- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رپورٹ: جنوبی بلوچستان میں مولاناعبدالحمید کاتبلیغی دورہ[1]

جمعہ تیس نومبر دوہزاربارہ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا وفد زاہدان سے چابہار روانہ ہوگیا جہاں انہوں نے ’شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان‘ کے اجلاس میں شرکت کی۔ چھ دن کے دورے میں ممتاز عالم دین نے ایران کے جنوبی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اہم ملاقاتیں اور بیانات کیے۔ اس وفد میں زاہدان کے بعض معززین اورعلماء شامل تھے۔

صوبے کے دینی مدارس کے مہتممین کا اجلاس ہفتہ یکم دسمبر کو چابہار شہرکے ممتاز و معروف دینی ادارہ ’جامعہ الحرمین الشریفین‘ میں منعقد ہوا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس اہم اجلاس میں سرپرست شورائے مدارس اہل سنت مولانا عبدالحمید کے علاوہ شیخ الحدیث عین العلوم گشت مولانا محمدیوسف حسین پور اور خاش شہر کے ممتاز علماء مولانا محمدگل اور مولانا محمدعثمان جیسی شخصیات شریک تھیں۔

شورائے مدارس کے بانی رکن مولانا محمدیوسف حسین پورنے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ایسے جلسوں کے انعقاد کامقصددینی مدارس کے اساتذہ ومہتمین اور طلبہ میں مثبت تبدیلیاں لانا ہے تاکہ دینی تعلیم کا شعبہ مزید ترقی پاسکے۔

مولانا عبدالرحمن چابہاری نے اپنے خطاب میں ایرانی بلوچستان کے علمائے کرام میں موجود فکری اتحاد کو نعمت الہیہ قرار دیتے ہوئے کہا: جب کسی قوم کے علماء و دانشور مشرب پسندی اور فرقہ واریت میں مبتلا ہوجائیں تو اس بدقسمت قوم کا انجام بہت برا ہوگا۔ اللہ کا فضل ہے ہمارے صوبے کے علماء متحد ومتفق ہیں؛ اسی وجہ سے علمی میدانوں میں ترقیاں حاصل ہوچکی ہیں۔ معمولی مسائل میں نظریات کا مختلف ہونا طبعی امر ہے، اس کی وجہ سے نزاع و تفرقہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔

صدرشورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان مولانا عبدالحمیدحفظہ اللہ مذکورہ اجلاس کے آخری خطیب تھے؛ آپ نے چابہار کو ایک اہم شہر قرار دیتے ہوئے کہا: چابہارہمارے بلوچستان کا اقتصادی، ثقافتی اور سیاحتی دل شمار ہوتاہے۔ لہذا علمائے کرام ان مسائل کو مدنظررکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔

طالبات کے مدارس کے تعلیمی ذمے دار کی رپورٹ سننے کے بعد آپ نے خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: خواتین اسلامی پردہ وحجاب کاخیال رکھتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھیں۔

جامعۃ الحرمین الشریفین کے اساتذہ وطلبہ سے ملاقات
یکم دسمبر کے عصر کے بعد مولانا عبدالحمید نے ’جامعۃ الحرمین الشریفین‘ کے اساتذہ وطلبہ سے خصوصی ملاقات وگفتگو کی۔

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: علم و حکمت اللہ کے نزدیک انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح اہل علم اور علماء اللہ کے دربار میں اہمیت کے حامل ہیں۔ یاد رکھیں جس طرح علم اور علماء فضیلت رکھتے ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی سنگین اور خطیر ہیں۔ قرآن پاک کی رو سے علماء خشیت والے ہیں۔ ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ علم رکھنے والے افراد اللہ سے اجرو پاداش حاصل کرکے ایک عظیم ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: علمائے کرام آخری سانس تک علم حاصل کرنے کی محنت کریں۔ ’’رب زدنی علما‘‘ ان کی دعا ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا: حدیث پاک کے مطابق علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں؛ یہ وراثت صرف فضیلت میں نہیں ہے بلکہ ان کا پیغام انسانیت تک علماء ہی پہنچائیں گے۔ معلوم ہوا علماء کی ذمے داریاں بہت زیادہ ہیں۔ اگر کسی نے عالم کا درجہ حاصل کیا لیکن اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا تو عوام گناہوں، خشکسالی اور زلزلے وسیلاب کا شکار ہوں گے! اگر علماء غفلت وسستی کا مظاہرہ کریں تو کون بیچارے عوام کی فکر کرے گا؟ کیا کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا تاکہ امت کو دوبارہ زندہ کردے؟ لوگ راتوں کو آرام سے سوتے ہیں کہ علماء و طلبہ قوم کی سوچ میں ہیں اور انہیں عذاب سے نجات دلاتے ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: علمائے کرام کسی بھی معاشرے میں دوسروں سے زیادہ علم وآگاہی رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ خالق سے ملاقات کرکے جب حضرت موسی علیہ السلام قوم کی جانب لوٹ آئے تو بنی اسرائیل شرک میں مبتلا ہوچکا تھا؛ سب سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کو پکڑا اور ان پر اعتراض کیا۔ وجہ یہ ہے کہ عوام تو عوام ہی تھے لیکن ہارون علیہ السلام عالم تھے۔ اگر اس امت میں کوئی ’موسی‘ آئے تو معلوم نہیں علماء سے کیا برتاؤ کرے؟

ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: طلبہ کا مقصد علم دین حاصل کرنے سے محدود نہیں ہونا چاہیے؛ صرف امام یا مدرس بننا ان کا مطمح نظر نہیں ہونا چاہیے۔ علماء کی ذمہ داریاں پورے معاشرے تک پھیلی ہوئی ہیں؛ پوری انسانیت کو نجات دلانا ان کا مقصد ہونا چاہیے۔جیسا کہ آپ ﷺ ہمہ وقت انسانیت کی نجات کیلیے فکرمند تھے اسی طرح ان کے وارث بھی امت کی آزادی و نجات کیلیے غور وفکر کریں۔

آغاز میں تلاوت کی گئی آیت کی روشنی میں گفتگو جاری رکھتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: عذابِ الہی سے نجات کا واحد ذریعہ کسب علم اور تزکیہ واصلاح امت ہے۔ دوسروں کی اصلاح اس وقت ممکن ہے جب بندہ خود اصلاح ہوجائے۔ اسلام ہمارے ہاتھوں امانت ہے؛ اسے ضائع مت کریں۔ جو ناچیز دنیا کی خاطر اپنا دین اور ضمیر بیچتاہے تواس کے حصے میں بہت بڑا نقصان آئے گا۔

چابہارمیں حضرت شیخ الاسلام کاعوام سے خطاب

یکم دسمبر کو بعداز مغرب نامور سنی عالم دین نے جامع مسجد چابہار میں عوام سے خطاب کیا جہاں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے استقبال کیلیے اکٹھے ہوئے تھے۔ نعرہ تکبیر سے عوام نے اپنے قائد کا پرجوش استقبال کیا۔ جامع مسجد دین پسند عوام سے بھری ہوئی تھی۔ اس پرنور محفل میں مختلف علاقوں سے آنے والے علمائے کرام بھی شریک تھے۔

مولانا عبدالحمیداسماعیلزہی نے اپنے خطاب کاآغاز قرآنی آیت: ’’وماھذہ الحیوٰۃ الدنیا الا لعب ولہب وان الدار الآخرۃ لھی الحیوٰن‘‘ کی تلاوت سے کرتے ہوئے انسانی زندگی کا مقصد واضح کیا۔ مثنوی مولوی کے بعض اشعار پڑھ کر آپ نے کہا: عارف رومی کے مطابق زندگی کا مقصد معرفت الہی اور اللہ تعالی کی عبادت وبندگی ہے جس کے ذریعے انسان دونوں جہانوں کی سعادت حاصل کرسکتاہے۔

انہوں نے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے تمام کائنات کو انسان کی آسانی وخدمت کیلیے خلق فرمایا؛ علم ودانش اور مادی نعمتیں ایسی چیزیں ہیں جو صرف انسان کے نصیب ہوئیں ملائکہ بھی ان سے محروم ہیں۔ انسان کے خمیر میں اختراع اور صنعتی ترقی کے امکانات ازل سے موجود تھے۔ لیکن یہ سب ذرائع ہیں اہداف نہیں ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کل دنیا کے اکثر لوگ ظاہری ترقی اور دنیوی امور میں پیش رفت کو اپنا نصب العین قرار دے چکے ہیں۔ ایسے لوگ روز قیامت مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ کامیابی ایسے لوگوں کا مقدر ہے جو اپنے دلوں میں صرف اللہ کی محبت کو جگہ دیتے ہیں اور اپنا دین بے بہا دنیا کے بدلے میں نہیں بیچتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: آج کل دنیا کے ظالم سپرپاورز اپنے مہلک ہتھیاروں کو نہتے لوگوں پر ڈال کر ’ٹیسٹ‘ کرتے ہیں؛ یہ ایک بہت بڑا ظلم اور خطا ہے۔ انسان کو خطا کی آزمائش نہیں کرنی چاہیے، ابوالبشر نے ایک مرتبہ خطا کا ارتکاب کیا اب اس کا دوبارہ امتحان نہیں کرنا چاہیے۔ خطا کا امتحان خود ایک بڑی خطا ہے۔ گناہوں کی کثرت اور نماز وزکات کے سلسلے میں غفلت وسستی دکھانے کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ کسی بھی اسلامی معاشرے کی اصل طاقت ’تقویٰ‘ سے ہے مترقی ہتھیاروں سے نہیں۔ شرعی احکام سے دین ودنیا اور دونوں جہانوں کی عزت وکامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔

علم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: علم انسان کی اشد ضرورت ہے؛ لہذا اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیا کریں اور ان کی تعلیم کیلیے مناسب فضا قائم کریں۔

‘مخصوص فرقہ، جماعت اور نسل ملک نہیں چلاسکتا’
اپنے خطاب کے ایک حصے میں ایران میں جاری بحرانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا ایران کو متعدد بحرانوں کا سامنا ہے اوراس کثیرالقومی ملک میں جہاں متعدد مسالک وخیالات کے پیروکار رہتے ہیں کسی مخصوص جماعت، مسلک اور نسل کی حکمرانی قومی مفادات کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: مجھ سمیت تمام سنی علمائے کرام نے چابہار میں رونما ہونے والے خودکش حملوں کی شدید مذمت کی ہے؛ ہمارا خیال ہے اپنے حقوق کو پرامن طریقوں سے مطالبہ کرنا چاہیے، ہم تشدد اور رہزنی کے مخالف ہیں۔ لیکن اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے آئینی اور جائز حقوق سے دستبردار ہوں گے!

ایران میں متعدد مسالک و جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں؛ تجربہ سے ثابت ہوا ہے یہاں کسی خاص گروہ کا سکہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ موجودہ مسائل و بحرانوں کے تناظر میں ملک کو مزید اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے۔ قومی اتحاد فراخدلی و دوراندیشی ہی سے حاصل ہوسکتاہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی اہل سنت کے وجود کو ریاست ایران کیلیے ’بہترین موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا: حکام کو چاہیے اپنے سنی ہم وطنوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں؛ ان کے اپنے علاقوں میں بھی اور مرکزی شہروں میں بھی انہیں خدمت کا موقع فراہم کریں۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایرانی سنی برادری کے تھوڑے افسران اور ذمے دار افراد نے دیانتداری سے کام کیاہے۔ سنی برادری کا وجود حکام کیلیے موقع ہے اور اس سے ان کا امتحان بھی ہوگا۔

انہوں نے مزیدکہا: ایرانی اہل سنت اپنے دین ’اسلام‘ سے محبت کرتے ہیں اور اپنے وطن کے وفادار ہیں۔ سنی قوم اپنے وطن کی عزت و سربلندی چاہتے ہیں۔ اہل سنت ایران کا خیال ہے شیعہ وسنی برادریوں کو بھائی چارہ اور امن سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ انہیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور انصاف و عدل کا نفاذ ضروری ہے۔ جہاں تک ہمارے لیے ممکن ہو ہم خطے کے امن کیلیے کوشش کریں گے اور کسی کو انتشار پھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

فلسطین کی نئی کامیابی بہادر قوم کے ’تولدِ نو‘ ہے

اپنے عہدساز بیان کے ایک حصے میں عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے کہا: فلسطین کو دنیا کے اکثر ملکوں نے اقوام متحدہ میں ’غیررکن مبصر ریاست‘ کے طور پر تسلیم کیاہے جو اس بہادر قوم کیلیے نئی پیدائش ہے۔ یہ واقعہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: فلسطینیوں کی مکمل کامیابی کا راز رجوع الی اللہ میں ہے؛ ’حماس‘ کے سرکردہ رہنما خالدمشعل سے ایک ملاقات میں بندہ نے ان سے گزارش کی تھی کہ فلسطینی قوم کو اجتماعی طور پر اللہ کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ انہیں مساجد، سڑکوں اور پارکوں سمیت ہرجگہ باجماعت نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یوں ان کی کامیابی جلد سے پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔

چابہاری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: چابہار کے معزز شہریو! آج پوری دنیا خاص کر مشرق وسطی اور مسلم ممالک میں لوگ بیدار و ہوشیار ہوچکے ہیں۔ امیدہے اللہ تعالی انصاف پسند اور اسلام دوست تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ یہ انتہائی اچھی خبر ہے کہ اب مصر میں خواتین اینکرپرسنز حجاب کے ساتھ ٹی وی میں ظاہر ہوسکتی ہیں اور وہاں کے نئے آئین کی بنیاد اسلامی قوانین و شریعت قرار پاچکی ہے۔ اگر شرعی قوانین کا نفاذ اچھے طریقے سے عمل میں لایاجائے تو یہ سب کیلیے فائدہ مند ہوگا۔ اسلامی قوانین میں جمہوریت اور مکمل آزادی پائی جاتی ہے۔

اپنے عوامی خطاب کے آخرمیں مہتمم دارالعلوم زاہدان نے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی ہی نے حسنی مبارک اور قذافی جیسے آمروں کو تخت سے تختہ تک پہنچادیا اور اس طرح انہیں نشانِ عبرت بنادیا کہ ان کے وہم و گمان کے کسی کونے میں بھی نہیں آیاتھا۔

یونیورسٹی طلبہ اورثقافتی کارکنوں سے گفتگو
اپنے مصروف دن میں، نمازعشاء کے بعد حضرت شیخ الاسلام نے چابہار کے طلبہ و ثقافتی کارکنوں سے ملاقات وگفتگو کی۔

یونیورسٹیزسے تعلق رکھنے والے طلبہ واساتذہ کی محفل میں بات کرتے ہوئے سنی رہ نما نے کہا: خلیفہ ثانی حضرت فاروق اعظمؓ کا مقولہ ہے: ’’تعلموا قبل ان تسودوا‘‘، اس سے پہلے کہ تمہیں سردار اور قوم کا بڑا بنایاجائے کچھ سیکھو۔ ہر ملک کے بڑے وہاں کے دانشور اور علماء ہوتے ہیں۔ اسی لیے طلبہ محنت کریں تاکہ ضروری مہارتیں حاصل کریں جو بعد میں معاشرے کو کام آسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا: الحمدللہ ہمارے معاشرے کے طلبہ کا شمار ملک کے اچھے طبقوں میں ہوتاہے۔ آپ کی کوشش یہ ہو کہ دوسرے نوجوان بھی علم حاصل کرنے کی جانب لوٹ آئیں۔ نوجوانی ہی سے اسلامی احکام کاخیال رکھیں اور اسلام کی اہمیت مت بھولیں۔

خطیب اہل سنت ’کہیر‘ میں
چابہار میں دینی مدارس کے مہتممین کے اجلاس میں شرکت کے بعد اگلے دن حضرت شیخ الاسلام اور ان کے ساتھی دیگر علاقوں کے دورے پر نکلے۔ ان کی پہلی منزل ’کہیر‘ تھی جو چابہار سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

کہیر میں سات سو خاندان آباد ہیں؛ دوبڑی مسجدوں میں سے ایک جامع مسجد ہے جس کے ساتھ ہی ایک دینی ادارہ ’مدرسہ توحیدیہ‘ واقع ہے۔ مدرسہ توحیدیہ میں ایک سو کے قریب طلبہ زیرِتعلیم ہیں۔ کہیر اور اس کے آس پاس میں موجود پچاس بستیوں کی کل آبادی بلوچ اور سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

اس سفرمیں دارالعلوم زاہدان کے مفتی اور استاذالحدیث مولانامفتی محمدقاسم قاسمی اور سرگرم تبلیغی کارکن حافظ محمدکریم صالح سمیت متعدد شخصیات مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کو ساتھ دے رہی تھیں۔ بستی کے عوام استقبال کیلیے باہر نکلے تھے جہاں انہوں نے اپنے دینی قائدین کا والہانہ استقبال کیا۔

کہیر کی جامع مسجد میں منعقد جلسے میں سب سے پہلے مسجدکے خطیب اور مدرسہ توحیدیہ کے سرپرست مولانا نواب ہوت نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا اگرچہ زاہدان اور ’کہیر‘ کے درمیان جغرافی فاصلہ بہت ہے لیکن ہمارے دل جامع مسجدمکی اور زاہدانی عوام کے ساتھ ہیں۔ اپنے علاقے میں ممتاز علماء کی موجودگی کو خیروبرکت کا باعث قرار دیتے ہوئے انہوں نے مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

ان کے بعد مفتی قاسمی اسٹیج پر تشریف لائے جنہوں نے دین میں صبرواستقامت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: کہیر کے عوام کا پرجوش استقبال اور علماء کا احترام اس بات کا ثبوت ہے کہ ان دلوں میں ایمان کا نور موجود ہے؛ یہ قابل تقدیر بات ہے لیکن محض جوش و ولولہ نجات کیلیے کافی نہیں ہے۔ دین اللہ کے احکام کے مجموعے کانام ہے۔ ان سب پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: تبلیغ دین اور نصیحت کرنا صرف علماء کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں کو اس مہم میں شرکت کرنی چاہیے۔ ہرحال میں اللہ کو مدنظر رکھیں، تقوی اختیار کریں چاہے فراخی کی حالت ہو یا فاقہ و تنگدستی کی۔ گناہوں سے پرہیز کا نسخہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کے ساتھ ملناجلنا ہو اور بری صحبت سے اجتناب کیاجائے۔ قرآن پاک میں بھی اس کا حکم آیاہے: ’’کونوا مع الصادقین‘‘ اور ’’واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغداۃ والعشی یریدون وجہہ و لاتعد عیناک عنہم ترید زینۃ الحیوٰۃ الدنیا و لاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ و کان امرہ فرطا۔‘‘

جامع مسجد الاقصی کہیر میں حضرت شیخ الاسلام کا خطاب
خطیب اہل سنت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے جامع مسجد کہیر میں سینکڑوں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات حسنہ کو شمار کرنے کے بعد مسجد میں موجود حاضرین کو اللہ کی بندگی کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا: نماز اسلام کا رکن ہے اور اس کے بغیر دنیا و آخرت کی سعادت کا حصول ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: مسلم قوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے جانشین ہے۔ یہ خلافت قیامت تک باقی رہے گی اور مسلمانوں کو نبی اکرم علیہ السلام کی سنت اور منہج کو اپنا مشعل راہ بنانا چاہیے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھنا چاہیے۔ دین اسلام ایک عظیم نعمت ہے جس سے غیرمسلم محروم ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل ایک دوسرے کے حقوق کا بہت کم خیال رکھا جاتاہے۔ اگر ہمیں کامل مسلمان بننا ہے تو سب کے حقوق کی مراعات کرنا پڑے گا۔ والدین، رشتے داروں، یتیموں اور نادار لوگوں سے تعاون کرنا ان کا حق ہے۔

انہوں نے کہا: قرآن پاک اللہ کی جانب سے سب سے بڑی سند ہے۔ اسے سیکھ کرنا عمل میں لانا چاہیے۔ نوجوان حضرات ابھی سے دیندار بن جائیں اور حقیقی مسلمان بننے کی محنت کیاکریں، مسلمان نما مت بنیں۔ ایک سچا مسلمان پوری طرح اللہ کے سامنے سرِتسلیم خم کرتاہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں خطیب اہل سنت زاہدان نے علمائے کرام، عمائدین اور مہمان نواز عوام کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جلسے میں بھرپور شرکت کی۔انہوں نے حاضرین کو نصیحت کی اپنے بچوں کی تعلیم کیلیے مناسب بندوبست کریں اور اچھی یونیورسٹیوں میں انہیں پڑھنے کی ترغیب دیدیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرکے اگلی نسل کی صحیح خدمت کرسکیں۔

جاری ہے۔۔۔