- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے خلاف اعلان جنگ

جمہوریہ وسطی افریقہ کی صدر کیتھرین سانبا پانزا کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے گروہوں سے جنگ کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی بالاکا نامی ملیشیا ’اپنے اصل مقصد کی روح‘ کھو چکے ہیں اور ایسی ملیشیا بن گئے ہیں ’جو قاتل ہے، جو لوٹ مار کر رہی ہے اور جو پر تشدد ہے۔‘
اس ملیشیا کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جانب سے گذشتہ برس کیے جانے والے قتلِ عام کا بدلہ لے رہی ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ میں جاری تشدد کی وجہ سے لاکھوں مسلمان ہمسایہ ریاستوں کیمرون، چاڈ کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں جبکہ کئی جمہوریہ کے اندر ہی خمیہ بستیوں میں مقیم ہیں۔
یمنٹسی انٹرنیشنل نے اس صورتحال کو ’نسلی صفایا‘ قرار دیا ہے۔
تاہم جمہوریہ کی صدر سانبا پانزا نے اس سے انکار کرتے ہوئے اس تشدد کو ملک میں سکیورٹی کی خراب حالت قرار دیا ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ کی صدر کیتھرین سانبا پانزا نے خطاب میں کہا کہ ’ وہ سمجھتے ہیں کہ میں عورت ہوں اس لیے کمزور ہوں۔ لیکن اب اینٹی بلاکا جو لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں اب خود شکار ہوں گے۔‘
جمہوریہ سے نقل مکانی کرنے والے بیشتر مسلمان خوردنی اشیا کا کاروبار کرنے والے تاجر تھے۔ ان کے جانے کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی اور انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بنگوئی میں خالی بازار دھول سے اٹا ہے۔
واحد خوراک میں مقامی طور پر پالے ہوئے سوروں کا گوشت میسر ہے۔
مسلمانوں کا تاریخی انخلا
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلح حملوں کے نتیجے میں جمہوریہ سے ’مسلمانوں کا تاریخی انخلا‘ دیکھنے میں آیا ہے۔
امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ تھوک کا کام کرنے والے اور چھوٹے دکانداروں کی بڑی تعداد مسلمان ہے۔
اقوام متحدہ کے خوراک کے پروگرام نے جمہوریہ وسطی افریقہ میں ہوائی جہازوں کے ذریعے خوراک پہنچانا شروع کر دی ہے۔ ادارے کے ترجمان الیکسِز مسکیاریلی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فوج کی نگرانی کے بغیر سڑک کے راستے خوراک کی ترسیل بہت خطرناک ہو چکی ہے ، جس کی وجہ سے ادارے کو کیمرون سے طیاروں کے ذریعے خوراک لےجانا پڑ رہی ہے جو کہ خاصا مہنگا طریقہ ہے۔
ملک میں خوارک کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ یہاں کی 90 فیصد آبادی دن میں صرف ایک کھانا کھا رہی ہے۔دارالحکومت بانگوئی سے مسلمان تاجروں کے مجبوراّ چلے جانے کے بعد اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ طیاروں کے ذریعے لائی جانے والی خوراک کا کچھ حصہ ایئرپورٹ پر قائم کیمپ میں تقسیم کر دیا جائے گا جہاں تقریباً ایک لاکھ افرار پناہ لیے ہوئے ہیں۔
مسٹر مسکیاریلی نے مذید بتایا کہ یہ خوراک ملک بھر میں سکولوں، گرجاگھروں اور مسجدوں کو بھی پہنچائی جائے گی جہاں پُرتشدد کاروائیوں سے جان بچا کر لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔
منگل کو اقوام متحدہ کے سربراہ بان گی مون نے خبردار کیا کہ ملک کو مسلمان اور عیسائی علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ :’مسلمانوں اور عیسائیوں، دونوں کو قتل کیا گیا ہے اور انھیں اپنے گھروں سے بھاگ جانے پر مجبور کیا گیا ہے۔
فرقہ وارانہ بربریت ملک کی آبادی کی تقسیم کو تبدیل کر رہی ہے۔ مستقبل میں جمہوریہ وسطی افریقہ کی (مسلمان اور عیسائی حصوں میں ) باقاعدہ تقسیم کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ سال مسلمان اکثریت والی باغی طاقتوں نے ملک میں طاقت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی اور ان پر الزام ہے کہ اس دوران انھوں نے عیسائیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں اور اُن کے گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے۔ اس کے بعد سے مسلمانوں پر حملوں میں شدت آئی ہے۔
اگرچہ سلیکا باغیوں کے سربراہ نے جنوری میں استعفیٰ دے دیا، لیکن صورتحال میں تناؤ کم کرنے کی بجائے عیسائی گروہوں نے مسلمانوں سے بدلے لینا شروع کر دیے اور انھیں دارالحکومت اور دوسرے شہروں سے بھاگنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے بھیجے ہوئے امن کے ذمہ دار افراد بعض جگہ خاموش تماشائی بنے رہے اور انھوں نے مسلح گروہوں کو طاقت کے خلا کو پُر کرنے کا موقع دیا جو سلیکا گروہوں کے چلے جانے سے پیدا ہوا تھا۔
تنظیم کی ایک سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ اس نازک صورتحال کا تقاضا ہے کہ:’اس مسئلے کا فوری سدِ باب کیا جائے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ امن کے ذمہ داران جمہوریہ وسطی افریقہ میں عام شہریوں کا تحفظ کریں، جن علاقوں میں زیادہ خطرہ ہے وہاں فوجی بھیجیں اور ایسے افراد کو روکیں جو لوگوں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘

بی بی سی اردو