- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ڈرون حملے عام شہریوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں

اسلام آباد (بی بی سی) ایک امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے عام شہریوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں اور وہ مستقل خوف کے سائے میں زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کی امداد کرنے والوں کو بھی موقع پر ہی دوسرا ڈرون حملہ کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
منگل کی صبح جاری ہونے والی یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک دن قبل ہی امریکی ڈرون طیارے نے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں میزائل فائر کے آٹھ مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے جن میں سے بیشتر ازبک اور تاجک بتائے جا رہے ہیں۔
یہ رپورٹ امریکہ میں نیویارک یونیورسٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے مرتب کی ہے اور اس میں ’مقامی افراد کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان حملوں نے مقامی لوگوں کے معمولاتِ زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور لوگ خوف سے جنازوں میں بھی شرکت سے گریز کرتے ہیں۔
اسی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کے خوف سے بچوں کو سکولوں میں نہیں بھیجا جاتا یا ہلاکتوں کی وجہ سے کم ہو جانے والی آمدن میں اضافے کے لیے بچوں کو سکولوں کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پرواز کرتے ڈرون طیاروں کی آواز مقامی آبادی میں خوف کی علامت بن چکی ہے اور شہری شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان طیاروں کے حملوں میں املاک کی تباہی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں جو عام شہری ہلاک ہوتے ہیں ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آزاد ذرائع اور محققین کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب ان قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
رپورٹ میں ایسے ہی ایک حملے کی مثال مارچ دو ہزار گیارہ میں شمالی وزیرستان کے دتہ خیل علاقے میں ہونے والی کارروائی کی تفصیل کی شکل میں دی گئی ہے جس میں قبائلی رہنماؤں کے علاوہ مقامی تاجروں سمیت چالیس سے زیادہ افراد اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں مبینہ طور پر چار شدت پسند سوار تھے۔
اس رپورٹ میں معاون، برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیم ’ریپریو‘ کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکومت سے ڈرون حملوں میں سی آئی اے کے ساتھ تعاون کے لیے انٹیلیجنس معلومات فراہم کرنے کی پالیسی کی وضاحت کے لیے قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے۔
یمن، افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے سینکڑوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور رپورٹ کے مطاابق ان ڈرون حملوں میں عام طور پر دہشتگرد تنظیموں کے نچلی سطح کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
امریکی صدر اوباما ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ ان حملوں میں جن افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہ سرگرم دہشت گردوں کی فہرست پر ہوتے ہیں۔
ان حملوں میں طالبان اور القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں کو بھی مارا جا چکا ہے۔ اسی سال جون میں ہونے والے ایک اور ڈرون حملے میں القاعدہ کے سینیئر رہنما ابو یحییٰ اللبی کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نوی پلے نے ’فوجی قیادت کے کنٹرول سے باہر‘ ان حملوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کی جانب سے ان معاملات کی ہونے والی ایک تفتیش میں نتیجہ اخذ کیاگیا تھا کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد دہشت گرد ہوتے ہیں تاہم سٹینفورڈ یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق اس سے برعکس بہت مختلف نتائج پر پہنچی ہے۔
امریکی پالیسی کا ایک متنازع پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملے امریکی فوج نہیں بلکہ خفیہ ادارہ سی آئی اے کرتا ہے کیونکہ ہمسایہ ملک افغانستان کے برعکس پاکستان کوئی محاذِ جنگ نہیں ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اپنی حفاظت کرتا رہے گا۔
اسی سال امریکی صدر باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ اس لائحہِ عمل پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے بغیر امریکہ زیادہ شدید مداخلت پر مجبور ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں پر حکومت متعدد بار امریکہ سے احتجاج کر چکی ہے جب کہ ملک کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
پاکستان امریکہ سے مطالبہ کر چکا ہے کہ ڈرون حملوں کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے لیکن امریکہ کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں اور ان ڈرون حملوں کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے۔