- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

قاضی عبداللہ ملازادہ رحمہ اللہ کی زندگی پرایک نظر

ممتاز بلوچ عالم دین مرحوم قاضی عبداللہ ملازادہ کی ولادت ایرانی بلوچستان کے ضلع سرباز کی ’’ہیت‘‘ نامی بستی میں ہوئی۔ آپ کے والدمحترم “حاجی محمد” اور محترمہ والدہ “بی بی ہزاری” کا تعلق مذہبی اور دیندار گھرانوں سے تھا۔ مرحوم قاضی صاحب کے والد کا انتقال سفرحج کے دوران ہوا جب آپ حجاز پہنچنے سے پہلے افریقا میں تھے۔ اس وقت ’عبداللہ‘ ایک کمسن بچہ تھا اور والد کی وفات نے آپ کو یتیمی کا کڑوا مزہ بھی چکایا۔

والد کے سانحہ ارتحال کے بعد آپ کی والدہ نے ’’نظرمحمد‘‘ نامی شخص سے شادی کرلی جو گاؤں کے خان اور بڑے تھے۔ عبداللہ کا نوجوان بھائی بھی انتقال کرچکا تھا چنانچہ عبداللہ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ نظرمحمد کی کفالت میں تھے۔ نظرمحمد اور عبداللہ کی والدہ نے اپنی تمام تر کوششیں عبداللہ کی صحیح تربیت و پرورش پر لگادیں۔ بچپن ہی میں آپ نے تلاوت قرآن کی تربیت حاصل کرلی اور کم عمری میں آپ اپنے خاندان کو کھیتی باڑی میں مدد بھی کرتے تھے۔ جب آپ کے گھروالوں نے حصول علم میں آپ کا ذوق وشوق دیکھا تو انہیں ’’پارود‘‘ نامی بستی روانہ کردیا جو’’ ہیت‘‘ کے قریب واقع تھی۔ چنانچہ قاضی عبداللہ صبح کو گھریلو کاموں میں اپنی والدہ کی مدد کرتے اور شام کو میں ’’ملاعبدالملک‘‘ کے مدرسے میں سبق پڑھتے تھے۔
ملاعبدالملک کے مدرسے میں قاضی عبداللہ نے ناظرہ قرآن کے ساتھ ساتھ بعض ابتدائی اور بنیادی کتب کی تعلیم بھی حاصل کرلی۔ آپ موسم کی سردی و گرمی کی پرواہ کیے بغیر روزانہ پیدل ’پارود‘ تک جاتے اور پھر گھر واپس ہوجاتے۔

علمی اسفار:
قاضی عبداللہ مرحوم کے بچپن میں ایرانی بلوچستان کے ممتازترین دینی مدرسہ ’پارود‘ میں واقع تھا؛ لیکن وہاں صرف بنیادی کتب کی تعلیم مہیا تھی جو قاضی عبداللہ کی علمی پیاس بجھانے کیلیے ناکافی تھی۔ دوسری جانب ان کی والدہ کیلیے اپنے لخت جگر کو کسی دور علاقے میں بھیجنا مشکل تھا۔ مگر قاضی عبداللہ کو ان تمام مشکلات کے باوجود علم حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ انہوں نے فیصلہ کیا مزید تعلیم کیلیے کراچی چلے جائیں جو اس وقت انگریز سامراج کے قبضے میں تھا۔ وسائل اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے انہیں کراچی پہنچنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

مولانا عبداللہ سربازی نے اس دور کے ممتازترین دینی ادارہ ’’مظہرالعلوم کھڈہ‘‘ میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔ فنی کتب میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے مظہرالعلوم کے اکابر اساتذہ کی نگرانی میں تربیت و تزکیہ کا بھی اہتمام فرمایا۔ قاضی عبداللہ نے سندھ کے ’’پیرجھنڈا‘‘ نامی علاقے کے معروف مدرسے میں حدیث شریف اور راویوں کے سوانح میں تخصص حاصل کیا۔

وطن واپسی:
متعدد اسلامی علوم میں مہارت و تخصص حاصل کرنے کے بعد قاضی عبداللہ مرحوم نے اپنی قوم کی خدمت اور دینی رہنمائی کے عظیم مقصد کی خاطر مادروطن کا رخ کیا۔ جب لوگوں کو ان کی واپسی کا علم ہوا تو گروہ گروہ ان سے ملنے کیلیے ان کے گاؤں پہنچتے رہے۔

بلوچستان میں تبلیغی دورے:
قاضی مرحوم کی تبلیغی و اصلاحی سرگرمیاں کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں تھیں بلکہ آپ بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے عوام کی دینی مشکلات سے خود کو باخبر رکھتے اور انہیں رہنمائی کیا کرتے تھے۔ آپؒ کی کوشش تھی کہ لوگوں کو دینی آگاہی فراہم کرکے بدعات و خرافات سے انہیں نجات دلائیں۔

گمراہ ذکریوں کے خلاف جہاد:
باطل ذکری فرقے کے پیروکاروں نے ’’کشکور‘‘ نامی گاؤں کی مسجد کی بے حرمتی کرکے مسجد کے موذن کو بھی پیٹا تھا؛ ذکریوں کی جلاوطنی کے پیچھے یہی واقعہ محرک بنا۔ اس گستاخانہ حرکت سے قاضی عبداللہ کو بہت صدمہ ہوا؛ جب ذکریوں کے سرغنہ کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے اپنے پیروکاروں سمیت پاکستان کی جانب بھاگنے کی کوشش کی۔ جب ان کا ٹولہ بارڈر سے کچھ فاصلے پر ’’جکیگور‘‘ مقیم تھا تو قاضی عبداللہ کی قیادت میں اکٹھے راسکی اور سربازی مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا۔

ربیع الاول 1355ھ (جون 1936ء) کی لڑائی میں گمراہ ذکریوں کے سربراہ اپنے سات ساتھیوں سمیت ہلاک ہوا جبکہ متعدد ذکری زخمی ہوگئے۔ جو بچ گئے تھے وہ پاکستانی بلوچستان کے جنوبی علاقوں کی جانب بھاگ کر ہمیشہ کیلیے وہاں آباد ہوئے۔ معرکے میں ایک مسلمان شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔

اولاد اور عیال:
قاضی عبداللہ مرحوم نے کل چار شادیاں کیں؛ آپ کو مالک حقیقی نے سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا فرمایا۔ ممتاز سنی عالم دین بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیز ملازادہ رحمہ اللہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپ کی چچازاد بہن ’دْربی بی‘ سے اللہ تعالی نے آپ کو مولانا عبدالمجید ملازادہ کو نصیب فرمایا۔ جبکہ ’بی بی گل‘ سے مولانا عبدالعزیز اور ملا سیدمحمد پیدا ہوئے۔ تیسری زوجہ سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئی جبکہ چوتھی بیوی ’بی بی مرادخاتون‘ سے مولوی عبدالحکیم، عبدالحق، حاجی عبدالرحمن اور ممتاز سکالر ’’وصال فارسی‘‘ نامی اسلامی سیٹلائیٹ ٹی وی چینل کے مالک مولانا ڈاکٹر عبدالرحیم ملازادہ پیدا ہوئے۔

اخلاقی خصوصیات:
کثرت عبادت:
مرحوم قاضی عبداللہ ہرحال میں کثرت سے اپنے مالک وخالق کی عبادت کیاکرتے تھے۔ سجدے کی علامت آپ کے ماتھے پر نمایاں تھی۔ آپ انتہائی خشوع وخضوع اور تواضع سے نماز پڑھتے تھے۔ ذکراللہ، نوافل کا اہتمام اور قرآن پاک کی تلاوت آپ کی روزمرہ زندگی کے لاینفک اجزا تھے۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
مرحوم قاضی عبداللہ رحمہ اللہ کثرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا غور سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بہت زیادہ تھی جو آپ کے دروس اور مواعظ میں اس کے اثرات قابل مشاہدہ تھے۔ بلوچستان کے مشہور شاعر ’غلام محمد ملازہی‘ کہتے ہیں کہ قاضی صاحب ہمیشہ ان سے کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھیں اور عشق کی انتہا کا حال یہ تھا کہ اپنے محبوب علیہ السلام کے فضائل سن کر آپ شوق سے آبدیدہ ہوجاتے۔

کتب بینی و مطالعہ کا شوق:
قاضی عبداللہ مرحوم ہمیشہ دینی واسلامی کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ آپ کا خیال تھا علمائے کرام کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہیے اور آپ خود اس کا اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ تعلیم مکمل کرکے وطن واپس ہورہے تھے تو آپ نے بہت ساری کتابیں اپنے ساتھ لایا۔

بہادری و سخاوت:
بہت کم ایسا ہوتاہے کہ یہ دو اہم اور اچھی صفات ایک ہی شخص کے اندر موجود ہوں؛ لیکن اللہ تعالی نے ان دونوں صفات کو قاضی عبداللہ کو نصیب فرمایا تھا۔ آپ کی بہادری کی علامت و ثبوت کیلیے یہی کافی ہے کہ آپ نے گمراہ ذکری فرقے کیخلاف علم جہاد اٹھایا اور انہیں اپنے وطن سے مار بھگایا، رضاخان (سابق شاہ ایران کے والد اور آمرحکمران) کی اسلام مخالف پالیسیوں اور اقدامات کا سخت مقابلہ کیا۔ آپ حق کی بات بلا خوف و ہراس کہہ دیتے اور مخالفین کے ردعمل کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

سانحہ ارتحال:
طویل عرصے تک اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث خدمت کے بعد مرحوم قاضی عبداللہ کا انتقال بارہ صفر 1379ہجری (17اگستء1959) کو ہوا۔
اللہ سبحانہ وتعالی آپ کو شہداء و صالحین اور انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ محشور فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین۔

SunniOnline.us