- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

لیبیا: وزیراعظم علی زیدان ‘اغوا‘ کے بعد رہا ہوگئے

 لیبیا کے وزیرِاعظم علی زیدان کو حکومت کی حامی ملیشیا نے کئی گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے۔

انہیں جمعرات کو اس ہوٹل سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ مقیم تھے۔ 

جس ملیشیا کے ارکان نے انہیں حراست میں لیا تھا وہ معمر قذافی کی معزولی کے بعد قائم لیبیا کی

حکومت کی حامی رہی ہے۔ اس سے قبل گروہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے استغاثہ کی جانب سے وارنٹ کے اجرا کے بعد وزیرِاعظم کو گرفتار کیا ہے تاہم حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔

وزیرِاعظم علی زیدان کو وزراتِ داخلہ میں رکھا گیا اور وہاں کے اہلکار کے مطابق ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا گیا۔

لیبیا میں سنیچر اور امریکی کمانڈوز کی کارروائی میں القاعدہ کے رہنما انس اللبی کی گرفتاری کے بعد اشتعال پایا جاتا ہے۔

لیبیا کی حکومت کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ مسلح افراد نے انہیں دارالحکومت طرابلس کے ایک ہوٹل سے اغوا کیا گیا جہاں وہ مقیم تھے۔ ہوٹل میں موجود ایک خاتون کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ واقعے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

لیبیا کے وزیرِ اعظم علی زیدان نے منگل کو لیبیا میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک سے مدد طلب کی تھی۔

بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ لیبیا کو ہتھیاروں کے اڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیبیا کے وزیرے اعظم نے نیوز نائٹ پروگرام میں کہا تھا کہ ان کا ملک پورے خطے میں ہتھیار برآمد کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

معمر قذافی کے اقتدار کا تختہ الٹے کے بعد دو سال سے لیبیا کی حکومت ان مخالف قبائلی ملیشیا اور اسلامی عسکریت پسندوں کو قابو کرنے میں مشکلات کا شکار ہے جو ملک کے مختلف حصوں پر اختیار سنبھالے ہوئے ہیں۔

پیر کو لیبیا نے القاعدہ کے رہنما انس اللبی کی طرابلس میں گرفتاری کے حوالےسے امریکی سفیرسے سوالات کیے تھے۔

انس اللبی تنزانیہ اور کینیا میں 1998 میں امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلے میں مطلوب تھے۔ انہیں امریکی کمانڈوز نے سنیچر کی علی الصبح طرابلس میں ایک چھاپے کے بعد گرفتار کیا تھا۔

اپریل میں لیبیا کے وزیرِ اعظم نے ملک کے عوام سے کہا تھا کہ وہ ان لوگوں سے حکومت واپس لیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وزراتِ داخلہ اور قومی ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر پر حملوں کے موقعے پر بھی کہا تھا کہ یہ کارروائیاں علیحدگی پسند گروہوں کی ہیں۔

 

بی بی سی اردو