- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شیخ التفسیر مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی کے ساتھ چند لمحے (آخری قسط)

ممتاز پاکستانی عالم دین اور اسلامی سیاست دان شیخ التفسیر مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی سے ہماری گفتگو کی پہلی قسط [1] شائع ہوچکی ہے جس پر آپ قارئین نے تبصرہ کرکے اپنی مثبت آراءسے ہمیں آگاہ کیا۔ اس علمی گفتگو کہ دوسری اور آخری قسط اب پیش خدمت ہے۔

سنی آن لائن: حضرت کچھ اپنی علمی خدمات و مصروفیات پر روشنی ڈالیں اور آپ نے اپنے دورہ تفسیر میں مولانا حسین علی اور مولانا احمدعلی لاہوری کا طرزاکٹھے کیوں کیا؟
مولانا محمدیوسف: اصل بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور پھر شیخ الہند رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ قوم قرآن پاک سے دور ہے اور اسی وجہ سے مار کھارہی ہے۔ حضرت شیخ الہند کے دو منصوبے تھے؛ مسلمانوں کو قرآن پاک کے قریب کرو اور دوسرا یہ کہ آپس کے اختلافات چھوڑدیں۔ دشمن کی کوشش ہے مسلمانوں میں اختلاف پڑجائے۔ اس سلسلے کی روح روان دراصل وہ حضرات ہیں۔ پھر قرآن پاک کے ذریعے دو کام کرنے ہیں؛ نظریے کی پختگی ، نظریے کا انقلاب اوردوسرا نظام کی پختگی اور انقلاب۔ یہ دو حصے ہوئے؛ حضرت شیخ الہند، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا احمدعلی لاہوری رحمہم اللہ نے انقلاب اور نظام کومدنظر رکھ کر قرآن کو ترویج کی اور پڑھایا البتہ توحید کے بعد۔ جبکہ بدعات وشرکیات کے خلاف مظاہرالعلوم سہارنپور کے صدراول مولانا مظہر نانوتوی رحمہ اللہ نے توحید کا علم بلند کیا۔
جب مولانا حسین علی حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے پاس حدیث پڑھتے تھے جہاں آپ نے دورہ حدیث بھی مکمل کیا، مولانا مظہرنانوتوی گنگوہ کے قریب سہارنپور میں دورہ ترجمہ وتفسیر پڑھاتے تھے۔ مولانا حسین علی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ مولانا رشیداحمدگنگوہی رحمہ اللہ کے حکم پر مولانا مظہرنانوتوی کے پاس قرآن پڑھا۔ ان ہی کی اصطلاحات جو شاہ عبدالقادر محدث دھلوی سے منقول تھیں، مولانا حسین علی نے کاپیوں کی شکل میں نقل فرمایا ۔ سارا قرآن ان کو از بر تھا اور پنجاب آکر انہوں نے توحید کا علم اٹھایا اور شرک وبدعات کے خلاف تحریک چلائی۔ اس وقت پنجاب اہل بدعت کے شکنجے میں تھا اور علمائے حق لاہور، گجرات، رحیم یارخان اور ملتان جیسے شہروں میں جلسہ نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے توحیدی انقلاب لایا اور توحید سے وحدت خودبخود حاصل ہوجاتی ہے، ویسے نام ہی توحید ہے۔ توحید کا معنی ہے ’شہادة ان لاالہ الااللہ‘؛ بہت سارے علماءو شارحین نے یہ لکھاہے۔
 نظام کے حوالے سے حضرت مولانا عبیداللہ سندھی نے کام کیا جو فرماتے تھے عربی جاننے اورفقہ کی حقیقت جاننے میں میں اورمولانا انورشاہ کشمیری برابر ہیں۔ وہ قرآن کی تفسیر نقل سے کرتے ہیں اور میں حکمت سے؛ یہ دو شعبے ہوئے۔ چونکہ حالات کی وجہ سے حضرت سندھی رحمہ اللہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے تھے تو ان کے شاگرداول اور بھتیجے مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ ان کی تحریک کے ترجمان بن گئے۔
حضرت لاہوری رحمہ اللہ کم سن تھے جب ان کے والد فوت ہوئے تو مولانا سندھی نے خلیفہ غلام محمد کے مشورے پر مولانا لاہوری کی والدہ سے نکاح کیا جو بھوڑی تھی لیکن چھوٹے اور یتیم بھتیجوں کی خاطر ان کی والدہ سے نکاح کیا۔ تو مولانا سندھی اپنے بھتیجے کے سوتیلے باپ بھی ہیں اور اس کے علاوہ ان کے سسر بھی ہیں چونکہ اپنی بیٹی کی شادی حضرت لاہوری سے کرایا۔ مولانا لاہوری نے حدیث وتفسیر سمیت دیگر علوم مولانا سندھی سے حاصل کیے اور ان کے نظام اور سوچ کو آگے بڑھایا۔ مولانا سندھی کی دو بیٹیاں تھیں، ان میں جو مولانا لاہوری کے نکاح میں تھیں وہ فوت ہوگئی تھیں اور جب مولانا سندھی چلے گئے تو چھوٹی بیٹی دین پور چھوڑگئے؛ دین پور تحریک ریشمی رومال میں فعال تھا بلکہ اس کا گڑھ سمجھاجاتا تھا۔ جب حضرت دین پوری رحمہ اللہ کی پہلی بیوی فوت ہوگئیں تو انہوں نے مولانا سندھی کی بیٹی سے نکاح کیا جو میاں ظہیرالحق کی والدہ ہیں۔
میاں ظہیرالحق بھی فوت ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا ایک مرتبہ مجھے لاہور سے تارآئی کہ فورا لاہور پہنچ جاو میں بیمار ہوں۔ مولانا سندھی سخت بیمار تھے چونکہ انگریزوں نے انہیں زہر دیا تھا۔ کئی مرتبہ انہیں زہرپلایا تھا مگر وہ بچ گئے تھے۔ جب میاں ظہیرالحق لاہور پہنچے تو مولانا سندھی مسجدکے صحن میں تھے اور دوافسر ان کی نگرانی کررہے تھے۔ کہتے ہیں جب میں وہاں گیا تو مولانا سندھی نے افسروں سے کہا آپ دور ہوجائیں ہم گھریلو باتیں کرتے ہیں؛ انگریز کو یقین تھا مولانا سندھی ہرگز جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ ہمیشہ سچ کہتے ہیں۔ انگریزوں نے ان کی سچائی اس وقت دیکھی تھی جب افغانستان اور انگریزوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ انگریز پشاور کے قریب مورچہ زن تھے اور پانی افغانستان کے راستے آتا۔ انہیں خوف تھا مولانا سندھی پانی بند کردیں گے تو انہوں نے پانی کے تالاب بنائے۔ مگر مولانا سندھی نے کہا ہم جنگ لڑیں کے لیکن پانی سب کے لیے ہے ہم اسے بند نہیں کرتے۔ اور واقعی پانی بند نہیں کیا اور دریا میں بہتا رہا۔
جب میاں ظہیرالحق کے نانا مولانا سندھی نے ٹانگہ لیا اور انہیں سٹیشن چھوڑگئے تو اپنے نواسے کو اطلاع دی کہ میں فلان آدمی کی کھوٹی جارہاہوں۔ جب کپتان اور جاسوس سٹیشن آئے اور اِدھر اُدھر دوڑ رتے رہے کہ سندھی کہاں گیا؟ ٹرین کی روانگی کا وقت بھی پہنچا تھا، سارن بج رہاتھا مگر گاڑی چل نہیں رہی تھی۔ افسروں نے میاں ظہیرالحق سے پوچھا سندھی کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا وہ فلان جگہ چلے گئے ہیں۔
 ان بزرگوں نے نظام کے حوالے سے کام کیا۔حضرت لاہوری کے شاگرد مولانا شیرعلی شاہ نے ’زبدة التفاسیر‘ کے نام سے ایک چھوٹی تفسیر لکھی ہے۔ اس میں لکھاہے کہ حضرت لاہوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کی جو مکی سورتیں ہیں وہ توحیدی حصے کے ہیں وہ حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ پڑھاتے ہیں۔ پھر خط لکھتے ہیں باقی مدنی سورتیں جو نظام کے حوالے سے ہیں وہ آپ پڑھائیں۔ مولانا حسین علی رحمہ اللہ حضرت مولانا سندھی سمیت دیگر علماءکو اپنے اکابر سمجھتے تھے چونکہ سارے حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی رحمہمااللہ کے شاگرد تھے ۔اور مولانا حسین علی رحمہ اللہ مولانا مظہر نانوتوی کے شاگرد تھے جو ان سب کے استاذ الاستاذ تھے۔ یہ دونوں ساتھ چل رہے تھے۔ لیکن حضرت لاہوری کی شرائط پڑھانے کے لیے سخت تھیں؛ پندرہ شعبان کو شروع فرماتے اور عیدالاضحی پر ختم فرماتے تھے۔ یہ لمبا زمانہ طالب علم نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ شرط تھی جو جلالین پڑھائے وہ ان کے دورہ تفسیر پڑھ سکتاہے ۔ لہذا پچاس ساٹھ آدمی ان کے پاس پڑھتے تھے جو مولوی تھے۔ نظام سمجھنا مشکل ہے لیکن توحید سمجھنا آسان ہے؛ ’ولقد یسرنا القرآن للذکر‘۔ تو مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے درس میں ہر شخص شرکت کرسکتا تھا۔ اگر ایک دن بھی کوئی جاتا تو پورے قرآن کا خلاصہ اسے سنادیتے۔ لہذا ان کے شاگردوں کا حلقہ وسیع ہوگیا۔ البتہ مولانا احمدعلی لاہوری کے شاگرد کم تھے اور وہ سیاسی تھے، لہذا آگے نہیں چل سکے۔ اسی لیے میں نے یہ دونوں طریقوں کو ایک ساتھ کردیا۔
میری نسبت مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ سے ہے؛ میرے چچا مولانا عبداللہ لغاری کے شاگردرشید تھےجو سانگھڑ (سندھ) میں رہتے تھے۔ اور وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے رفیق سفر تھے، افغانستان میں اور مشکلات کے وقت ان کے ساتھ تھے۔ حضرت سندھی رحمہ اللہ کے تفردات بھی ہیں لیکن میرے چچا میں تفردات نہیں تھے۔ بہرحال اس نظام کو سمجھتے تھے۔ میں نے فارسی سمیت دیگر ابتدائی کتابیں انہی سے پڑھی۔ وہ بچپن ہی سے ہمیں تیار کرتے تھے۔
حضرت الاستاذ مولانا عبدالغنی رحمہ اللہ نے پہلے حضرت لاہوری کے پاس قرآن پڑھا پھر شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے پاس گئے۔ فرماتے تھے جب وہ ’بستی مولویاں‘ میں تھے تو مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد مولانا حبیب اللہ نے مجھ سے کہا کہ ایک مرتبہ مولانا حسین علی کے پاس دورہ پڑھو۔ اس وقت ان کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئی تھیں اور ہم متنفر تھے۔ ہرسال وہ یہی کہتے اور میں جواب دیتا کہ میں نے حضرت لاہوری کے پاس پڑھاہے۔ اسی دوران ایک دفعہ میں نے مولانا حسین علی رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے مجھے پورے قرآن کا خلاصہ پڑھایا۔ نیند سے اٹھا تو سارا یاد تھا۔ پھر میں نے عزم کیا مولانا حسین علی کے پاس جاوں گا، مولانا حبیب اللہ سے کہا۔ انہوں نے کہا اب وہ فوت ہوگئے ہیں۔ تو انہوں نے مجھے مولانا غلام اللہ خان کے پاس بھیجا۔ مولانا جاجروی رحمہ اللہ کا سیاسی میدان نہیں تھا لیکن نکات دونوں کے لکھواتے ، نام نہیں لیتے مگر حضرت لاہوری رحمہ اللہ کے عاشق تھے۔ حضرت لاہوری کے شاگرد بھی تھے اور مرید بھی؛ پھر ان کی اجازت سے مولانا حماداللہ ہالیجوی کے مرید ہوئے۔ مولانا جاجروی رحمہ اللہ نے فرمایا، حضرت ہالیجوی کے مرید بننے کے بعد میں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ حضرت لاہوری کے سامنے قرآن کھلاہے اور وہ مجھے قرآن پڑھارہے ہیں اور ان کے کپڑے چاند سے زیادہ روشن ہیں۔ حضرت ہالیجوی سے اس کی تعبیر پوچھی، انہوں نے فرمایا جس پیر کا مرید ہوجائیں، پہلے شیخ کی نسبت باقی رہ جاتی ہے۔ حضرت لاہوری کی نسبت ہے۔
مجھے دونوں اکابر کی نسبت حاصل تھی، لیکن میں خصوصی طور پرتفسیر کے حوالے سے حضرت سندھی رحمہ اللہ کی نسبت لینا چاہتا تھا۔ حیدرآباد میں حضرت سندھی کے ایک شاگرد تھے مولانا غلام مصطفی کے نام سے جو حدیث میں حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ فلسفے کی جتنی کتابیں شاہ ولی اللہ کی ہیں، سب حضرت سندھی سے پڑھیں اور بہت ذہین آدمی تھے۔ میں نے اپنی تصنیف ’مفاتیح الابواب‘ لکھنے کے بعد ان کو بھیجی تو انہوں نے بہت دعائیں دیں اور فرمایا یہ وہ کام ہے جو ہم نہیں کرسکے۔ اس کو مکمل کرو۔ پھر میں ان کے پاس گیا اور انہوں نے مجھے تین چار اجازتیں دیں؛ نظام، حجة اللہ البالغہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کا فلسفہ ان میں شامل ہیں۔
 علمی حوالے سے مجھے ذوق تھا کہ میں چھوٹی کتابوں پر کام کروں تاکہ طالب علم ابتدائی کتب میں مضبوط ہو۔ اس لیے میں نے نحومیر کی شرح ’جہدقصیر‘ لکھی اور الحمدللہ اس کی بہت اشاعت ہوگئی جو اس کی مقبولیت کی نشانی ہے۔
مولانا صوفی عبدالحمید، مولانا سرفرازخان صفدر کے چھوٹے بھائی، درس قرآن دیتے تھے اور نظام وفلسفے کے بارے میں بتاتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ نظام کے حوالے سے بھی قرآن کی روشنی میں پڑھاوں۔ لیکن توحید کو بھی بہر حال نہیں چھوڑ سکتے۔ چنانچہ دورہ ترجمہ وتفسیر قرآن کے آغاز میں توحید اور خلافت کے بارے میں منتخب ابواب پڑھاتاہوں۔ جب پہلے بنیادی مسائل بحث کرکے سمجھایاجائے تو تفسیر میں آسانی ہوجاتی ہے۔ توحید پر بحث کے بعد حجة اللہ البالغہ کے منتخب ابواب پڑھاکر خلافت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پھر ترجمہ پڑھایاجاتاہے۔

سنی آن لائن: دورہ تفسیر کا جو طریقہ پاکستان میں رائج ہے، ایران میں وہ کس حد تک مفید ہے اور دارالعلوم زاہدان کو اس لحاظ سے آپ نے کیسے پایا؟
مولانا محمدیوسف: دارالعلوم زاہدان میں موجود نظم اور جماعت کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ دوسرے مدارس بھی اچھا کام کررہے ہیں جن کو پہلے میں نے دیکھا تھا۔ لیکن قرآن مجید کے حوالے سے کمزوری ہے۔ تخصص فی التفسیر سے تمام طلبا فائدہ نہیں اٹھاسکتے ہیں۔ پانچ دس آدمی ہوں گے جو مہارت پیدا کریں گے۔ ہمارے کسی طالب علم سے اگر کوئی پوچھ لے کہ مثلا سورہ لقمان کا خلاصہ کیاہے؟! تو وہ نہیں بتاسکتا۔ قرآن میں ’یُسر‘ بھی ہے اور ’دقت‘ بھی؛ یسر اور آسانی کے حوالے سے ہر طالب علم کو پورے قرآن کا خلاصہ جان لینا چاہیے۔ نظام کے حوالے سے مثلا ’رب العالمین‘ کا مطلب سمجھنا چاہیے؛ ’عالمین‘ جنات، فرشتے اور انسانوں کو شامل ہے جو آگے ’و فضلناکم علی العالمین‘ میں آیاہے۔ ’رب‘ تکوین اور تشریع دونوں میں رب ہے اور مربوب تشریع و تکوین دونوں میں تسلیم ہے۔ ہمیں تقنین یعنی قانون بنانے کا حکم نہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا حکم دیاگیاہے۔ یہ کسی فرد یا جماعت کی بات نہیں بلکہ تمام انسانوں اور عبد کے حوالے سے ہے۔ قرآن پاک سورت توبہ تک تشریع اور نظام و ’عبد‘سے متعلق ہے۔ جبکہ سورت یونس سے آخر تک تکوین اور ’رب‘ سے متعلق مباحث مذکور ہیں جو تیرہ سال تک مکی زندگی میں نازل ہوئے۔ سورہ بقرہ تمہید ہے اور ’یاایہاالناس‘ دعوت اسلام ہے۔’انی خالق بشرا‘ اور ’انی جاعل فی الارض خلیفة‘ یہ دعوت اسلام میں حیث الخلافة ہے۔ خلافت، استحکام خلافت اور اسلام و یہودیت کا تقابلی جائزہ اس سورت میں زیربحث آتے ہیں۔ استحکام خلافت کے لیے نظریہ صحیح رکھنا ضروری ہے، معیشت اور اقتصاد میں سود سے گریز ضروری ہے۔ بینکاری اور اقتصادی نظام صحیح رکھو۔ یہ مسائل بیان کرنے سے طالب علم ہر سورت کا مطلب ابتدا سے انتہا تک سمجھ لے گا۔ ایسے ہی پڑھ کر آگے چلنا اور صرف تفاسیر بتانا قرآن سے ظلم ہے۔ اصل ہے ہی قرآن پاک۔ دہلوی حضرات لمبی تفسیروں کے قائل نہیں تھے۔ جلالین میں یہ نکتہ وہ نکتہ بتائیں گے تو اصل متن ہی رہ جائے گا۔ شرح اصل اور متن تبع بن جائے گا۔ شاہ عبدالقادر کاترجمہ دیکھ لیں، کہیں کوئی فائدہ لکھاہواہے؛ صرف ترجمہ ہے۔ اگر آپ ترجمے اور اختصار پر زور دیں گے تو وہ قرآن ہوگا۔ لیکن اگر آپ نکات اور تشریحات پر جائیں گے تو قرآن آپ سے نکل جائے گا۔
اسی لیے میں اصحاب مدارس سے التجا کرتاہوں کہ طلبہ کو درجہ رابعہ سے تیار کریں تاکہ وہ پورے قرآن کا اور ہر سورت کا خلاصہ بیان کرسکیں۔ سورت کہف کا خلاصہ لے لیں؛ جنات غیب نہیں جانتے ہیں، انبیا اور اولیا غیب نہیں جانتے ہیں۔ علام الغیوب صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ باتیں ہرکوئی عام آدمی سمجھ سکتاہے۔ پھر کیوں قرآن کو ایک دقیق اور مشکل کتاب بنائیں؟ دقیق ہے لیکن فقہا کے لیے۔ ذکر اور توحید کے لحاظ سے آسان ہے۔ یہ رخ کروگے تو دنیا کو نظام دے سکے گو۔
ابھی پچھلے سال میں دارالعلوم دیوبند گیا تو مہمانخانہ میں آٹھ دس آدمی آکر کہنے لگے استاذجی ہم آپ کے شاگرد ہیں! ان میں ایک رحیم یارخان میں میرے پاس پڑھ چکاتھا، باقی سے میں نے پوچھا آپ کیسے میرے شاگرد ہوگئے؟ انہوں نے کہا ہم دارالعلوم مکی زاہدان میں سبق پڑھ چکے ہیں اور وہاں آپ کے شاگرد ہیں، تو بالواسطہ ہم آپ کے شاگرد ہیں۔ تو آپ کے شاگرد دارالعلوم دیوبند بیٹھے ہیں لیکن قرآن نہیں جانتے ہیں تو پھر؟ اس میں آپ باقاعدہ ترتیب دیں۔
ایک مولانا تھے اپنے مدرسے میں چھٹی کے وقت روزانہ قرآن کا درس دیتے تھے اور سال میں مکمل کرلیتے۔ لمبی تفسیریں نہیں کرتے تھے۔ تفسیر جلالین اور بیضاوی میں پڑھاتے تھے لیکن قرآن ہی کو درس میں پڑھاتے تھے۔ چلتے چلتے کہتے جس آیت کا مطلب درکار ہو پوچھ لیں۔ تو یہ کام ترتیب دینی ہوگی صرف شعبہ جات بنانے سے کام نہیں بنتا بلکہ اصول بنانے ہوں گے۔
سنی آن لائن: ہمارا آخری سوال ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے بارے میں ہے؛ اس کی قانونی حیثیت کیاہے اور کیا آپ اس کے رکن ہیں؟
مولانا محمدیوسف: میں اس کونسل کا سابق رکن ہوں، اب چھوڑدیاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان جب بنا تو اس وقت ایک اجلاس ہوا جس میں مولانا شبیراحمد عثمانی اور وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ اس وقت بانی پاکستان محمدعلی جناح بھی تھے۔ یہ آئین سازاسمبلی کا اجلاس یوم آزادی سے پہلے گیارہ اگست کو ہوا تھا ۔ تو بعد میں بات ہوئی کہ پاکستان میں جب پارلمانی نظام قائم ہوگا تو قانون کون بنائے گا؟ وہاں ہرقسم کا آدمی ہوگا۔ تو ایک علمی ادارہ قائم کرنے کی ضرورت پڑی جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قوانین مرتب کرکے اسمبلی کے حوالے کرے اور ان تجاویز کو ’سفارشات‘ کہاجائے گا۔ یہ ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے تشکیل ہوا جس کے کم ازکم آٹھ ارکان اور زیادہ سے زیادہ بیس ہوسکتے ہیں۔ ہر رکن کا علمی تجربہ کم ازکم پندرہ سال ہونا چاہیے۔ اس میں وکلا، ڈاکٹرز اور ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج بیٹھتے ہیں۔ پھر اسلامی مواد اور دفعات پر وہ بحث کرتے ہیں۔ پورا نظام اسلام مرتب کرکے یہ پیش کررہے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے علما رہے ہیں جیسا کہ مولانایوسف بنوری، مولانا شمس الحق افغانی اور مولانا ادریس لاہوروالے۔ اب بھی بعض بڑے علما اس میں شریک ہیں۔ درمیان میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو اس ادارے کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر وہ سنبھل جاتاہے۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے ؛ قومی اسمبلی میں ہماری پندرہ سیٹیں ہیں۔ اس رو سے ہمیں حق ہے اپنے عوام کو فائدہ پہنچائیں اور حکام کی بھی اصلاح کرسکیں۔ تو اس میں تین وزارتوں کا ہمیں حق بنتاہے۔ چنانچہ ہم نے دو وزارتوں کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل لے لیا جس کے چیئرمین جے یو آئی کا رکن ہے۔
مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے دستور ہے کہ جو چل رہاہے وہ عارضی ہے، قانون وہ ہوگا جو قرآن وسنت کی بالادستی سے بنے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات آئیں گے اور اسی کے مطابق قانون سازی ہوگی۔ یہ کام پانچ سال میں ہونا چاہیے تھا جو دو سال بعد اس پر بحث ہونی تھی اور سات سال کے بعد قانون وہی ہونا تھا۔ لیکن پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیاہے اور ابھی تک یہ کام نہیں ہونے دیا جارہاہے۔ ہماری یہی جدوجہد جاری ہے، نظام بدلنا نہیں ہے۔ نظام بناہوا ہے اس کو اسمبلی میں لاکر نافذ کرانا چاہیے۔ جمعیت علمائے اسلام کا مطالبہ یہی ہے اور وہ آئینی و قانونی مطالبہ ہے۔ ان کے اپنے قانون میں لکھاہے جو چل رہاہے وہ عارضی اور جو اصلی ہے وہ بنا پڑاہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل اہم ادارہ ہے۔ حکومت جب کسی مسئلے میں کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے یا ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کو تو وہ کونسل سے رجوع کرتے ہیں۔
آخر میں ایک لطیفہ سناتاہوں؛ ساٹھ لوگوں کے دستخط سے ایک ڈیٹا تیارہواتھا “تحفظ حقوق خاندان” کے نام سے یا اس جیسا کوئی نام ۔ اس میں ایک شق یہ تھی کہ اگرباپ بیٹے سے ناراض ہوا، بیٹا تھانہ جائے اور شکایت کرے تو باپ گرفتار ہوسکتاہے۔ ماں ناراض ہوئی بیٹی سے یا خاوند ناراض ہوا بیوی سے؛ مارا نہیں صرف ناراض ہوا تو یہ تھانہ جاسکتی ہیں اور انہیں گرفتار کرواسکتی ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور غیرملکی تعاون کے بغیر چل نہیں سکتا۔ غیرملکی اداروں نے پاکستانی حکام سے کہا ڈیٹا پر دستخط کرو پھر ہم تعاون کریںگے ورنہ نہیں۔ حکومت پریشان ہوگئی، دستخط نہیں کرسکتی تھی لوگوں کے دباو کی وجہ سے۔ سیٹیں ہماری تھوڑی ہی کیوں نہ ہوں مگر دباو ہمارا زیادہ ہوتاہے۔ انہوں نے بچنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رابطہ کیا اور مغربی اداروں سے کہا ہماری نظریاتی کونسل ہے، وہ جو کچھ کہے گی ہم اسی کے پابند ہیں۔ تو ہم نے ان کو بچایا تاکہ انہیں مدد ملے اور ملک چلائیں نیز غیرقانونی ڈیٹا پر عمل نہ ہوجائے۔ تو ہم نے ڈیٹا کو دو حصہ کیا؛ ایک حصہ وہ ہے جس پر اسلام کو اعتراض نہیں ہے اور وہ منظور ہے۔ دوسرا حصہ (قابل اعتراض حصہ) ابھی زیربحث ہے۔ تو جو زیربحث ہے کبھی بحث سے ختم نہیں ہونے دیاجائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے حکومت کے پاس مسئلہ آیا کہ جانور کو پہلے بے ہوش کیاجائے پھر ذبح کیاجائے۔ چونکہ ایسے ہی جانور کو ذبح کرنا جانور پر ظلم ہے۔ کئی ملکوں میں یہ چل رہاہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہ مسئلہ آیا تو حکام نے اسلامی نظریاتی کونسل سے رابطہ کیا۔ اس پر میں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ تحقیق میں لکھا کہ انہوں نے بے ہوش کرنے کے پانچ طریقے بتائے ہیں۔ میں نے جرمنی کے دو ڈاکٹروں سے بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کیا اور ان کی رائے لی۔ تو انہوں نے بھی تائید کرلی کہ جانور ذبح کرنے کا سب سے سہل اور آسان طریقہ اسلامی ذبح ہے۔ مقالے کے ساتھ ان کی رائے میں نے الصاق کیا۔ وجہ یہ لکھی تھی کہ جب گردن میں چار رگیں کٹتی ہیں تو دماغ سے باقی بدن کا تعلق ٹوٹ جاتاہے۔ ڈاکٹروں سے پوچھیں کہ آپ آپریشن کرتے ہیں ٹیکہ لگاتے ہیں بے ہوش کرتے ہیں تو درد محسوس نہیں ہوتا۔ درد پہلے دماغ محسوس کرتاہے اور وہ کنکشن دماغ سے نہیں کٹتا؛ یعنی بے ہوش کرنے کے باوجود دماغ کا تعلق بدن سے باقی رہتاہے۔ مگر رگیں کاٹنے سے دماغ کا تعلق بدن سے کٹ جاتاہے۔ جرمن ڈاکٹروں نے لکھاتھا کہ جانور کو شرعی ذبح کی صورت میں کوئی درد نہیں ہوتا اور ذبح کے بعد تڑپنے کی وجہ درد نہیں ہوتا، بلکہ مغز میں حرام خون ہوتاہے جب وہ خون جدا ہوتاہے تو اس کے بدن میں حرکت اور لرزہ آتاہے۔ اس کانپنے کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ خراب خون اس کے جسم سے نکل جاتاہے۔ پھر قرآن وسنت کی روشنی میں مَیں نے ثابت کردیا کہ بے ہوش کرنا مزید اذیت دینا ہے اور سب سے آسان طریقہ شرعی ذبح ہے۔

سنی آن لائن: حضرت الاستاذ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔