- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

صبرا اور شاتیلا میں قتل عام کے 30 سال بعد بھی غم واندوہ کا ماحول

لبنان کے دارالحکومت بیروت کے نواح میں واقع فلسطینیوں کے دو مہاجر کیمپوں صبرا اور شاتیلا میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مہاجرین کے قتل عام کے واقعہ کی تیس سال بعد بھی یادیں زندہ اور تر وتازہ ہیں۔
جن لوگوں نے قتل عام کو بہ چشم خود ملاحظہ کیا تھا، ان کے لیے یہ کل کا واقعہ معلوم ہوتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے 18ستمبر 1982ء کو صبرا اور شاتیلا پر دھاوا بول دیا تھا اور لبنان کی مقامی عیسائی ملیشیا کے ساتھ مل کر اندھا دھند بمباری کر دی تھی جس کے نتیجے میں عالمی ذرائع کے مطابق آٹھ سو فلسطینی مارے گئے تھے جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین ہزار سے زیادہ افراد اس قتل عام کی نذر ہوئے تھے۔

دونوں کیمپوں میں مقیم فلسطینیوں کا ظالمانہ انداز میں قتل عام لبنان کی مسیحی ملیشیا فلانجسٹس کے لیڈر بشیر جمائیل کے قتل کے واقعہ کے ردعمل میں کیا گیا تھا۔ عیسائی ملیشیا کے ارکان غلط طور پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ فلسطینیوں نے مسٹرجمائیل کو قتل کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اسرائیل کی مسلح افواج کی مدد سے نہتے فلسطینیوں پر پل پڑے تھے۔

ایک فلسطینی مہاجرہ خاتون سہام بلقیس نے العربیہ سے گفتگو میں اس خون آشام کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ چھوٹے،بڑے کی کوئی تمیز نہیں کی گئی تھی اور مارے گئے افراد میں ایک ماہ کا بچہ بھی شامل تھا۔

ایک اور فلسطینی خاتون اُم شوقی نے دونوں کیمپوں پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے آناً فاناً دھاوا بول دیا اور بمباری شروع کردی تھی۔ ان کی کارروائی میں اسی علاقے میں مقیم لبنانی شہری بھی مارے گئے تھَے اور بیروت میں مقیم بعض شامی شہریوں کو بھی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔

شاتیلا کیمپ میں پیداہونے والی ایک اور فلسطینی خاتون ثناء سرساوی نے واقعے کے بارے میں بتایا کہ انھیں شاتیلا کیمپ سے صبرا تک پیدل چلنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ساری رات فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہی تھیں اور تین روز تک بم دھماکوں کی آوازیں بھی آتی رہی تھیں۔

ثناء سرساوی کی اسرائیلی فوج اور عیسائی ملیشیا کے حملے کے وقت عمر صرف انییس سال تھیں۔ وہ شادی شدہ تھیں لیکن وہ اس بات سے آج تک آگاہ نہیں ہو سکی کہ ان کے خاوند اور دیور کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا۔ وہ اب سرطان کی مریضہ ہیں۔

صبرا اور شاتیلا میں قتل عام کی بعد میں منظر عام پر آنے والی رپورٹس اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر حملے کے وقت کلسٹر بم استعمال کیے تھے۔ یہ بم چھوڑے جانے کے بعد اس تمام علاقے میں پھیل جاتے تھے جس سے زیادہ تباہی ہوئی تھی۔

اسرائیلی فوج کے مہاجر کیمپوں پر تباہ کن ظالمانہ حملے میں مارے گئے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے خاندانوں کے لیے تین عشرے کے بعد بھی اٹھارہ ستمبر کا دن غم واندوہ لے کر آتا اور ان کے زخم تازہ کر جاتا ہے۔

فلسطینی اس ظالمانہ کارروائی میں اپنے پیاروں سے تو محروم ہوئے ہی تھے لیکن عالمی برادری نے بھی ان کے غموں کا کوئی مداوا نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک پھسپھسا سا مذمتی بیان جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا تھا۔ اس کے خوف کا عالم یہ تھا کہ اس نے مذمتی بیان میں ظالم اورجارح حملہ آور کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا تھا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ