- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

وسطی افریقی جمہوریہ: مذہبی فسادات میں درجنوں مسلمان ہلاک

وسطی افریقی جمہوریہ میں درجنوں مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ دارالحکومت بنگوئی میں مشتعل مسیحی ہجوم نے دو مسلمانوں کی لاشوں کو شہر کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے بعد انہیں ایک چوک میں رکھ کر آگ لگا دی ہے۔

خانہ جنگی کے حالات کا سامنا کرنے والے افریقی ملک وسطی افریقی جمہوریہ میں آج نئے عبوری صدر کا انتخاب کیا جائے گا جبکہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی تقسیم مزید گہری ہونے کے ساتھ ساتھ پرتشدد کارروائیاں مزید پھیلتی جا رہی ہیں۔ عرب ٹیلی وژن الجزیرہ کے مطابق فرانس کی اس سابقہ کالونی کے دارالحکومت بنگوئی میں تشدد کی ایک تازہ ترین کارروائی کے دوران مسیحیوں کے ایک ہجوم نے دو مسلمان مردوں کو قتل کرتے ہوئے ان کی لاشوں کو شہر کی سڑکوں پر پہلے گھسیٹا اور بعد ازاں انہیں ایک عوامی چوک میں رکھ کر آگ لگا دی گئی۔ مسیحی ہجوم کو شُبہ تھا کہ یہ دونوں مسلمان افراد تشدد کی ایک دوسری کارروائی میں ملوث رہے ہیں۔ اس ملک میں مارچ سے جاری فرقہ ورانہ فسادات میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔

48 گھنٹوں میں پچاس لاشیں
بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس نے کہا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں انہوں نے بنگوئی کے باہر پچاس افراد کی لاشوں کو دفن کیا ہے اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ امدادی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق ایک دوسرے واقعے میں جمعے کے روز چاقوں اور خنجروں سے مسلح مسیحیوں کے ایک مشتعل ہجوم نے لڑائی زدہ علاقے سے فرار ہونے والے مسلمانوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں کم ازکم 22 افراد مارے گئے، ہلاک ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے ایک ترجمان مائیک مِکسکر کا کہنا تھا، ’’ڈاکڑوں کے مطابق مسلمانوں کے قافلے کو نشانہ بنانے کا عمل انتہائی خوفناک تھا۔ مسلح افراد نے قافلے کو روکنے کے لیے پہلے راکٹ فائر کیا اور پھر ہینڈ گرنیڈز کا استعمال کیا، بعدازاں قافلے پر آتشیں ہتھیاروں اور چاقو، چھریوں سے حملہ کر دیا گیا۔‘‘
مائیک مِکسکر کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’ ہمارے ڈاکٹروں کے مطابق وہاں ہر طرف خون ہی خون تھا اور ایسے بہہ رہا تھا، جیسے پانی۔‘‘ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق مذہبی فسادات کی وجہ سے اس ملک میں موجود ہزاروں مسلمان تارکین وطن اپنے خاندانوں سمیت وہاں سے فرار ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی مساجد اور گرجا گھروں میں پناہ
سیو دی چلڈرن کے مطابق جمعے کے روز رونما ہونے والا واقعہ شمال مغرب میں واقع شہر بُوآر کے ایک مضافاتی علاقے میں پیش آیا۔ اس شہر کی آبادی تقریباﹰ 40 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ، جو مساجد اور گرجا گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے فرانسیسی اور دوسرے ملکوں کی افواج بھی وہاں موجود ہیں لیکن ان کی رسائی دور دراز کے دیہاتی علاقوں تک نہیں ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس ملک کے شہر بوئلی میں تقریباﹰ سات سو مسلمان ایک چرچ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ شہر دارالحکومت بنگوئی سے تقریباﹰ ایک سو کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

مسلمان اور مسیحی عسکریت پسندوں میں لڑائی
اس ملک میں مسیحی مسلح گروپ ’اینٹی بلاکا‘ اور مسلمان عسکری گروپ ’سیلیکا‘ ایک دوسرےکے خلاف برسرپیکار ہیں۔ سیلیکا گروپ مختلف مسلمان عسکری گروہوں کے اتحاد سے سن 2012ء میں وجود میں آیا تھا اور ابتدائی طور پر اس گروپ نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا تھا۔ ان دو مذہبی گروپوں کے مابین خونی لڑائی گزشتہ برس مارچ سے جاری ہے۔ مارچ میں سابق مسیحی صدر فرانسوا بوزيزےکی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور صدر میشل جتودیا اپنے حامی عسکری گروپ سیلیکا کی مدد سے اس ملک کے پہلے مسلمان صدر بن گئے تھے۔ جتودیا سیلیکا کے سربراہ بھی تھے۔ سابق صدر فرانسوا بوزيزے اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی زیادہ تر آبادی مسیحی ہے اور مسلمان اقلیت میں ہیں۔

ڈی ڈبلیو