ کہاتھا کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہی ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور لات و عزیٰ کا انکار کردو اور خدا کے ساتھ شرک کرنے سے بَری ہوجاؤ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کو منظور کرلیا اور اسلام لائے حضرت ابوطالب کے خوف سے پوشیدہ طور پر آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور اپنا اسلام مخفی رکھتے تھے۔‘‘مجاہد روایت کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ دس برس کی عمر میں اسلام لائے تھے۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ہجرت: مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ آپ کے گھر والوں کو لے کر آئیں اور انہیں حکم دیا تھا کہ جس قدر امانتیں اور وصیتیں آپ کے پاس ہیں‘ نیز جس شب کو آپ ﷺ چلے اس شب کو حکم دیا تھا کہ میرے بستر پر سو رہو اور فرمایا کہ جب تم میرے بستر پر رہو گے قریش مجھ کو تلاش نہ کریں گے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپ ﷺ کے بسترمبارک پر لیٹ گئے‘ کفار قریش آپﷺ کے بستر مبارک پر نظر لگائے ہوئے تھے‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کواس پر لیٹا ہوا دیکھ کر سمجھتے تھے کہ نبی کریم ﷺ لیٹے ہوئے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اس بستر پر دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر محمد(ﷺ) باہر گئے ہوتے تو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ) کو ضرور اپنے ساتھ لے جاتے‘ بس اسی خیال میں وہ نبی کریم ﷺ کی تلاش سے باز رہے۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حکم دیا تھا کہ تم مدینہ میں آکر مجھ سے ملنا‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپ ﷺ کے گھر والوں کو لے کر چلے‘ شب کو چلتے تھے اور دن کو پوشیدہ ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے‘ جب نبی کریمﷺ کو ان کے آنے کی خبر ملی تو آپﷺ نے فرمایا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو میرے پاس بلاؤ‘ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ آنے کی طاقت نہیں رکھتے‘ پس آپﷺ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو دیکھ کر لپٹا لیا اور ان کے قدموں کی جو حالت دیکھی کہ ورم کرگئے ہیں اور ان سے خون ٹپک رہا ہے تو آپ ﷺ ازراہ محبت رونے لگے آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے پیروں پر مل دیا اور ان کو عافیت کی دعا دی‘ پس اس وقت سے کبھی ان کے قدموں میں کوئی شکایت نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ شہید ہوگئے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ مجھے رسول خدا ﷺ نے یمن بھیجا میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے یمن بھیجتے ہیں اور لوگ مجھ سے مقدمات کا فیصلہ کرائیں گے حالانکہ مجھے اس کا کچھ علم نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قریب آؤ میں قریب گیا پس آپﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا بعد اس کے فرمایا کہ :’’ اے اللہ! ان کی زبان کو ثابت قدم رکھ اور ان کے قلب کو ہدایت کر‘‘ پس قسم اس کی جس نے دانہ سے درخت نکالا اور جان کو پیدا کیا اس کے بعد کبھی کسی مقدمہ کے فیصلہ کرنے میں مجھے شک نہیں ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب فرماتے تھے کہ دنیا مردار ہے جو شخص دنیا میں کچھ لینا چاہے تو وہ کتوں کے ساتھ اختلاط کرنے پر اپنے نفس کو مجبور کرے۔ حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب سے فرماتے تھے کہ اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) اللہ عزوجل نے تم کو ایسی خوبی عنایت فرمائی ہے کہ اس سے بہتر خوبی اپنے بندوں میں سے کسی کو نہیں دی وہ خوبی کیا ہے دنیا کی طرف سے زاہد (یعنی بے رغبت) رہنا تم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ تم دنیا سے کچھ لیتے ہو نہ دنیا تم سے کچھ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو مساکین کی محبت عنایت فرمائی ہے وہ تم کو اپنا پیشوا بنا کر خوش ہیں اور تم ان کو اپنا پیرو بنا کر خوش ہو‘ پس خوشی ہو اس کی جو تم سے محبت رکھے اور تم پر سچ بولے اور خرابی ہو اس کو جو تم سے اے علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) بغض رکھے اور تم پر جھوٹ بولے جو لوگ تم سے محبت رکھتے ہیں اور تم پر سچ بولتے ہیں وہ (جنت میں) تمہارے گھر کے پڑوسی اور تمہارے رفیق ہوں گے اور جو لوگ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم پر جھوٹ باندھتے ہیں اللہ پر حق ہے کہ ان کو قیامت کے دن جھوٹوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پر کھڑا کرے۔
امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کبھی مال جمع نہیں کیا‘ ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہما کا بیان ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ صرف چھ سو درہم چھوڑ کر گئے تھے جس سے انہوں نے ایک غلام خرید لیا تھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے قول: الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سراً وعلانیہ
کی تفسیر میں روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب کے حق
میں نازل ہوئی ان کے پاس چار درہم تھے ایک انہوں نے شب کو (راہ خدا میں) دیا اور ایک دن کو اور ایک چھپا کر اور علانیہ طور پر۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ۟‘ترجمہ: ’’اے نبی! کہہ دو کہ آؤ بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو ہم اپنی عورتوں کو تم اپنی عورتوں کو ہم اپنے آپس والوں کے تم اپنے آپس والوں کو‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بلایا اور فرمایا کہ :’’یااللہ! یہ میرے اہل ہیں‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے تھے کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے وہی شخص محبت رکھے گا جو مومن ہوگا اور وہی شخص بغض رکھے گا جو منافق ہوگا۔حضرت سہل بن سعد نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: ’’میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے‘ وہ اللہ و رسول ﷺ اس کو دوست رکھتے ہوں‘ پس اس رات بھر اس کا انتظار کرتے رہے کہ دیکھئے جھنڈا کس کو ملتا ہے (صبح کو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ان کی آنکھوں میں درد ہے آپﷺ نے فرمایا ان کو بلاؤ۔ چنانچہ وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور ان کیلئے دعا کی وہ اچھے ہوگئے گویا کہ وہ درد تھا ہی نہیں۔ پھر آپﷺ نے ان کو جھنڈا دیا‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ کیا میں ان سے لڑتا رہوں‘ یہاں تک کہ وہ ہمارے مثل ہوجائیں؟ آپﷺ نے فرمایا ٹھہرو جب تم ان کے مقابل پہنچنا تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور انہیں خبر دینا اس حق کی جو اللہ کا ان پر ہے اللہ کی قسم اگر اللہ تمہارے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کردے تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ایک شخص حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کے پاس آیا اور اس نے کہا ’’میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے ایسی محبت رکھتا ہوں کہ ایسی کسی سے محبت نہیں رکھتا‘ حضرت سعیدؓ نے کہا تم ایک ایسے شخص سے محبت رکھتے ہو جو اہل جنت میں سے ہے پھر انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی کہ ہم لوگ رسول خدا ﷺ کے ہمراہ کوہ حرا پر تھے تو آپ ﷺ نے دس آدمیوں کا جنتی ہونا بیان کیا‘ ابوبکر اور عمر اور عثمان اور علی اور طلحہ اور زبیر اور عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ حضرت سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا نام مشہور روایت میں نہیں ہے بلکہ بجائے ان کے سعد بن ابی وقاص اور ابوعبیدہ کا نام ہے اور سعد بن زید کا نام اس میں چھوٹ گیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان میں مواخات کرائی پس علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آئے اور انہوں نے فرمایا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان مواخات کرائی مگر میری مواخات آپ ﷺ نے کسی سے نہیں کرائی‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے بھائی ہو دنیا و آخرت میں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ کہ رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ) حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہاتھ مبارک پکڑا اور فرمایا کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہو اور ان دونوں سے اور ان کے باپ اور ماں سے محبت رکھتا ہو وہ قیامت کے دن میرے ہمراہ جنت میں ہوگا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے (ایک مرتبہ) عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنائیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ : اگر ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو خلیفہ بناؤگے تو ان کو دنیا کی طرف سے بے رغبت اور آخرت کی طرف راغب پاؤگے اور اگر تم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو خلیفہ بناؤگے تو ان کو صاحب قوت اور امین پاؤگے وہ اللہ کے راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کریں گے اور اگر تم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کوخلیفہ بناؤ گے مگر میں سمجھتا ہوں کہ تم ایسا نہ کرو گے تو ان کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پاؤ گے وہ تمہیں راہ راست پر چلائیں گے‘‘۔

عبقری میگزین