- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمہ اللہ

محترم فاضل سلیمان بن ابی الحسن حسینی زیدی دسنوی بہاری فنون ادبیہ کے نامور علماء میں سے ایک تھے اور پورے ہندوستان کے مؤلفین اور نادر فضلاء میں سے تھے۔

آپ ۳۲؍صفر ۱۳۰۲ھ میں دسنہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے (یہ لفظ دسنی دال کو زیر، دال اور سین دونوں بغیر نقطہ کے ہیں، جو کہ صوبہ بہار کے علاقہ میں ایک دیہات ہے،) آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی شیخ ابوالحبیب نقشبندی سے حاصل کی۔

تعلیم و تعلم
سنہ ۱۳۱۶ھ میں پھلواری تشریف لے گئے، ایک برس وہاں رہے، کچھ درسی کتابیں شیخ جلیل محی الدین مجیبی پھلواروی سے پڑھیں۔ پھر شہر دربھنگہ کے مدرسہ امدادیہ کا سفر کیا اور وہاں ایک سال ٹہر کر کچھ معروف کتابیں پڑھیں۔ پھر لکھنو شہر کا سفر کیا اور سنہ ۱۳۱۸ھ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے منسلک ہوکر پانچ سال تک وہاں رہے اور آخری کتابیں وہیں پڑھ کر سنہ ۱۳۲۴ھ میں وہاں سے سند فراغت حاصل کی۔
اس دارالعلوم میں ان مشہور چند اساتذہ کرام سے کتابیں پڑھیں: (۱) مفتی عبدالطیف سنبھلی، (۲) سیدعلی زینبی، (۳) مولوی شبلی بن محمدعلی جیراجپوری، (۴) محترم فاضل حفیظ اللہ بندوی، (۵) علامہ فاروق بن علی عباسی چریاکوٹی، اور کچھ ادبی کتاب کے مؤلف (مجھ) سے اور مستقل ادب کی کتاب علامہ شبلی بن حبیب اللہ بندولی سے، ویسے ان سے عام استفادہ بھی کیا اور ان کے ساتھ لگ کر علم حاصل کیا۔

آپ پرچہ ’الندوۃ‘ کے نائب مدیر کی حیثیت سے سنہ ۱۳۲۴ھ سے ۱۳۳۰ھ کے درمیان تین مرتبہ مقرر ہوئے۔ آپ نے اپنے علمی مقالوں میں بے حساب اور بے پرواہ ہوکر گفتگو فرمائی جو آپ کے مستقبل میں مضمون نویسی پر فائق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بالآخر سنہ ۱۳۲۵ھ میں دارالعلوم میں ایک استاد کی حیثیت سے مقرر کرلئے گئے۔ سنہ ۱۳۳۰ھ میں مولانا ابوالکلام اپنے ساتھ آپ کو شہر کلکتہ لے گئے اور اپنے مشہور رسالہ ’الہلال‘ کے نکالنے میں آپ کو اپنا شریک کرلیا جس کی وجہ سے وہاں ایک سال تک رہے۔ سنہ ۱۳۳۱ھ میں مرکزی مدرسہ پونا میں جو بمبئی کی یونیورسٹی کے ماتحت ہے، اس میں مشرقی علوم کے لئے استاد مقرر کرلئے گئے اور اس میں تین سال تک فارسی زبان کے آداب کی تعلیم دیتے رہے جس میں ثقہ اساتذہ اور طلبہ شرکت کرتے تھے۔

نظامت دارالمصنفین
آخر میں آپ کے استاذ علامہ شبلی بن حبیب اللہ النعمانی نے آپ کو اپنے پاس اس وقت بلالیا جبکہ آپ کو اپنی وفات قریب نظر آئی اور موت کے قریب ہونے کا احساس پیدا ہوگیا اور اپنی کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جس کو آپ شروع کرچکے تھے مکمل کرنے کی ذمہ داری اور دارالمصنفین کی نظامت بھی آپ کے سپرد کی (جس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی)۔ بالآخر آپ کے استاد محترم نے اس کے بعد ہی انتقال فرمایا اور جس ادارہ کی بنیاد رکھی تھی اس کو مضبوط کرنے کے لئے پورے طور پر تیار ہوگئے اور اس کام میں اپنے استاذ محترم کے جانشین ہوگئے اور دل و جان سے اسی میں لگ گئے؛ یہ بات سنہ ۱۳۳۲ھ میں ہوئی۔ آپ اپنے ماہوار پرچہ ’المعارف‘ کے مدیر اعلیٰ اور متولی بن گئے، اور کتاب سیرت النبویہ علیہ الصلوۃ والسلام کو پورا کر کے تالیف و تحقیق میں یکسو ہوگئے، ساتھ ہی تحریک الخلافت میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہے، اپنے دوسرے علمی مشاغل، ادبی ذوق اور جس کام کے لئے آپ کی طبعی خواہش تھی اس کو محفوظ رکھا۔

وفد الخلافۃ
چنانچہ تمام علماء کرام اور سیاست میں مشغول رہنے والوں کا پورا پورا ساتھ دیا اور وفد ’’الخلافۃ‘‘ کے رکن بھی چن لئے گئے جس کے لئے سنہ ۱۳۳۸ھ میں برطانیہ کے دارالخلافۃ الجزائر میں جانے کے لئے آپ کو بھی نامزد کیا گیا تھا، تا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے خلافت عثمانیہ کو قائم کرنے کے لئے ارکان دولت کو متوجہ کرسکیں اور آپ کے ساتھی محمدعلی رامپوری، سید حسین بہاری اور دوسروں کو بھی ساتھ رکھا گیا۔ چنانچہ آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے ارکان دولت کا مقابلہ کیا اور یورپ والوں کی قیادت کی، عالم اسلامی کی منتخب لوگوں کے ساتھ رہے۔ اسی بنا پر لندن، پیرس، قاہرہ اور کا دورہ کیا۔ اور وفد خلافت کی سنہ ۱۳۴۲ھ میں اپنے وفد کو لے کر حجاز تشریف لے گئے تا کہ بادشاہ عبدالعزیز اور شریف حسین کے درمیان مصالحت کرائی جائے۔

شاہ افغانستان کی طرف سے دعوت
سنہ ۱۳۴۴ھ میں ملک عبدالعزیز نے عالم اسلامی کا ایک جلسہ بلایا اور تمام علماء مسلمین اور بڑے لوگوں کو جمع کیا تا کہ تمام شہروں کا اسے بڑا مقرر کر سکیں۔ تمام مسلمانوں نے مجموعی طور پر ایک وفد بھیجنا طے کیا اور مولانا کو اس جماعت کا رئیس منتخب کیا، جب کبھی بھی کوئی جلسہ مقرر ہوا اس کے لئے موصوف کو نائب رئیس بنادیا۔ بادشاہ نادرخان نے جو کابل شہر کے بادشاہ تھے، سنہ ۱۳۵۲ھ ماہ رجب میں آپ کو اپنے پاس بلایا تا کہ آپ کے تجربوں اور تعلیمی شہروں کی سیاسی تعلیم میں جو کچھ حاصل کیا ہے اس سے استفادہ کریں اور افغانستان میں لوگوں کے حالات جاننے کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں۔ چناچنہ آپ کے ساتھ ڈاکٹر محمد اقبال اور سید راس مسعود نے آپ کا ساتھ دیا اور کابل و غزنین کی ان حضرات نے زیارت کی۔ وہاں کے بادشاہ نے بھی ان حضرات کی بڑی تعظیم اور آؤ بگھت کی اور تمام شہر والوں نے ان کا زبردست استقبال کیا۔
علی گڑھ شہر کی اسلامی یونیورسٹی نے اعزازی طور پر آپ کو ۶؍صفر ۱۳۶۲ھ میں ادب میں ڈاکٹری کی سند عطا فرمائی، ان کے علمی کارناموں کے اعتراف میں اور اس وجہ سے کہ تمام علوم و آداب میں آپ کا مقام اونچا تھا۔

خلعت و طریقت
دنیا سے تعلقات ختم کرلینے کے بعد آپ علم اور تحقیق علم اور اس میں شہرت پالینے کے باوجود تمام لوگوں میں اپنے نفس کو مکمل کرلینے میں جوان مردی اور درجہ احسان پالینے کے بعد اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ کوئی شخص ایسا ہو جو نفس کی باریکیوں میں آپ کی رہبری کرسکے۔ اس مقصد کے لئے اخلاص اور تحقیق کے ساتھ تلاش میں لگے رہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اپنی توفیق کے ساتھ ان کی مناسبت علمیہ کو دیکھتے ہوئے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی طرف پہنچا دیا اور ماہ رجب سنہ ۱۳۵۷ھ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ انہوں نے آپ کے بردبار ہونے، کلی طور پر آپ پر اعتماد کرنے، خود کو آپ کے حوالہ کردینے اور فرمان بردار ہوجانے پر یقین کرلیا۔ آپ نے تھوڑی مدت میں اپنے شیخ کے پاس بڑا مرتبہ پا لیا، اس لیے شیخ نے آپ کو پوری اجازت بیعت دی اور ۱۰ شوال ۱۳۶۱ھ میں آپ کو اپنا خلیفہ بنالیا۔

ریاست بھول پال آمد
پھر نواب حمیداللہ خان، والی بھوپال نے آپ کو اپنے پاس بلانے کی پیش کش کی تا کہ اپنی حکومت میں آپ کو قاضیوں کا سردار اور جامعہ احمدیہ کے رئیس اور ریاست بھوپال میں تمام دینی معاملات اور دینی تعلیم کی خدمت آپ سے ہی لی جائے۔ چنانچہ آپ نے ان تمام باتوں کو اس خیال سے قبول فرمالیا کہ دارالمصنفین کی خدمت سے کسی وجہ سے آپ کا دل کچھ دنوں کے لئے بے زار ہوگیا تھا۔ بالآخر ماہ رجب ۱۳۶۵ھ میں آپ نے ریاست بھوپال جانے کا ارادہ کرلیا اور وہاں تین برس تک اقامت فرمائی۔ اس عرصہ میں کتابوں کے درس دینے، لوگوں کو فائدے پہنچانے اور عام مسلمانوں کو نصیحت کرنے میں مشغول رہے۔
سنہ ۱۳۶۸ھ میں اپنا آخری حج ادا فرمایا۔ پھر آپ نے ریاست بھوپال میں اپنے کو لغو قرار دیا اور حکومت ہند میں آپ نے سکونت اختیار کرلی۔ پھر حالات زمانہ نے پلٹا کھایا اور سنہ ۱۳۶۹ھ میں اپنے وظیفہ کو قلیل سمجھا، اس کے بعد آپ ارکان حکومت پاکستان کے حصہ دار ہوگئے اور ان لوگوں نے آپ کی قیادت قبول فرمائی جو آپ کے علمی مرتبہ کو اور علوم دینیہ میں آپ کے مرتبہ کو پہنچانتے تھے اور پاکستان میں مستقلاً رہنے کی فرمائش کرتے تھے تا کہ اس نئی حکومت کے لئے مشترکہ طور پر آئین بناسکیں۔

پاکستان آمد
چنانچہ ماہ شعبان سنہ ۱۳۶۹ھ میں آپ نے ان لوگوں کی دعوت قبول فرمائی اور پاکستان میں مستقلا اقامت طے کرکے شعبہ تعلیمات اسلامیہ کی ریاست آپ کے لئے پسند کی گئی۔ مگر آپ کی جماعت کے لئے یہ بات قابل برداشت نہیں ہوسکی کہ یہ اپنے ارادے کو مکمل کرسکیں۔ اس لئے تھوڑی ہی مدت بعد اپنے ارادے سے باز آگئے اور سید سلیمان ندوی نے اپنے اندر یہ بات نہیں پائی کہ جو بہادری اور مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دینی اور علمی تقدیرات تھیں ان کو پورا کرسکیں۔ اس لئے بعض علماء حاسدین نے آپ کا مقابلہ کیا اور حکومت کے لوگ آپ کی قیمت اور مرتبہ کی توہین کے درپے ہوگئے، چنانچہ آپ نے اپنی بقیہ زندگی پاکیزگی اور قناعت اور خاص اپنے نفس کی اشغال اور مطالعہ کتب اور علمی بحثوں میں لگے رہے۔

سنہ ۱۳۷۱ھ میں پہلی جماعت کے کچھ لوگوں نے آپ کو خط و کتابت میں اپنا نمائندہ بنایا اور دوسری بڑی علمی جماعت نے آپ کو اپنا سردار بنایا اور علمی باتیں لکھیں اور حکومت کے بڑے بڑے علماء کے سامنے بتایا جو ان کے اندر بھلائیاں تھیں اور ملک کی بقاء اور مستقبل کے سلسلہ میں جو اچھائیاں تھیں سب بتائیں اور ذکر و عبادت اور تربیت عوام اور لوگوں کے فائدے پہنچانے میں مشغول رہے، یہاں تک کہ ۱۳۷۳ھ کے ماہ ربیع الآخر کی پہلی تاریخ میں آپ کی وفات ہوئی۔
آپ کے جنازے میں بڑے بڑے علماء کرام، حکومت اسلامیہ اور حکومت عربیہ کے سفراء شریک ہوئے اور (کراچی میں) شیخ شبیر احمد عثمانیؒ کی قبر کے پڑوس میں آپ دفن کئے گئے۔

حلیہ شریف
آپ اگرچہ میانہ قد مگر کمی مائل تھے، چہرہ چمکدار، طمانیت اور وقار کی علامتیں آپ پر ظاہر تھیں اور آپ کا پر وقار اور باعقل ہونا ظاہر ہوتا تھا۔ آپ کی داڑھی گھنی اور گول پیشانی چمکدار اور وسیع تھی، آپ کے رخسار بھرے ہوئے، آنکھیں بڑی، جس سے آپ کی ذہانت اور حیاء واضح ہوتی تھی، آپ کی دونوں بھنویں باریک اور لانبی تھیں۔ دونوں ہونٹ باریک تھے، رنگ بہت ہی صاف تھا مگر سرخی اور سفیدی کے درمیان۔

رہن سہن
ہمیشہ آپ کے لباس صاف ستھرے رہتے۔ لوگ آپ کو کبھی بھی گندے اور پتلے لباس میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حالت سفر اور مجمعوں میں ہمیشہ پگڑی ہوتی تھی، کم گفتگو اور بہت زیادہ خاموش رہنے والے تھے۔ ہمیشہ ہی کسی فکر میں ڈوبے رہتے، علم ان کے خون اور گوشت میں رچ بس چکا تھا اس لئے صرف علم ہی کی فکر میں رہتے اور ہمیشہ ہی اسی کے بارے میں گفتگو فرماتے۔ مطالعہ اور بحث میں ہمیشہ ہی مشغول رہتے، علم اور دین کے بارے میں ہمیشہ ہی علماء کرام سے مذاکرہ میں مشغول رہتے، طبیعت کے بالکل صاف تھے، تالیف و تصنیف میں اپنے قلم کو بہت تیز چلاتے، آپ کی طبیعت میں اور عام طریقہ سے عام مجمعوں میں خطابت اور زودبیانی نہیں تھی، نہ اپنے ذوق و طبیعت کے لحاظ سے سیاست میں زور لگانے والے تھے، اس لئے ان کاموں میں از خود اپنے تورم آگے نہ بڑھاتے مگر تکلیف کے ساتھ یا لوگوں کے مجبور کردینے پر۔

راسخ العلم و الادب
علوم عربی اور ادب میں بہت ہی راسخ اور اونچے مقام کے مالک تھے، علوم قرآن اور توحید و کلام میں باریک نظریں رکھتے، آپکی اطلاع وسیع تھی، علم تاریخ کی مباحث میں مہارت تھی۔ اسی طرح علم الاجتماع اور شہریت میں بھی اچھے ماہر تھے، زبان اردو کے ادبی طریقہ میں اچھے لکھنے والے تھے اور زبان عربی میں بھی تیز تیز قلم چلانے والے تھے۔ ان دونوں زبانوں یعنی اردو عربی کے اچھے شاعر بھی تھے، بہت ہی عمدہ کہتے اور لکھتے تھے۔ بڑے ہی بردبار صبر کرنے والے اور اپنے نفس پر قہر کرنے والے تھے۔ اپنے دشمنوں اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ بہت ہی چشم پوشی کرتے، اپنے ذاتی معاملہ میں بہت ہی کم بدلہ لینے والے تھے۔ اتنا برداشت کرلیتے جو ان کے لئے تکلیف دہ اور شاق گذرتا۔

تالیفات
اس زمانہ کے بڑے مؤلفین میں سے تھے اور لکھنے اور کثرت سے تالیفات کرنے والے تھے۔ ساتھ ہی علم سے مالامال اور بحث کی باریکی بیان کرنے والے اور مختلف مقاصد کے مالک تھے۔ اپنے استاد شبلی نعمانی کی جو سیرت النبیﷺ پانچ موٹی جلدوں میں تھی اس کا تکملہ لکھنے والے آپ ہی تھے جو دائرۃالمعارف مین سیرۃ النبیﷺ اور عقیدہ اسلامیہ میں معتبر سمجھتی جاتی تھی۔ آپ کی جو بہترین کتاب سیرت النبویہ میں تھی ان میں ’خطبات مدراس‘ بہت ہی مشہور ہیں اور اس کے انگریزی اور عربی میں بھی نسخے ہیں۔ اسی طرح ’ارض القرآن‘ نام کی کتاب دو جلدوں میں ہے جس میں قرآن پاک کے جغرافیائی تعلقات کو دو جلدوں میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح سیرۃ عائشہؓ، سیرۃ مالکؒ اور خیام اور نقوش سلیمانی جو لغوی اور ادبی بحثوں میں ہے۔ اسی طرح حیات شبلی جو آپ کے استاذ کی سیرت میں ہے اور عرب و ہند کے تعلقات۔ اسی طرح عربوں کی جہاز رانی کے علاوہ دوسری کتابیں، دوسرے بہت سے مقالے جو اس سے متعلق ہوسکتے ہیں۔

غروب آفتاب پر اشعار
آپ کے بہترین اور عمدہ اشعار میں سے چند یہ ہیں جن میں آفتاب کے ڈوبتے وقت کو بیان کیا گیا ہے:
(۱) اے آفتاب! جس وقت اس کا شفق افق میں پھیلا ہوا ہے۔ گویا کہ ایسی شراب ہے جو پرانی ہے اور شام کو پلانے کی چیز کے ساتھ ملائی ہوئی ہے۔
(۲) اتنی پرانی شراب ہے کہ وہ اپنی پرانی ہونے کی وجہ سے ہمالیہ پہاڑ کا اونچا حصہ ہے۔ وہ شراب ملائی گئی ہے ایسے بادل کے پانی سے جو بہہ رہاہو زور دار بارش سے۔
(۳) ہماری طبیعت اس بات سے رکتی ہے کہ لوگوں کو اس کے پیالے پلائے۔ صد افسوس ہے اس شخص کے لئے جس نے ایسی شراب چکھی تک نہ ہو۔
(۴) پیتے ہیں دل اس کے بچے ہوئے کو جب کہ تم دیکھو۔ آسمان کی طرف آنکھوں کے پیالوں سے۔
(۵) پرندے اس کو اس وقت پیتے ہیں جبکہ وہ شام کو واپس لوٹ رہے ہوں۔ اپنے گھونسلوں کی طرف اپنے حلقوں سے سیٹی بجاتے ہوئے۔
(۶) اور ہواناک کے باغ میں چلنے والی ہے۔ اور اس کی خوشی جسم کے اندر پھیلنے والی ہے۔
(۷) قریب ہوجاؤ اس شرابی قہوہ کے جو افق میں پھیلنے والی ہو۔ اور پیالے اس کو چکردے رہے ہوں جبکہ آفتاب شفق میں نہ ہو۔
(۸) بلکہ وہ تو (لال ٹہ ٹہ) سرخ رنگ کا برقع ہے جس میں نقش ہے۔ اور سورج حبیب کا چہرہ ہے جسے وہ اپنے پردہ سے چھپارہا ہے۔
(۹) بلکہ یہ سورج تو سناروں کے لئے کٹھالی (سونے کے کام آنے والی مٹی کی پیالی) ہے۔ جس کا موتی پگھل چکا ہے اور راستہ ہی میں بہہ چکا ہے۔
(۱۰) بلکہ اس سورج نے تو ہماری عمروں میں قتل (کم) کردیا ہے۔ ایک دن، اسی لئے گردن سے سرخ خون بہہ رہاہے۔
(۱۱) اسی لئے یہ لال شفق اس کے خون سے ہے۔ اور اس کی قبر اس کی رات ہے جو اندھیرے سے چھپی ہوئی ہے۔

رضاء بالقضاء
آپ کے اشعار میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن میں رضاء بالقضاء کی نصیحت فرماتے ہیں:
(۱) اے لوگو! تم جب تک بھی زمین پر ہو (زندہ ہو)۔ تم اپنے وعدہ کو پورا کرنے یا توڑنے سے چھوٹ نہیں سکتے ہو۔
(۲) اس لئے کہ رحمٰن (خدا) نے تمہارے بارے میں جو مقدر کر رکھا ہے اسے تم پانے والے ہو۔ تکلیف ہو یا آرام ہو سب ہوکر رہنے والا ہے۔

اور کچھ اشعار وہ بھی ہیں جن میں مصائب پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے:
(۱) تم اپنی چلی جانے والے خوشی (ختم ہونے والی) پر نہ پھولو کہ۔ اور انسانی جان پر کسی قسم کی تکلیف ہونے سے فکر نہ کرو۔
(۲) اس لئے کہ انسان اپنا نوالہ کھالینے کے بعد۔ خواہ وہ ٹھنڈا میٹھا ہو یا کڑوا اور گدلا ہو سب برابر ہیں۔

اور کچھ اشعار میں موت کے معنی ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱) اب تک زندگی ایک ملی ہوئی کتاب ہے۔ اور تمہارا ہر دن ان دنوں میں سے ایک ورق ہے۔
(۲) اس لئے موت کے معنی ان اوراق کو منتشر کردینا ہے۔ ہوا کہ جس سے یہ اوراق منتشر ہوجائیں۔

موت کے ڈر سے انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱) آخر تم اپنی موت سے کب تک ڈرتے رہوگے کہ وہ تو آنے والی ہے۔ اور تمہارے نفس نے جو کچھ جمع کر رکھا ہے وہ سب مرنے کے بعد ختم ہونے والا ہے۔
(۲) یقیناً زندگی کپڑے کی مانند ہے اور موت میل کی مانند ہے۔ اس لئے تم اپنے کپڑوں کو میل سے کب تک بچاؤگے۔

نزھۃ الخواطر (اردو) ج۸