- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مولانا عبدالحمید کا دورہ خاش

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بدھ چھبیس دسمبر دوہزار بارہ میں زاہدان سے ایک سو ستر کلومیٹر دور ضلع خاش کا دورہ کیا جہاں آپ نے مختلف مدارس و مساجد میں علمائے کرام اور عوام سے خطاب کیا۔

خاش جاتے ہوئے شہر کے قریب حضرت شیخ الاسلام نے ’اسماعیل آباد‘ میں مختصر قیام فرمایا جہاں آپ ممتاز دینی ادارہ ’دارالہدیٰ‘ میں علمائے کرام، عمائدین اور طلبہ سے خطاب کیا۔ اسماعیل آباد جلسے کے آغاز میں مولانا عبدالمجید مرادزہی نے حضرت شیخ الاسلام کی تشریف آوری پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی آمد کو علاقے کیلیے خیر وبرکت اور دینی ترقی کا باعث قرار دیا۔

اسماعیل آباد میں مولانا عبدالحمید کا بیان
اپنے خطاب کی ابتدا میں مہتمم دارالعلوم زاہدان نے جامعہ دارالہدیٰ کے سابق مہتممین مرحوم مولانا عبدالرحیم اور مولانا عبدالواحد مرادزہی رحمہمااللہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فضلاء کی دستاربندی اور حفاظ کرام کے اعزازمیں تقاریب کے انعقاد کو جامعہ ہذا کی سنت حسنہ قرار دیا جو بعد میں صوبے میں ان کی شہرت اور رواج ہوگیا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے سورت الفصلت کی آیت 33 کی تشریح کرتے ہوئے کہا: اسلام دین حق اور ابدی دین ہے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس عظیم نعمت سے نوازا ہے جس سے باقی لوگ محروم ہیں۔ دنیا اور اس پر موجود دنیوی نعمتیں فانی ہیں لیکن دین ایک ایسا سرمایہ ہے جو دنیا وآخرت میں انسان کو کام آتاہے۔ اسلام ہی کی برکت سے انسان کے دونوں جہاں آباد ہوں گے اور اسے کامیابی و عزت نصیب ہوتی ہے۔

غزوہ حنین کے بعد رونما ہونے والے واقعے کی تفصیل سے استدلال کرتے ہوئے انہوں نے کہا: انصار کو معلوم تھا کہ غنائم فانی چیزیں ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کیلیے باقی رہنے والے ہیں؛ اسی لیے انہوں نے غنائم کو چھوڑ کر اس بات پر رضامند ہوگئے کہ اللہ اور اس کے رسول برحقﷺ کو گھر لیجائیں۔ دین ایک وفاشعار ساتھی ہے جو دنیا کے علاوہ قبر اور روزحشر میں بھی کام آتاہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان اس باوفا نعمت عظمیٰ سے غافل ہے اور اس کی ساری زندگی پیسہ کمانے اور دولت اکٹھی کرنے میں گزرتی ہے۔ دین صرف چند فرائض کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا زندگی کے ہر شعبے کیلیے تعلیمات ہیں۔ اسلام کو محدود نہیں کیاجانا چاہیے۔

نشے کی مہلک بیماری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا نے منشیات کو معاشرے کیلیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا: نشے ہی کی وجہ سے بہت ساری خرابیاں معاشرے میں پھیل چکی ہیں۔ لہذا اس بیماری کی ریشہ کنی کیلیے معاشرے کے تمام طبقوں کو محنت کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سارے گناہ مثلا جھوٹ بولنا، رشوت ستانی، سودخوریِ، امانت میں خیانت اور دوسروں کے حقوق کی پامالی عام ہوچکے ہیں جو فسق و فجور شمار ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں جب کسی سوسائٹی میں گناہ عام ہوجائے تو اس کو سخت اور خطرناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوجائے گا کیسے مشہور قومیں بربادی سے دوچار ہوگئیں جنہوں نے اللہ کا حکم ماننے سے انکار کیاتھا۔ ان کے برعکس جن لوگوں نے اللہ کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو دنیا وآخرت کی سعادت و کامیابی انہیں نصیب ہوئی۔

خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ہماری بیٹیوں اور خواتین کی آئیڈیل صحابہ کرام کی خواتین و بیٹیاں ہیں جو بوقت سحر جاگ اٹھتیں اور اللہ کی عبادت کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ ہفتے میں ایک دن ان کیلیے خاص کیا جائے۔ اگر آج کے تمام مرد مسلمانوں کے ایمان کو اکٹھا کرکے صرف ایک صحابیہ کے ایمان سے موازنہ کیاجائے تو اس ایک صحابیہ کا ایمان زیادہ وزنی ہوگا۔ لہذا مسلم خواتین و بہنوں کو شرعی حجاب کی خیال داری کرنی چاہیے اور انہیں تلاوت قرآن و دیگر عبادات سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

جامعہ دارالہدی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا اسماعیلزہی نے برادرکشی اور مسلمان کا مسلمان کے قتل کرنے کو عذابِ الہی قرار دیتے ہوئے کہا: شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے لوگوں کو قتل جیسے گناہوں پر اکساتاہے تاکہ خدا کی سزا اور غضب لوگوں پر برسے۔ اسی لیے سب کو توبہ کرکے قرآن پاک کے ذریعے اپنی تزکیہ و اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ نوجوانوں، طلبہ اور حضرات وخواتین حتی کہ چرواہوں کو قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ بچوں کو نماز کا حکم دیدیں اور گھروں کو قبرستان نہ بنائیں۔ بلاشبہ اللہ تعالی ’غفور‘ و رحیم ہے لیکن یہ مت بھولیے کہ اللہ ’شدید العقاب‘ بھی ہے۔ اللہ معاف کرتا ہے اور سزا بھی دے سکتاہے۔

حضرت شیخ الاسلام خاش شہر میں
اسماعیل آباد میں تقریب کے اختتام کے بعد مولانا عبدالحمید اور ان کے ساتھی خاش شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ دوپہر کو آپ جامعہ مخزن العلوم تشریف لے گئے جہاں آپ نے علمائے کرام اور سرگرم دینی کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ نماز مغرب آپ نے جامع مسجد الخلیل میں ادا کی جہاں شہریوں کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی۔ نماز کے بعد آپ نے حاضرین سے اہم خطاب کیا۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: سب سے بری معاشرتی صورتحال یہ ہے کہ لوگ اپنی ثقافت و تہذیب چھوڑکر دوسروں کی پیروی میں پیش پیش ہوں۔ یہ مسلمانوں کیلیے انتہائی نامناسب اور عیب کی بات ہے اگر وہ اپنی تہذیب و شناخت کو پیچھے چھوڑکر اغیار کی تہذیب اپنالیں۔ نبی اکرمﷺ نے انسانیت کو ایک ایسا کلمہ عطا کیا جس سے کمزور انسان قوی و طاقتور ہوگیا، خاکی انسان آسمان سے متصل ہوگیا۔ مردہ انسان زندہ و جاوید ہوگیا۔ اسی کلمہ توحید کی برکت سے صحابہ کرام، خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ کو دنیا کی سرداری و خلافت نصیب ہوئی اور ابوبکرصدیق آپﷺ کا حبیب و دوست بن گیا؛ لیکن ابوجہل اس کلمے کے انکار کی وجہ سے ذلت و رسوائی سے دوچار ہوا جیسا کہ فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کی بات نہ مانی اور ملعون ہوگیا۔

شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے صدر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے گویاہوئے: کلمہ توحید سے پیروی نے غلاموں کو شاہ بنادیا اور شاہوں کو غلام۔ صحابہ کرام کو اسی کلمے کی برکت سے دنیا و آخرت کی کامیابی و عزت نصیب ہوئی۔ صحابہ کرام نے اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں کو شکست فاش سے دوچار کیا اور اسلام کا بول بالا کیا۔ جو نسخہ صحابہ کرام کے پاس تھا آج کے مسلمانوں کے پاس بھی ہے؛ اسلام اور قرآن وہی ہیں صرف ہم مسلمان بدل چکے ہیں۔ اگر موجودہ ذلت و حقارت سے جان چھڑانا ہے تو واحد راہ یہی ہے کہ اسلام کی جانب لوٹیں اور سچی توبہ کریں۔ منکرات و خواہشات سے دوری کرکے صحابہ کرام کی راہ پر چلیں۔ جو چیز عزت کا باعث ہے اگر اس سے ہم دوری اختیار کرتے ہیں تو حالات یہی ہوں گے جو ہمارے سامنے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: جب تک ایک قوی اجتماعی ارادہ نہ ہو تو معاشرے کی حالت نہیں بدلے گی۔ لہذا قبائلی تعصب ختم ہونا چاہیے؛ قبائل شناخت کیلیے ہیں لڑنے جگھڑنے کیلیے نہیں۔ سب کو قبائلی تنازعات کے خاتمے کیلیے محنت کرنی چاہیے۔

صوبے کو کسی مخصوص گروہ کے حوالے کرنا غلط پالیسی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مناصب و عہدوں کی مساوی تقسیم پر زور دیتے ہوئے کہا: شیعہ وسنی کو مساوی حقوق ملنے چاہییں۔ مناصب کی تقسیم میں مساوات ضروری ہے۔ یہ انتہائی غلط پالیسی ہے کہ صوبے کو ایک مخصوص نسل اور گروہ کے حوالے کیاجائے۔ ملکی مفادات کے خلاف اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے۔ آخر کیوں سنی شہریوں کو صلاحیت کے باوجود صرف ان کے مسلک کی وجہ سے نظرانداز کیا جاتاہے؟ کیا وہ اپنے مسلک کی وجہ سے گورنر بننے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں؟ شیعہ وسنی دونوں کے باصلاحیت افراد پر اعتماد کیاجائے اور سنی شہریوں کو بھی اپنے ملک کی حفاظت میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے؛ مسلح افواج کو ان کیلی شجرہ ممنوعہ قرار نہ دیاجائے۔

مسلکی و فرقہ وارانہ تنازعات کو خطرناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: شیعہ و سنی کو اپنے مخالف فرقے کو برداشت کرنی چاہیے۔ مفاہمت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مسلکی لڑائیوں سے بچنا چاہیے۔ اختلافات کے بجائے مشترکہ مسائل پر زور دینا چاہیے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: بھائی چارہ اور امن وامان کا مسئلہ معاشرے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔ اگر باہمی بھائی چارہ اور خطے کے امن پر حرف آئے تو پوری قوم متضرر ہوگی۔ آج کل حکام سمیت سب بھائی چارہ واتحاد کی بات کرتے تھکتے نہیں لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے اتحاد باتوں سے نہیں عملی اقدامات سے حاصل ہوتاہے۔ ہرسنی مسلمان کا مطالبہ ہے کہ اس کے جائز حقوق پر اسے دسترسی حاصل ہو۔ شیعہ وسنی دونوں ایرانی ہیں؛ ایران کسی مخصوص مسلک کا ملک نہیں ہے، شیعہ کا نہ سنی کا۔ لہذا ان مسالک میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔

بڑے شہروں میں اہل سنت کی مذہبی وتعلیمی آزادی؛ ایک آئینی مطالبہ ہے
ممتازسنی عالم دین نے ایرانی اہل سنت کی بدامنی کی مخالفت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم بھائی چارہ اور امن کے خواہاں ہیں۔ ہمیں امید ہے ہماری مذہبی آزادی کا خیال رکھاجائے اور یہ اہل سنت کے فردفرد کا مطالبہ بھی ہے۔ بڑے شہروں جیسا کہ اصفہان میں سنی برادری کو بلارکاوٹ نماز قائم کرنے کا حق ہے اور جس طرح ان کا مسلک ہے وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلواسکتے ہیں۔ یہ مطالبہ آئین کے دائرے میں ہے اور بالکل معقول و منطقی ہے۔ اس کو زیادہ طلبی نہیں کہاجاسکتا، ہمارا خیال ہے تمام لوگوں کا حق ادا ہونا چاہیے اور کسی کو محض اس کے مسلک و عقیدے کی وجہ سے محروم نہ رکھاجائے جس سے اتحاد کمزور پڑجاتاہے۔

ملک میں سیاسی اختلافات کو صحابہ کرام کے اختلافات سے موازنہ نہ کیاجائے
بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے ایران میں اہل سنت کی مقدسات کی خیال داری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: حال ہی میں ایک ذمے دار حکمران نے غیرذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے دوہزار نو کی سیاسی تحریک [گرین موومنٹ] کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رونما ہونے والے اختلافات سے تشبیہ دی ہے اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا نام تک لیاہے جس سے سنی برادری میں تشویش کی لہر دوڑچکی ہے۔ صحابہ کرام کی حرمت محفوظ رہنی چاہیے؛ یہ مسئلہ ہمارے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم نے باربار حکام کو خبردار کیا ہے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو مشاجرات صحابہ سے تشبیہ دینے سے بازآئیں؛ ایک بار پھر ہم حکام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایسی حرکتوں سے بازآکر دوسروں کو بھی منع کریں۔ چونکہ اس ملک میں ہم نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا ہے جس سے حضرات حسن و حسین اور علی کی بو آتی ہو، نہ ہی کوئی فرد حضرات عمر، طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین سے موازنے کے قابل ہے۔ لہذا کوئی لائق نہیں کہ ان سے مشابہت کا دعویٰ کرے۔ ایسی تشبیہات سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہمارے لیے تمام اہل بیت اور صحابہ کرام واجب الاحترام ہیں۔ عام طور پر جب کوئی ان حضرات کی توہین کرتاہے تو حکام سے رجوع کیاجاتاہے لیکن جب حکام خود ہی ایسی باتیں زبان پر لائیں تو کس سے شکوہ کیا جائے اور کہاں شکایت درج کرائی جائے؟ اہل سنت خود پر لازم سمجھتے ہیں کہ کسی شیعہ کی مقدسات کی توہین نہ کریں، شیعہ حضرات سے بھی مطالبہ ہے کہ ہماری مقدس ہستیوں کی گستاخی کرنے کا سلسلہ بند کردیں۔

’’بیلری‘‘ میں مولانا کا بیان
جمعرات27 دسمبر دوہزار بارہ کی صبح، مولانا عبدالحمید خاش شہر سے ’’بیلری‘‘ بستی کی جانب روانہ ہوئے جو پشت کوہ نامی علاقے میں واقع ہے۔
بستی کے رہائشیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سورت البقرہ کی آیت 130 کی تلاوت سے اپنے بیان کا آغاز کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلی مقام پر روشنی ڈالی جسے اللہ رب العزت نے شرک و بت پرستی کی بیخ کنی اور دعوت توحید عام کرنے کیلیے مبعوث فرمایا تھا۔

مولانا نے عقیدہ توحید کو اسلامی عقائد کی بنیاد اور محور قرار دیتے ہوئے کہا: تمام انسان اللہ کی طاقت کے سامنے بے بس اور عاجز ہیں؛ اگر اللہ تعالی کسی چیز کو برباد کرنا چاہے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔ آیت کے مطابق جوشخص عقیدہ توحید سے روگردانی کرے وہ نادان اور ’سفیہ‘ ہے اگرچہ دنیاوی علوم میں اسے مہارت تامہ کیوں حاصل نہ ہو۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے افراد کی بہترین مثال ہیں جو اپنے لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کیلیے بھی تیار تھے۔ لیکن آج کا مسلمان سستی کا شکار ہوچکاہے اور نماز پڑھنے کیلیے تیار نہیں ہے۔

مولانا عبدالحمید ’گورچان‘ میں
’بیلری‘ میں خطاب کے بعد آپ ’گورچان‘ نامی بستی کے عوام، علمائے کرام اور عمائدین سے ملنے کیلیے روانہ ہوئے جہاں آپ نے حاضرین سے خطاب کیا۔

حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی کی نعمتیں بے شمار ہیں؛ اللہ کا حکم ہے کہ میری نعمتوں کو یاد رکھو۔ اللہ تعالی نے ہمیں ایک مکمل جسم عطا فرمایا اور اس کی رزق و روزی کا انتظام بھی فرمایا۔ کیا اللہ کے سوا کوئی رزق دینے والا ہے؟ اللہ رب العزت کا سوال ہے جس کا مطلب ہے صرف اللہ ہی رزق دینے والی ذات ہے۔ یہ تو ظاہری نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالی کی معنوی نعمتوں بھی بہت ہیں؛ عقل اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جو اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو انسان کو بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی نے انسان کو نعمت تکلم اور بیان عطا فرمایا اور سب سے بڑھ کر نعمت قرآن۔ اگر انسان اس کتاب کی مکمل پیروی کرے تو دنیا وآخرت کی عزت پائے گا اور سرکش و متمرد طاقتیں اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔

انہوں نے مزیدکہا: جب اللہ تعالی نے ہم کو یہ سب کچھ عطا فرمایاہے تو یہ بات خلاف عقل نہ ہوگی کہ ہم اس کی نہ مانیں اور اطاعت و فرمانبرداری سے گریز کریں؟ بلاشبہ یہ منطق اور عقل کے خلاف ہوگا۔ لہذا ایمان کے تقاضوں کو پورے کرکے نماز، زکات اور روزہ جیسی عبادات میں ہرگز سستی نہ دکھایا جائے۔ اعزہ و اقارب خاص کر والدین کے حقوق کا خیال رکھیں اور صلہ رحمی کا اہتمام کریں۔ فحش و ناسزا سے اجتناب کرکے لوگوں سے اچھا برتاؤ کریں۔ قبائلی تعصب سے پرہیز کرکے خاندانی و قبائلی تنازعات سے دوری اختیار کریں۔ نادار و غریب لوگوں کی مدد کیا کریں تا کہ مشکل وقت میں اللہ تعالی تمہاری مدد ونصرت فرمائے۔