- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بلوچستان کی صورتحال ۔ ایک پیچیدہ حقیقت

سردار اختر مینگل کے چھ نکاتی ایجنڈے کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سی نئی باتیں لکھی اور کہی گئی ہیں، اختر مینگل آئے اور اپنے چند روزہ قیام کے دوران کچھ ایسی باتیں کہہ گئے کہ جن پربلا شبہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔


ان چھ نکات نے مجھے اس واقع کی یاد دلا دی جب ستر کی دہائی میں بلوچستان میں جاری مسلح جدو جہدکے دوران، ایک روز مجھے ملک غلام جیلانی کے گھر کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ وہاں بلوچستان میں جاری تحریک کے حوالے سے کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں۔ میں نے کھانے کی میز پر ایک شخص کو دیکھا جس کے آگے سبز مرچوں سے بھرا پیالا پڑا تھا اور وہ ان مرچوں کو اٹھا اٹھا کرچبارہے تھے۔ میں انہیں نہیں جانتا تھا اور کھانے کے بعد ہمت کر کے میں نے ملک غلام جیلانی سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔
انہوں نے حیرت کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ تم انہیں نہیں جانتے؟ ٰیہ نواب اکبر بگٹی ہیں۔ یہ میری بگٹی صاحب سے پہلی ملاقات تھی، اس کے بعد ان سے میری اور بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے انہیں ایک سخت گیر بلوچ راہنما پایا، جو خاص طور پر بگٹی علاقے کے حقوق اور سوئی گیس کے معاملات کے حوالے سے مطمئن نہیں تھے۔
انہیں اس بات کا بھی دکھ تھا کہ وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں اور اس بناء پر دیگر بلوچ سردار ان سے نالاں ہیں۔
نواب اکبر بگٹی سے ملاقاتوں کے دوران میں نے ان سے بلوچستان کے مسئلہ کا حل جاننے کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ اس مسئلہ کا حل شاید ممکن نہیں کیونکہ بلوچ سرداروں کے مابین اتفاق رائے مشکل ہے۔
اکبر بگٹی اس وقت مسلح جد و جہد میں شریک نہیں تھے مگر نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ مسلح جدو و جہد کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پنجابی فوج کا تسلط بہت گہرا ہو گیا ہے۔ میرے سوال پر کہ اگر ایسا ہے تو آپ اس جدو جہد کی حمایت کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا تھا: نوجوان جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو بہت سی ایسی حقیقتوں کو سمجھوں گے ، جو ابھی نہیں سمجھ پا رہے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں صدر جنرل پرویز مشرف کو جوابدہ کے لئے انٹرویو کرنے جا رہا تھا تو مجھ پرآئی ایس پی آر کی طرف سے سب سے زیادہ دباؤ یہ تھا کہ میں اکبر بگٹی کی ہلاکت کے حوالے سے سوال نہ کروں۔ مگر میں نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ اس سوال کے بغیر انٹرویو ممکن نہیں۔
اس انٹرویو میں بگٹی صاحب کی گھڑی اور عینک سے متعلق میں نے سوال اٹھایا تھا اور انہی سے متعلق سوال آج بلوچ قیادت بھی اٹھا رہی ہے کہ اگر غار گر گئی تھی تو عینک اور گھڑی کیسے سلامت رہے؟نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ایک ملاقات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام یوسف نے موقف اختیار کیا تھا کہ بگٹی کے خلاف ایکشن میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ، جس پر میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ آپ کس قسم کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا ،جس قسم کا وزیر اعلیٰ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔
آج بلوچستان کے مسئلہ اور اختر مینگل کے چھ نکات دیکھ کر ، بگٹی صاحب سے اپنی ملاقاتوں اور دیگر واقعات کا موازنا کر کے میں محسوس کرتا ہوں کہ بلوچستان شاید ایک ایسی حقیقت ہے جسے پاکستان میں کوئی بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا۔
صوبہ بلوچستان کو بنے ۲۴ سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے، اس دوران جہاں ملک بھر کی طرح بلوچستان میں آمریت کے ادوار آئے ، وہیں کچھ عرصہ ہی سہی جمہوری حکومتوں نے بھی اقتدار کی کمان سنبھالی۔
خود اختر مینگل صاحب اور انکے والد صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے، ۰۷۹۱ سے لیکر آج تک بلوچستان میں منتخب ہونے والوں میں صرف مینگل ہی نہیں بلکہ بگٹی، مری، جمالی اور جام بھی شامل رہے۔ یہ سب کہ سب حقیقی معنوں میں سن آف دی سوائل تھے۔
جمہوری عہدوں کے علاوہ بلوچستان کی قبائلی روایات کے مطابق اپنے اپنے قبیلوں کی سرداری اور اس کے ساتھ آنے والی طاقت بھی ان کے پاس تھی ۔
اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان پر حکومت کرنے والے سب افراد ایجنسیوں یا فوج کے ایجنٹ تھے تو یہ حقائق کے منافی ہو گا، تا وقتیکہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تمام سردار بھی فوج کے ایجنٹ ہیں۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بلوچ قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن اس سے قبل ہونے والے انتخابات میں انکی شرکت انتخابی عمل پر انکا اعتماد ظاہر کرتی ہے ، پھر یکایک آزادی پسند بلوچ افراد کی جانب سے علیحدگی کی تحریک کے محرکات سمجھنامشکل ہو جاتا ہے۔اگر سردار مینگل کی بات سنی جائے تو جو انہوں نے کہا وہ کہیں سے بھی مجیب الرحمن کے ۶ نکات سے مماثلث نہیں رکھتا۔
میں ۱۷۹۱ میں مشرقی پاکستان کی سیاسی اور نوجوان قیادت کو مل چکا ہوں، اس لئے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سردار مینگل کی بات آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے خودمختاری ہے، طلال بگٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان میں رہنے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف براہمداخ بگٹی پاکستان سے آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ آخر بلوچ عوام کا لیڈر کون ہے جس سے مذاکرات کئے جا سکیں اوراس کا فیصلہ کون کرے گا؟
ان سب باتوں سے قطع نظر اس بات کا جواب کون دے گا کہ بلوچستان حکومت کو ملنے والے سالانہ۰۴۱ ارب روپے کیونکر عوام تک نہیں پہنچ پاتے اور یہ سلسلہ آج سے نہیں ہمیشہ سے جاری ہے، یہ رقم اس کے علاوہ ہے جو بلوچ سرداروں کو انکی زمین کے استعمال کے بدلے میں رائیلٹی کی صورت میں دی جاتی ہے۔ کیا یہ تمام رقم وفاق یا اس کے ادارے لوٹ کر لے جاتے ہیں؟
بلوچستان میں موجود قوتیں جو گمشدہ افراد کے مسئلے کو بنیاد بنا پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہیں انکا رویہ کسی صورت مناسب نہیں ہے۔
اگر بلوچستان میں گمشدہ افراد کا مسئلہ گھمبیر ہے تو اسی طرح کا مسئلہ بلوچستان میں موجود غیر بلوچ افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور صوبہ بدری بھی ہے، کیا ان افراد کے انسانی حقوق کو پامال نہیں کیا جا رہا؟
بلوچستان میں جاری آزادی کی کشمکش کے تناظر میں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ بلوچستان کے عوام کی ایک واضح اکژیت کسی بھی قسم کی علیحدگی پسند تحریک کے خلاف ہے، کچھ شورش زدہ علاقوں اور کچھ حصوں میں موجود کسی کشمکش کو آزادی کی تحریک قرار دینا بھی محض بیوقوفی ہے۔
بلوچستان میں محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن کی جے یو ائی ایف کے ساتھی، سینیٹر مالک، حاصل بزنجو سب کے سب تبدیلی چاہتے ہیں، انکی تبدیلی کی خواہش آزادی کی خواہش نہیں بلکہ سماج کی تبدیلی ہے، وہ اس تبدیلی کو لانے کے لئے اپنی ذات سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔
وہ آئین پاکستان میں سٹرکچرل تبدیلیوں کے حامی ہیں، انہی سٹرکچرل تبدیلیوں کی مدد سے وہ بلوچ عوام کو انکے حقوق دلوانا چاہتے ہیں۔
یہی وہ تبدیلیاں ہیں جن کی بناء پر ان کی رائے میں وہ صحیح معنوں میں صوبائی خودمختاری پا سکتے ہیں اور پھر اپنے وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لا سکتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو وفاق سے کبھی مایوس نہیں ہوئے حالانکہ انہیں شاید اپنی خواہشات اور خوابوں کا بیس فیصد بھی تاحال حقیقت کی صورت میں نہ مل پایا ہو گا، لیکن یہ لوگ جمہوری عمل میں رہتے ہوئے تبدیلی کے حامی ہیں۔
اگر کسی ایک واقعہ کی وجہ سے یا کسی عمل سے ملکی جغرافیہ تبدیل ہونا ہوتا تو کئی ممالک کی سرحدیں ہر روز تبدیل ہوتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بھی جدوجہد کی جا سکتی ہے اوریہی وہ جدوجہد ہے جو کہ ملکوں میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کرتی ہے۔
سردار اختر مینگل کو بھی جمہوری عمل سے منہ نہیں موڑنا چاہئے، جمہوری عملی میں حصہ لے کر ہی بلوچستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی جاسکتی ہے۔
اگر انتخابات میں دھاندلی کی بدولت ایجنسیوں کے حمایت یافتہ افراد جیت جاتے ہیں تو ان افراد کا راستہ روکنے کے لئے انہیں جمہوری طرح سے شکست دینا ہوگی، پرچی کی شکست۔ اگر جمہوری قوتیں اکٹھی ہو جائیں تو بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی سردار صاحب اور ان جیسے بہتری چاہنے والے دیگر بلوچ لیڈروں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر بلوچ قوم کے افراد کی گمشدگی میں ایجنسیوں کا ہاتھ ہے تو نان بلوچ افراد کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے کسی کو استعمال کر رہی ہیں؟ وہ کون سی طاقتیں ہیں جوفرقہ وارانہ حرکتیں اور کاروائیاں کرتی ہیں، اور ان قوتوں کو کون سے عوامل طاقت بخشتے ہیں؟

بقلم: افتخار احمد
روزنامہ جنگ