- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

پس ماندہ علاقوں کے مدارس ومکاتب کے علماء کا جلسہ

صوبہ سیستان وبلوچستان کے دوردراز اور پس ماندہ علاقوں کے دینی مدارس اور قرآنی مکاتب کے اساتذہ اور علمائے کرام کا مشاورتی جلسہ ہر سال دارالعلوم زاہدان، ایران، میں منعقد ہوتاہے۔ اس سال مذکورہ میٹنگ جامعہ کے احاطے میں واقع جامع مسجدمکی زاہدان میں بدھ سترہ نومبر کو منعقد ہوئی۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق پس ماندہ علاقوں میں سرگرم علمائے کرام کے جلسے سے سرکردہ علماء و اساتذہ نے خطاب کیا، جبکہ افتتاحی و اختتامی تقریب سے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے خطاب کیا۔ شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے صدر کی تقاریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

ذمہ دار علماء معاشرے کو ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک کرسکتے ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے افتتاحی خطاب کو قرآنی آیت: ’’والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین‘‘ سے آغاز کرتے ہوئے علمائے کرام کو ان کی ذمے داریوں کی یاددہانی کرائی۔

انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو دو عظیم مقاصد کیلیے خلق فرمایاہے؛ پہلا اس ذات پاک کی بندگی و خالص عبادت ہے، دوسرا مقصد لوگوں کو دین حق کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ اللہ رب العزت کی تمام نعمتیں مثلا مال، اولاد، جائیداد اور جاہ ومقام دراصل ذرائع ہیں تاکہ انسان اپنے ہدف کی جانب قدم بڑھائے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کل بنی نوع انسان اپنے مقاصد و اہداف سے غافل ہوچکاہے۔ اسی لیے معاشرے میں ٹینشن اور ڈپریشن کی وبا عام ہوچکی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے حقیقی منزل کی جانب گامزن ہو تو بلا خوف و خطر، کسی ٹینشن کے بغیر وہ اپنا رستہ پا لے گی۔ بہت سارے لوگوں کو اپنے مقصد کے بارے میں معلوم ہے لیکن وہ کوئی محنت نہیں کرتے۔

مہتمم و سرپرست اعلی دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب علمائے کرام نے اپنی ذمے داریاں پوری کرلیں تو معاشرے پر ظاہری و باطنی برکتیں نازل ہوئیں۔ ایسی صورت میں ہر قسم کی برائیاں مثلا چوری وڈاکہ زنی، ظلم، خیانت اور دوسروں کی جائیداد پر قبضہ ختم ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر علماء نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو معاشرہ فساد و تباہی کا شکار ہوجائے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: انبیائے کرام علیہم السلام خاص کر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے کی اصلاح کیلیے سرتوڑ کوششیں فرماتے تھے۔ اگرچہ اس راہ میں انہیں بدسلوکیوں کا سامنا کرنا پڑتا، حتی کہ ان کے اہل خانہ اور قریبی رشتے دار دشمنی و مخالفت اور گستاخی پر آتے لیکن انبیاء علیہم السلام محنت جاری رکھتے۔ صحابہ کرام اور اولیاء بھی دین کی خاطر کوشش کرتے تھے۔

’تبلیغی جماعت‘ کو اہم معاصر اسلامی تحریکوں میں شمار کرتے ہوئے عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے کہا: جب شروع میں مولانا الیاس رحمہ اللہ کے حکم پر تبلیغی جماعت کے گروہ حرمین شریفین کی جانب نکلے تو براستہ بلوچستان سعودی عرب چلے گئے۔ یہاں ہمیں بھی ان کے ساتھ تبلیغ میں شرکت اور ان کی نصرت کا موقع ملا۔ بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ اس تحریک سے بہت متاثر تھے، چونکہ ان کا کام لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل حب دنیا نے علماء کو متاثر کیاہے۔ دین کا جو ولولہ اور شوق پہلے تھا اب غائب ہوچکاہے۔ اسی لیے دینی کاموں میں لگ جانے سے تھکاوٹ اور سستی محسوس ہوتی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: آج کل بیشمار ایسے مسلمان ہیں جو اپنے عقائد اور دین سے نابلد ہیں۔ انہیں شریعت اور احکام کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ حتی کہ اس کمزوری کا احساس بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ اسی حالت میں انتقال کرتے ہیں اور ممکن ہے عذاب الہی کا شکار ہوں۔ اسی لیے علماء کو دین کی تبلیغ کا سختی سے اہتمام کرنا چاہیے، لوگوں کو دین کی باتیں سکھائیں اور اس کام کو حقیر اور چھوٹا مت سمجھیں، چونکہ پیغمبروں کی ذمہ داری بھی یہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’انما بعثت معلما‘‘، مجھے معلم اور سکھانے والا بناکر بھیجا گیا۔ تعلیم دین اور تدریس آپ کی ذمہ داری ہے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: ملکی آئین نے تمام مسالک کے پیروکاروں کو مذہبی مسائل کی تعلیم میں مکمل آزادی دی ہے۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا آپ کی اس آزادی کو چھین لے یا رکاوٹیں کھڑی کردے۔ لہذا قانون کا احترام کرتے ہوئے آپ اپنی آزادی کی حفاظت کرلیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرکے آپ اپنے لیے مسائل پیدا نہ کریں۔ اس بارے میں کمزوری نہیں دکھانا چاہیے۔

اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے مدارس و مکاتب کے ذمے داروں اور علمائے کرام کو نماز اور دیگر انفرادی عبادات کے اہتمام کرنے کی نصیحت کی جو موثر تبدیلی لانے کیلیے ضروری ہیں۔

عوام کے دینی امور کی نگرانی علما کی ذمہ داری ہے
مذکورہ اہم جلسے کا اختتامی پروگرام بعداز مغرب منعقد ہوا۔ اس سیشن کے خطیب حضرت شیخ الاسلام سلمہ اللہ تھے جنہوں نے علمائے کرام کو اپنی مشفقانہ نصیحتوں سے نوازا۔

انہوں نے عوام کے دینی مسائل کی حفاظت کو علمائے کرام کی ذمے داری قرار دیتے ہوئے کہا: اکثر پیامبروں نے نوجوانی میں بکریاں چَرانے کا کام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوجوانی میں اہل مکہ کی بکریوں کو چَِرایا۔ دراصل اللہ تعالی انہیں کسی گروہ کی خیال داری و حفاظت اور رہنمائی کا سبق عملی طور پر سکھایا۔ جس طرح بکریوں کا ایک خطرناک دشمن بھیڑیا کے نام سے ہے، لوگوں کا اس سے کہیں زیادہ خطرناک دشمن ہے جسے شیطان کہتے ہیں۔ اسی لیے لوگوں کو زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے۔

ممتاز ایرانی سنی عالم دین نے کہا: معاشرے میں رہنے والے عوام کو رہنما اور نگہبان کی ضرورت ہے جو ان کے دین کی حفاظت کا کام کرلے۔ یہ ذمہ داری آپ علماء حضرات کی ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے اعمال و رویوں پر نظر رکھیں اور ان کی اصلاح کیلیے محنت کریں۔

مولانا عبدالحمید نے پس ماندہ علاقوں میں سرگرم علمائے کرام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: قرآنی مکاتب میں اللہ کی کتاب کو اچھی طرح تجوید کے ساتھ پڑھائیں۔ اس میدان میں جو مدرسین تجربہ کار ہیں ان کے تجربوں سے استفادہ کیاجائے۔ گناہ و معصیت سے دوری کرتے ہوئے تقویٰ اختیار کریں اور نماز وذکر سے غافل مت رہیں؛ ان عبادات سے دینی تقویت حاصل ہوتی ہے۔