- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مفسرقرآن علامہ نعمت اللہ توحیدی رحمہ اللہ

حق وباطل کی لڑائی تاریخ کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ یقیناًاگر ’باطل‘ نہ ہوتا تو ’حق‘ اس قدر کھل کر سب کے سامنے پدیدار نہ ہوتا اور اہل حق مکمل صراحت و وضاحت کے ساتھ اپنی بات بیان کرنے کا موقع نہ پاتے۔ ایران میں قافلہ حق کے ایک عظیم شہسوار اور باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے مایہ ناز عالم دین مفسرقرآن علامہ نعمت اللہ توحیدی یوسفی رحمہ اللہ تھے۔ ان کی پوری زندگی قرآن پاک کی خدمت، بدعات وخرافات کی بیخ کنی اور صحیح اسلامی عقائد اور ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع میں گزری۔ زاہدانی اور ایرانی سنی مسلمانوں کے دلوں کو توحید وسنت کا گلشن بنانے والے مولانا توحیدی کی ہمہ جہت اور جامع شخصیت پر یقیناًبہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتاہے؛ اس مختصر مضمون میں ان کی حیات مبارکہ کے بعض گوشوں کو نمایاں کرکے ’’سنی آن لائن‘‘ کے معزز قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

 

نام اور آبائی علاقہ:
آپؒ کا اسم گرامی ’’نعمت اللہ‘‘ اور شہرت ’’توحیدی‘‘ نیز ’’یوسفی‘‘ ہے۔ علامہ توحیدی کے والد ماجد کا نام ’’ملا عبدالعزیز‘‘ تھا۔ آپ کی پیدائش ایک دیندار اور پابند صوم وصلوۃ خاندان میں سنہ 1373ہ۔ق (1954ء) میں ہوئی۔ آپ کا آبائی علاقہ ایرانی بلوچستان کے اہم اور مرکزی شہر ’خاش‘ کے قریب ’گوہرکوہ‘ ہے جہاں ’عیدمحمد‘ نامی بستی میں ان کی پیدائش ہوئی۔
آپؒ کے والد نے آپ کا نام ’نعمت اللہ‘ رکھا۔ جب آپ صرف پانچ سال کے تھے تو والدہ مکرمہ کا انتقال ہوا۔ جب آپؒ کی والدہ وفات کے قریب تھیں تو تمام اولاد کو بلایا؛ آپ نے اپنے پیارے کے پشت پر ہاتھ رکھ کہا: ’جا بیٹا! اللہ آپ کو عالم بنائے‘۔ اللہ تعالی نے ان کی والدہ کی دعا منظور کرکے ’نعمت اللہ‘ کو علامہ اور مفسر قرآن بنایا جن کے دورہ تفسیر میں شرکت کیلیے طلبا جوق در جوق دارالعلوم زاہدان کا رخ کرتے اور شعبان و رمضان میں قرآن پاک کے سرچشموں سے اپنی علمی پیاس بجھاتے۔

علمی اسفار:
اپنے آبائی علاقہ میں سرکاری سکول میں چھٹی جماعت تک پڑھنے کے بعد مولانا نعمت اللہ مرحوم نے ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان کا رخ کیا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے مولانا عبدالعزیز ملازادہ مرحوم اور مولانا یارمحمد رخشانی حفظہ اللہ سے حاصل کیا۔
سنہ1391ہ۔ق (1971ء) میں علامہ توحیدیؒ پاکستان تشریف لے گئے، وہاں کے معروف اور ممتاز دینی اداروں میں اعلی تعلیم کے حصول کیلیے آپ نے داخلہ لیا۔ شروع میں آپؒ نے تین برس تک ’جامعہ عثمانیہ‘ رحیم یارخان میں مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی جیسے اکابر علماء سے تعلیم حاصل کی۔ پھر آپؒ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کا رخ کیا اور جامعہ کے بانی و شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم سے استفادہ کیا۔ ایک سال کسب فیض کے بعد آپ دوبارہ رحیم یارخان کی جانب روانہ ہوئے۔ علامہ توحیدی نے پاکستان کے ممتاز دینی مدرسہ ’بدرالعلوم حمادیہ‘ رحیم یارخان میں وقت کے عظیم مفسر قرآن اور شیخ الحدیث مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ سے بہت استفادہ کیا اور اسی جامعہ سے سند فراغت حاصل کی۔ آپؒ شیخ القرآن والحدیث مولانا جاجروی رحمہ اللہ اور ان کے اساتذہ کے طرز پر درس قرآن دیا کرتے تھے۔

تدریسی خدمات:
طلب علم کیلیے طویل اور پربرکت اسفار کے بعد 1399ہ۔ق (1979ء) میں مولانا نعمت اللہ مرحوم وطن واپس ہوئے۔ شروع میں آپ ایک سال تک زاہدان کے مضافاتی علاقہ ’قلعہ بید‘ کے قریب ایک گاؤں میں دینی کتب پڑھاتے رہے۔ آپ نے اپنی تدریسی خدمات جاری رکھتے ہوئے اگلے سال زاہدان شہر کا رخ کیا جہاں آپ ’قاسم العلوم جام جم‘ میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ایرانی اہل سنت کے عظیم ترین دینی ادارہ دارالعلوم زاہدان کے رئیس الجامعہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کی دعوت پر علامہ توحیدیؒ دارالعلوم زاہدان منتقل ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک جامعہ میں اپنے شب وروز گزارنے لگے۔

علامہ توحیدی کے خصائل:
عقیدہ راسخ اور قوی ایمان:
علامہ نعمت اللہ توحیدیؒ کی سب سے ممتاز اور نمایاں خصوصیت جسے آپ کے معاصر علمائے کرام اور شاگرد تصریح کرتے ہیں یہ ہے کہ آپ کا ایمان اللہ پر بہت قوی تھا اور آپ کو اللہ کے وعدوں پر پکا یقین تھا۔ آپؒ ایک قوی مؤمن اور راسخ العقیدہ مسلمان کے حقیقی تصویر تھے۔ مولانا توحیدی ہمیشہ اس قرآنی آیت کی تلاوت کیا کرتے: ’’قْل لن یْصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ھو مولٰنا و علی اللہ فلیتوکل المؤمنون‘‘۔
اللہ کی راہ میں آپ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے؛ اگر آپ قید وبند سے ڈرایا جاتا تو آپ جیل کو قیدیوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی نئی جگہ سمجھتے۔ اگر آپ کو قتل کرنے کی دھمکی ملتی تو آپ شہادت کو فخر سمجھ کر دعوت الی التوحید مہم میں قتل ہوجانے پر فخر کا اظہار کرتے۔ آپ تواضع سے کہا کرتے: ’کیا میں خدمت دین کی راہ میں شہادت کے لائق ہوں؟‘ آپ ہرگز بدعات و خرافات پر سمجھوتہ کرنے کیلیے رضامند نہیں ہوتے اور ہر مجلس میں غلط عقائد و اعمال کیخلاف محو گفتگو ہوتے۔

طلب علم کے بے انتہا شوق:
مولانا توحیدی رحمہ اللہ ایک سچے طالب علم تھے۔ آپ ہمیشہ مزید علم حاصل کرنے کیلیے کوشاں تھے، آپ کی حرص اور پیاس حصولِ علم کیلیے لامتناہی تھی۔ مولانا سے منقول ہے کہ جب آپؒ پاکستان میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو ایک مرتبہ شدید بارش ہوئی اور پھر سیلاب آیا جس کی زد میں بہت سارے مکانات آئے، ان کا مدرسہ بھی متاثر ہوا۔ کہتے تھے: ’سیلاب سے ہمارا مدرسہ بھی زیرآب آیا، ہم بہت پریشان ہوئے اور روکر اللہ سے دعا کرتے کہ ہمارے مدارس دوبارہ تعمیر ہوجائیں تاکہ ہم پڑھائی جاری رکھیں۔ ہماری دعا ہمیشہ یہی تھی کہ اے اللہ ہمیں اس وقت تک واپس ملک نہ لے جا جب تک ہم اپنی حد تک علم حاصل کریں۔‘ آپ کے ایک استاد کہتے ہیں کہ ’’نعمت اللہ‘‘ رات کو آخری طالب علم تھا جو سوجا تھا اور صبح سب سے پہلے نیند سے اٹھتا۔

سادگی اور تکلف سے دوری:
مفسرقرآن علامہ توحیدیؒ کی زندگی میں سادگی خاص وعام میں مشہور تھی۔ آپ تکلف سے سخت اجتناب کرتے اور انتہائی سادہ زندگی گزارتے۔ آپ لوگوں سے کہا کرتے: ’کیوں اس قدر دولت و مال اکٹھے کرتے ہو؟ کیا آپ ابد تک اس دنیا میں رہیں گے؟ مال اندوزی میں اپنا قیمتی وقت ضائع مت کرو، آخرت کیلیے کوئی توشہ تیار کرو اور دارآخرت میں کوئی گھر بنانے کی فکر کرو جو ابدی ہے۔‘ آپ کی زندگی سلف صالح اور زاہد لوگوں کی زندگی کی روشن مثال تھی۔

شرک اور بدعات وخرافات پر سختی دکھانا:
علامہ توحیدی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ شرک اور بدعات بدترین ضلالت ہیں اور ہر مسلمان کو شرک و بدعت کے انسداد کیلیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ قرآن پاک کی روشن آیات میں غور وفکر سے آپ کو یہ سبق ملا تھا کہ توحید کا پیغام ہر انسان تک پہنچانا چاہیے۔ اس حوالے سے آپ کسی قسم کی نرمی نہیں دکھاتے۔ آپ اپنے اہل و اولاد اور تلامذہ و متعلقین سے برتاؤ میں انتہائی نرم خوئی کا مظاہرہ کرتے لیکن اسلامی عقائد کیخلاف کسی بات پر خاموش نہیں رہتے۔

عقائد اہل سنت والجماعت، توحید اور ناموس صحابہؓ سے دفاع، جہاد اور مجاہدین کی حمایت اور متعلقہ امور کی نشاندہی آپ کے اکثر خطابوں کے نچوڑ تھے۔ علامہ توحیدی اپنے بیانات میں عراق و افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یلغار اور ان کے کٹھ پتھلیوں کی کارستانیوں پر سخت تنقید کرتے اور دشمن کے مکر وفریب اور خطرناک عزائم سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔

سفرآخرت:
علامہ نعمت اللہ توحیدی رحمہ اللہ نے بعض علماء کی معیت میں صوبہ ہرمزگان کے شہر ’’جاسک‘‘ کا قصد کیا تھا تا کہ ایک دینی محفل میں شرکت کرکے وہاں خطاب بھی کریں، لیکن راستے ہی میں ان کی گاڑی تصادم کا شکار ہوئی اور ان کا دعوتی سفر، سفرِ آخرت میں بدل گیا۔ آپ کا انتقال سوموار بارہ ربیع الاول 1427ہ۔ق (2006ء) میں ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

علامہ توحیدی اور ان کے ساتھیوں کے سانحہ ارتحال نے ایرانی اہل سنت خاص کر زاہدانی عوام کو شدید حزن و الم سے دوچار کیا۔ ان کی نماز جنازہ اگلے دن تیرہ ربیع الاول کو زاہدان کی مرکزی عیدگاہ میں قائم ہوئی۔ شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف حسین پور نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے ان کی تشییع جنازے میں شرکت کی اور آپ کو زاہدان کی قبرستان ’’بہشت محمد(ص)‘‘ میں مفتی خدانظر رحمہ اللہ کے ساتھ دفنایاگیا۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و اسکنہ فسیح جناتہ۔ آمین۔