- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد

دَس سال پہلے سن 2003ء میں آج ہی کے دن عراق میں امریکی فوجی دستوں کی متنازعہ پیش قدمی شروع ہوئی تھی۔ تب اس حملےکا مقصد وہاں جمہوریت اور امن کا قیام بتایا گیا تھا لیکن آج کی صورتحال ان دعووں کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں عراق کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام عراقی شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز یکے بعد دیگرے عراق میں بیس دھماکے ہوئے، جن میں 56 افراد ہلاک جبکہ دو سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے اور 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4500 سے زائد تھی جبکہ مجموعی طور ان دس برسوں میں ایک لاکھ بارہ ہزار سے زائد عراقی شہری مارے جا چکے ہیں۔

امریکی خصوصی معائنہ کار سٹیوارٹ بووین کی پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی قبضے کے دوران عراق کی تعمیر نو پر 60 ارب ڈالر خرچ کیے گئے لیکن ان کے کوئی بھی قابل ذکر مثبت اثرات سامنے نہیں آئے۔

دریں اثناء جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2ملین بنتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2.7 ملین سے زائد عراقی آلودہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں سرطان اور خون کے کینسر جیسی موذی بیماریوں میں حیران کن اضافہ ہوا ہے جبکہ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورینیم کے تابکار عناصر بتائے جاتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے ایک بیان میں عراق میں مارے جانے والے تقریباً ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس جنگ کے دوران مارے جانے والے ایک لاکھ سے زائد عراقی شہریوں کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں کیا۔ واضح رہے کہ دس سال پہلے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے اقوام متحدہ کی حمایت کے بغیر ہی عراق پر حملہ کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو