- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رپورٹ: مولاناعبدالحمید کادورہ سرباز، بلوچستان

ممتاز سنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے گزشتہ ہفتے میں ایرانی بلوچستان کے ضلع سرباز کا دورہ کرکے بعض دینی تقاریب اور عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ دوروزہ دورے کے موقع پر آپ نے تقریب دستاربندی میں شرکت کے علاوہ علاقے کے علمائے کرام اور معزز شہریوں سے براہ راست ملاقات بھی کی۔

اپنے سفر کے پہلے سٹاپ پر حضرت شیخ الاسلام نے ’راسک‘ کے ہاشم آباد نامی بستی میں قیام فرمایا جہاں علمائے کرام، طلبہ اور عوام کی بڑی تعداد نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ ہاشم آباد کے عوام کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہے لیکن دینی لحاظ سے وہاں حالات کافی بہتر ہیں؛ ایک سرگرم مدرسۃ البنات بچیوں کی تعلیم کیلیے موجود ہے جبکہ بچوں کیلیے بھی مکتب قرآن چل رہاہے۔

’’ہاشم آباد‘‘ میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی تقریر:
منگل نواکتوبر میں نماز مغرب کے بعد حضرت شیخ الاسلام نے مدرسۃ البنات خدیجۃ الکبریٰ میں موجود سینکڑوں علم دوست عوام اور اہل علم سے خطاب کیا۔
خطیب اہل سنت نے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو ایک عظیم مقصد کیلیے خلق فرمایاہے؛ انسان کے ذمے ایک بڑی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ قرآن پاک کی تصریح کے مطابق انسان اور جن کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت و بندگی ہے۔ دنیا میں موجود تمام سہولتیں انسان ہی کے فائدے کیلیے ہیں: ’’ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا‘‘، جو کچھ زمین پر ہے سب تمہارے لیے ہیں۔ اللہ نے ہمیں ان نعمتوں اور آسائش کے ذرائع سے نوازا تاکہ ہم سکون سے اس کی عبادت کیا کریں لیکن افسوس کی بات ہے اللہ کی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود ہم اپنی ذمہ داری بخوبی نہیں نبہارہے ہیں۔

ممتاز عالم دین نے انسان کیلیے ’لباس تقوا‘ کو سب سے بہترین لباس قرار دیتے ہوئے کہا: یاد رکھیں اللہ تعالی نے لباس ظاہری کے علاوہ ہمیں ایک خفیہ اور نظروں سے اوجھل کپڑا بھی عنایت فرمایاہے جسے لباس تقوا کہاجاتا ہے۔ اسی بات کی جانب سورت الاعراف آیت26 میں اشارہ ہے کہ لباس تقوا سب سے اچھا لباس ہے۔ جیسا کہ ظاہری کپڑا جسم کو سردی و دھوپ سے بچاتاہے لباسِ تقوا انسان کو جہنم کی آگ سے حفاظت کرتاہے۔

قرآن ایک لاثانی کتاب ہدایت و اخلاق ہے
مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے اپنے بیان کے ایک دوسرے حصے میں انسان کی ہدایت میں قرآن پاک کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: قرآن مجید ایک ایسی عظیم کتاب ہے جس کی فصاحت وروانی کا مقابلہ کوئی بھی کلام نہیں کرسکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں جب عربوں کو اپنی شاعری و بلاغت پر بڑا ناز تھا اور یہی مسئلہ کسی کا طرہ امتیاز بھی بنتا تھا، سب قرآن پاک کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہوئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کا مسلمان قرآن سے غافل ہے، نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ قرآن کی تلاوت نہیں کرتے، مساجد میں قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کم ہی ہوتاہے۔ قرآن کی تلاوت سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے۔

اپنے خطاب کے آخرمیں ’خدیجۃ الکبریٰ‘ میں موجود مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا: علم حاصل کرنے کی سخت محنت کریں، معاشی مسائل کا حل اللہ کی طرف رجوع کرنے میں ہے۔ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کریں اور مشکلات سے چھٹکارا پائیں۔
تقریب کے اختتام سے قبل بعض فاضلات اور حافظات کی دستاربندی ہوئی۔

’’نصیرآباد‘‘ علماء کی مشاورتی مجلس:
خطیب اہل سنت زاہدان نے اگلے دن سرباز کے علاقہ ’نصیرآباد‘ میں علمائے کرام کی مشورتی مجلس میں شرکت کی جس میں مختلف علاقوں کے اہل علم کے علاوہ بعض تبلیغی کارکن بھی شریک تھے۔
حاضرین کی کارگزاریوں کے سماع کے بعد مولانا عبدالحمید نے خطاب کیا۔ خطے میں دینی وثقافتی سرگرمیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے سربازی علما کے ’مشورتی جلسے‘ کو قابل تقلید قراردیا اور انہیں اس اہم اقدام پر خراج تحسین پیش کیا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے ممتاز بلوچ عالم دین نے کہا: اہل علم کی ذمہ داری بہت سخت اور اہم ہے؛ اگر علماء نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں تو روزِقیامت انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر علماء نے اسلام کے نشر واشاعت کا اہتمام کیا جو ان کی ذمہ داری ہے تو یہ ان کے رفع درجات کا باعث ہوگا۔

علماء آئین کی حدود میں آزادانہ کام کریں
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ضلع سرباز کے علماء کو مخاطب کرکے کہا: آئین نے اہل سنت کو مذہبی سرگرمیوں کی اجازت دی ہے۔ حکام کو اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر ہماری آزادی محدود یا بند کرنے کاحق نہیں پہنچتا۔ اہل سنت کی راہ اتحاد ویکجہتی کی ہے تفرق اور فرقہ واریت نہیں، اہل سنت قانون کی خلاف ورزی کے مخالف ہیں۔

نصیرآباد میں تقریب دستاربندی :
ضلع سرباز کے نصیرآباد گاؤں میں حضرت شیخ الاسلام کا آخری پروگرام ’مدرسہ رحمانیہ‘ کی تقریب دستاربندی میں شرکت تھی۔ ’رحمانیہ‘ میں متعدد علمائے کرام، دانشور اور طلبہ اپنے رہنماؤں کے بیانات سننے کیلیے اکٹھے ہوئے تھے۔

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: حضرت ابراہیم علیہ السلام صبرو استقامت اور فرامین الہی سے پیروی کے بہترین نمونے ہیں۔ آپؑ کے بعد جتنے انبیاء مبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد اور نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی لیے سب خود کو ان کے پیروکار گردانتے ہیں۔ لیکن ان کا عقیدہ اور میراث جو عقیدہ توحید ہے صر ف مسلمانوں کے پاس ہے۔ حضرت ابراہیم کی میراث یکتاپرستی اور خرافات سے اجتناب ہے؛ اس لیے دین ابراہیمی کے سچے پیروکار صرف مسلمان ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو ابراہیمی طریقہ اپناکر ہر قسم کی قربانی کیلیے تیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: حضرت ابراہیم کا دین عین فطرت، عقل اور منطق کے مطابق ہے جو اسے نہ مانے قرآن کی تصریح سے ’سفیہ ونادان‘ ہے۔ سائنسی ترقی کافی نہیں انسان کو سائنسی فنون میں ترقی کے علاوہ صحیح عقیدے کی بھی ضرورت ہے؛ اگر توحید اور اللہ کے احکامات کی پیروی سے غفلت کی جائے تو ایسا فرد جاہل شمار ہوگا۔

مغرب میں اسلام کا نور پھیل گیاہے
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مدرسہ رحمانیہ میں اپنے خطاب کے دوران مغربی ممالک میں اسلام کے پھیلاؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مغرب خاص کر سابق سوویت یونین میں حکمرانوں کی اسلام دشمنی و دین بیزاری کے باوجود اب اسلام وہاں پھیلتاجارہاہے۔ کسی دور میں حکمران دین کو افیون سے تشبیہ دیکرکہاکرتے تھے دین صرف روحی امراض و پریشانیوں کی تسکین کیلیے کارآمد ہے! مسلم بچوں کو بے دین بنانے کیلیے برین واشنگ کا سہارا لیتے اور زبردستی کرکے انہیں سؤر کا گوشت کہلاتے تاکہ انہیں دین سے دور کیاجائے۔ مسلمان شہری فوجیوں کی گستاخانہ حرکتوں کے خوف سے قرآن پاک کے نسخوں کو خاک میں دفناتے تاکہ ان کی حفاظت کریں۔ لیکن سابق سوویت یونین کو معلوم نہیں تھا انہی مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور افغانستان کی سرزمین پر ان کی شکست مقدر ہے۔

عالمی اتحادبرائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: اللہ کا کرم ہے کہ اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ پچھلے رمضان المبارک میں روسی دارالحکومت ماسکو میں نمازتراویح کیدوران پچاس کے قریب ختم قرآن کا اہتمام ہواہے۔ یہ دینی ترقی ایک ایسے ملک میں آئی ہے جس میں دین کو ’زہر‘ قرار دیا جاتا تھا۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ دین اسلام فطرت اور عقل سلیم کے مطابق ہے۔ اگر کوئی سمجھدار شخص اپنے دماغ پر زور لگادے اور اسلام کی حقیقت پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا دنیا وآخرت کی سعادت دینداری میں ہے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا:’کتاب اللہ‘ اور ’سنت‘ دو عظیم نعمتیں ہیں جو دیگر اقوام ان سے محروم ہیں، یہ الہی نعمتیں قیامت تک باقی رہیں گی اور جب تک مسلمان ان پر عمل پیرا ہوں گے تو کامیابی و خوشحالی ان کا مقدر ہوگا۔ دنیا وآخرت میں انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا نہیں ہوگا۔ صحابہ کرامؓ نے قرآن وسنت پر عمل کرکے دنیا پر فتح حاصل کی اور ان کی آخرت بھی آباد ہوئی۔

انہوں نے مزیدکہا: سرباز میں جو دینی بیداری نظر آرہی ہے اس کا سہرا اہل علم اور دینی مدارس کے سرجاتاہے؛ ان کا وجود خطے کیلیے خیر کا باعث ہے۔ عوام اصحاب مدارس سے تعاون کریں تاکہ وہ بہترانداز میں دین کی خدمت کرسکیں۔

گستاخی کی اجازت دینا جمہوریت نہیں ہے
اپنے بیان کے ایک حصے میں نامور عالم دین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے مزیدگویا ہوئے: ہم بحیث مسلمان انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی بعض شقوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے آزادی کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ انسانی حقوق کے منشور میں تضاد پایاجاتاہے؛ ان قوانین کی رو سے دوسروں کی جان ومال پر تعرض نہیں کیاجاسکتا لیکن یہی قانون امریکا میں ایک نادان شخص کو کھلی اجازت دیتا ہے کہ سرورِکونین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔ اس جاہل جنونی شخص کی وجہ سینکڑوں لوگ دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ مسلمانوں کی نگاہ میں یہ قانون عقل اور منطق سے دورہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: مسلمان ہرگز اپنے نبی کی شان میں گستاخی و توہین کو برداشت نہیں کریں گے؛ جو آپﷺ کی شان میں گستاخی کرے اگر مسلمانوں کے قبضے میں آئے تو ضروراسے سزا دے کر اسے ہلاک کریں گے۔ لیکن ہم بے گناہ شخص کے قتل کو ناجائز و حرام سمجھتے ہیں۔ لہذا مسلم ممالک میں مسیحیوں کی جان ومال پر یلغار حرا م ہے۔

ایرانی اہل سنت کے ممتاز رہنما نے مزیدکہا: مسلمان اپنے قانونی دفاتر میں ’جمہوریت‘ و ڈیموکریسی کی جگہ ’معاشرتی عدل وانصاف‘ اور ’اسلامی مساوات‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ان قوانین کی رو سے مسلمانوں کو کسی اور مذہب کی توہین کی اجازت ہے نہ ہی دوسروں کو یہ حق پہنچتاہے کہ مسلمانوں کی توہین وگستاخی کریں۔

حضرت شیخ الاسلام کی تقریر کے بعدنصیرآباد کی بعض فاضلات کی دستاربندی ہوگئی جبکہ قرآن پاک حفظ کرنے والوں کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔

زاہدان کی جانب واپسی میں مولانا عبدالحمید اور ان کے ساتھ آنے والا قافلہ ’انزا‘ کے مدرسہ عزیزیہ اور ’منبع العلوم‘ کوہ ون میں تھوڑی دیر کیلیے ٹھہرا جہاں علمائے کرام اور طلبہ سے قریب سے ملاقاتیں ہوئیں۔