- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’جنوبی وزیرستان، جہاں وقت رک سا گیا ہے‘

جنوبی وزیرستان میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹائم مشین میں بیٹھ کر آپ نے چند ہی گھنٹوں میں ایک صدی پیچھے کا سفر طے کرلیا ہے۔ وقت یہاں رکا ہوا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد کسی بھی خاتون صحافی کا یہ پہلا دورہ تھا جس کا بندوبست پاکستان کی فوج نے کیا۔
چند برس پہلے جب ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے تو ان میں سے اکثر کے تانے بانے یہیں سے ملتے رہے اور اسی وجہ سےتین برس پہلے یہاں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب یہ علاقہ فوج کے کنٹرول میں ہے جبکہ انتہا پسند شمالی وزیرستان کا رخ کرچکے ہیں۔
علاقے میں فوج کی موجودگی سے بظاہر یہاں امن قائم ہوچکا ہے۔ فوج کی زیرِ نگرانی یہاں کئی ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں جن میں قابل ذکر ٹانک وانا مکین روڈ کی تعیمر ہے۔
اس شاہراہ نے جعفرافیائی طور پر جنوبی وزیرستان کو ملک سے منسلک کردیا ہے لیکن سیاسی اور سماجی طور محسود، برکی، وزیر اور بٹینی قبائل کا یہ علاقہ نہ تو کسی طرح آج کی جدید دنیا کا حصہ لگتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا۔
جنوبی وزیرستان کی آبادی کی اکثریت تو خواتین پر مشتمل ہے لیکن سڑکوں اور بازاروں میں خواتین کہیں دکھائی نہیں دیتیں اور اگر کبھی دکھائی بھی دیں تو یا دس گیارہ برس تک کی بچیاں یا پھر ادھیڑ عمر خواتین اور وہ بھی اکثر مشقت کرتی ہوئی۔
آپریشن کے وقت یہاں کی آبادی علاقہ چھوڑ کر ملک کے باقی حصّوں میں منتقل ہو گئی تھی جن میں سب سے زیادہ تعداد محسود افراد کی تھی اور اب امن اور ترقی کے بعد آج بھی مقامی افراد کی بڑی تعداد واپس آنے کو تیار نہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے ؟ چگملائی علاقے کے رہائشی معاذ اللہ کہتے ہیں کہ ’کئی برس تک یہاں کے لوگ قتل وغارت کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہاں بہت ظلم ہوا ہے۔ ہمیں ابھی بھی خوف ہے‘۔
شدت پسند فوجی آپریشن کے بعد شمالی وزیرستان منتقل ہو چکے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں ان کے لیے ہمدردی رکھنے والے موجود نہیں۔ تاہم بہت سے مقامی لوگ کئی برس تک انتہا پسندوں کے مظالم کا شکار رہنے کے بعد خوف کے زیرِ اثر ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
آپریشن کے بعد سے قبائلی رواج کے برعکس یہاں اسحلہ لیکر کر چلنے پر پابندی ہے لیکن یہ علاقہ مکمل طور پر اسلحے سے پاک نہیں ہوا ہے۔ پہاڑوں میں دبا اسحلہ ملنا آج بھی معمول ہے۔ کبھی کبھی بارودی سرنگوں کے دھماکے بھی ہوتے رہتے ہیں اور تشدد کے دیگر واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ فوج کے لیے علاقے کو شدت پسندوں کی کارروائیوں سے پاک رکھنا ابھی بھی بڑا چیلنج ہے۔
چگملائی کے امیر اخلاص خان کہتے ہیں کہ ’پہلے مرد ہمارے علاقے میں تیس چالیس کلو وزنی ہتھیار اٹھا کر پھرتے تھے اب اس سے نجات مل گئی ہے۔ پہلے ہم بنکروں میں سوتے تھے اب گھروں سے باہر بھی سوجاتے ہیں لیکن یہ سب فوج کی وجہ سے ہے اگر فوج علاقے سے چلی جائے تو پھر مشکل ہوجائے گی‘۔
علاقے کا امن اس وقت فوج کی مرہون منت ہے۔ اس وقت پاکستان کی فوج کے دو ڈویثرن جنوبی وزیرستان میں تعینات ہیں۔ شمالی وزیرستان کے قریب ورزا گڑھ چوکی پر گذشتہ ایک برس سے تعینات حوالدر مظفر شاہ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت دہشت گرد شمال سے جنوب کی جانب نقل و حرکت کی کوشش کرتے ہیں۔ ’فائرنگ معمول کی بات ہے۔ مشکل تو ہے لیکن ملک کی حفاظت کے لیے بیوی بچوں کو چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہیں‘۔
جنوبی وزیرستان کی سول انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر ٹانک میں ہے اور ٹانک کے بعد سول انتطامیہ کا نام و نشان بھی ختم ہوجاتا ہے۔ علاقے میں فوج نے حکومت کی عملداری بظاہر تو قائم کردی ہے لیکن یہاں سول ادارے کہیں متحرک نہیں۔ صدر اور وزیراعظم سمیت کسی بھی اہم شخصیت نے طویل عرصے سے علاقے کا دورہ نہیں کیا۔
فوج کی طرف سے مقامی لوگوں کو یہ یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ وہ ابھی یہاں سے نہیں جائے گی۔ جنوبی وزیرستان میں پاکستان فوج کے آپریشنز کمانڈر میجر جنرل احمد محمود حیات کہتے ہیں کہ ’فوج نے علاقے کو کلیئر کر کے اپنا کام کردیا۔ اب لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے‘۔
فوجی آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان کا علاقہ دھیرے دھیرے سنبھل رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا خوف، اعتماد میں بھی تبدیل ہوجائے گا لیکن جنوبی وزیرستان میں فوج کے قیام کی مدت، سول انتظامیہ میں امن کی بحالی کی صلاحیت اور شمالی وزیرستان میں موجود شدت پسندوں کی دوبارہ اس علاقے میں واپسی کے خطرات، اب بھی سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔


شمائلہ جعفری
بی بی سی اردو