- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت عمر رضى الله عنہ کی عدلیہ کے لئے ہدایات

ملک میں موجودہ نظام انصاف پر میں نے ایک کالم 19/ مارچ کو جنگ اور نیوز میں لکھا تھا اور عدلیہ کی خود پیدا کردہ مجبوریوں کی وضاحت کی تھی۔ 2 اپریل کے کالم میں انہی روزناموں میں نظام قضاء اور موجودہ جمہوری نظام انصاف کے تضاد کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کئے تھے۔ آج اس کالم میں اُسی موضوع کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔ اہمیت کا آپ کو علم ہے کہ عوام کو نہ روٹی، نہ کپڑا، نہ مکان، نہ امن و امان اور نہ ہی سستا اور جلد اِنصاف مل رہا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ موجودہ دور میں ایسا نظام پوری طرح سے نافذ کرنا مشکل ہے مگر اس کی روح کو مدّنظر رکھ کر ہم موجودہ ناکام نظام عدل کو بہت بہتر بنا سکتے ہیں۔
میں نے ایک کالم میں حضرت عمر رضى الله عنہ کے ایک خط (ہدایت نامہ) کا تذکرہ کیا۔ اُنھوں نے کوفہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضى الله عنہ کو نظام قضاء اور انصاف کی صحیح اورجلد فراہمی کے لئے تفصیلی ہدایات دی تھیں۔ میں نے ان کے چندنکات بیان کئے تھے۔ میں اس خط کو بے حد اہم سمجھتا ہوں اور آج آپ کی خدمت میں، وکلاء کی خدمت میں اور معززجج صاحبان کی خدمت میں وہ پورا خط پیش کررہا ہوں۔ یہ علّامہ شبلی نعمانی کی کتاب اَلفاروق میں موجود ہے۔
”اللہ کی تعریف کے بعد۔ قضا ایک ضروری فرض ہے۔ لوگوں کو اپنے حضور میں، اپنی مجلس میں ، اپنے انصاف میں برابر رکھوتاکہ کمزور و غریب انصاف سے مایوس نہ ہو اور زور دار کو تمھاری رُو رعایت کی اُمید پیدا نہ ہو۔ جو شخص دعویٰ کرے اس پر بار ثبوت ہے اور جو شخص منکر ہو اس پر قسم۔ صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال حرام نہ ہو۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کرسکتے ہو۔ جس مسئلہ میں شبہ ہو اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر خیال کرو پھر قیاس لگاؤ، جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے اس کے لئے ایک معیاد مقرر کردو اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلاؤ ورنہ مقدمہ خارج کردو۔ مسلمان معتمد و معتبر ہیں سوائے ان افراد کے جن کو حد کی سزا میں درّے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہویا وفاداری و وراثت میں مشکوک ہوں“۔
حضرت عمر رضى الله عنہ کے اس فرمان میں قضا کے متعلق جو قانونی احکام مذکور ہیں حسب ذیل ہیں۔
”(1) قاضی کو عادلانہ حیثیت سے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہئے (2) بار ثبوت عموماً مدعی پر ہے (3) مدعا علیہ اگر کسی قسم کا ثبوت یا شہادت نہیں رکھتا تو اس سے قسم لی جائے (نوٹ ہمارے یہاں جھوٹی قسم کھانے والے بہت ہیں مگر سخت سزا ان سب کے ہوش ٹھیک کردے گی) (4) فریقین ہر حالت میں صلح کرسکتے ہیں لیکن جو امر خلاف قانون ہے اس میں صلح نہیں ہوسکتی (5) قاضی خود اپنی مرضی سے مقدمہ کے فیصل کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی کرسکتا ہے (6) مقدمہ کی پیشی کی ایک تاریخ معین ہونی چاہئے (7) تاریخ پر اگر مدعا علیہ حاضر نہ ہو تو مقدمہ یکطرفہ فیصل کردیا جائے (8) ہر مسلمان قابل ادائے شہادت ہے لیکن جو شخص سزایافتہ ہو یا جس کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو وہ قابل شہادت نہیں“۔ آپ رضى الله عنہ نے مزید فر مایا کہ صیغہ قضاء کی عمدگی فصل خصومات میں پورا عدل و انصاف ان باتوں پر موقوف ہے۔ ”(1) عمدہ اور مکمل قانون جس کے مطابق فیصلے عمل میں آئیں (2) قابل اور متدین حکام کا انتخاب (3) وہ اصول اور آئین جن کی وجہ سے حکام رشوت اور دیگر ناجائز وسائل کے سبب سے فصل خصومات میں رورعایت نہ کرنے پائیں (4) آبادی کے لحاظ سے قضاة کی تعداد کافی ہونا چاہئے کہ مقدمات کے انفصال میں حرج نہ ہونے پائے۔“ حضرت عمر رضى الله عنہ نے ان تمام امور کا اس خوبی سے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا تھا۔ قانون بنانے کی ضرورت نہ تھی کہ اسلام کا اصلی قانون قرآن مجید تھا کیونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں ہے۔ اس لئے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ حضرت عمر رضى الله عنہ نے قضاة کو خاص طور پر اس کی ہدایت لکھی۔ قاضی شریح کو ایک فرمان میں لکھا کہ اوّل قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو، قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہو تو حدیث اور حدیث نہ ہو تو کثرت رائے کے مطابق اور کہیں پتا نہ لگے تو خود اجتہاد کرو۔“
”حضرت عمر رضى الله عنہ نے قضاة کے انتخاب میں جو احتیاط اور نکتہ سنجی کی اور جو افراد اس مقدس عہدہ کے لئے چنے گئے وہ تمام اسلامی مملکت میں اعلیٰ کردار، قرآن، حدیث کے علوم میں ماہر تھے۔یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضى الله عنہ نے قضاة کے لئے امتحانات مقرر کئے“ ۔ قاضی اگرچہ حاکم صوبہ (گورنر والی) کا ماتحت ہوتا تھا اور ان لوگوں کو قضاة کا پورا اختیار تھا پھر بھی حضرت عمر رضى الله عنہ زیادہ احتیاط کے لحاظ سے اکثر خود قضاة کا انتخاب کرنے کے لئے خود ان سے ملتے تھے اور اکثر امتحان اور ذاتی تجربہ کی روشنی میں لوگوں کا انتخاب کرتے تھے۔ یہی نہیں لاتعداد دفعہ خود عدالت میں فریق مقدمہ بن کرگئے تاکہ قضاة کی کارکردگی سے واقف ہو سکیں۔ قضاة اور ان کے فرائض کے متعلق حضرت عمر رضى الله عنہ نے جس قسم کے قوانین اختیار کئے تھے اس کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ ان کے عہد خلافت میں بلکہ بعد میں بنو امیہ کے دور تک عموماً قضاة ہر قسم کی نا اِنصافی، ظلم، جانبداری کے الزامات سے پاک رہی“۔
جہاں تک مجھے علم ہے ہمارا موجودہ نظام عدل 1935ء میں رائج ہوا تھا اور پھر غالباً اس میں 1945ء میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ خدا جانے اس میں کیا تبدیلیاں آئیں، میری عمر تو ہائڈروجن، آکسیجن، کاربن، نیوٹران، الیکٹران، پروٹون کی موشگافیاں سمجھنے میں ہی گزر گئی۔ قانون پڑھنے اور سمجھنے کا کچھ موقع 1983ء میں ملا جب ہالینڈ میں میری غیرموجودگی اور مجھے اطلاع دیئے بغیر ایک جھوٹا مقدمہ دائر کرکے چار سال قید کی سزا سنا دی تھی۔ میرے معزز دوست، ماہر قانون و سابق وزیر قانون جناب ایس ایم ظفر نے حکومت کی مخالفت مگر میری ضد اور چیلنج پر کہ میں ہالینڈ یا دوبئی جاکر ظفر صاحب سے ہی پیروی کراؤنگا یہ مقدمہ لڑا تھا۔ ان کی مدد ڈاکٹر ولیم رسلز اور ڈاکٹر ڈین ڈرائیور نے کی تھی۔ میں باعزت بری ہوا تھا۔ اس وقت مقدمہ کی تیاری کے لئے میں نہ صرف ہالینڈ کے قوانین بلکہ بین الاقوامی قوانین کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا اور ظفر صاحب سے اس دلی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ لندن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری کی تیاری کرلوں مگر انھوں نے منع کیا کہ جو کام میں کررہا تھا وہ ملک کی بقا کے لئے نہایت اہم تھا۔
میں اس بات سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ ہم حضرت عمر رضى الله عنہ کے دور کا نظام قضاء آج نافذ کرسکتے لیکن جسطرح ہم آج بھی چودہ سو سال سے احکام الٰہی (کلام مجید) کی پیروی کررہے ہیں اور سنہری اصولوں پر، ہدایتوں پر عمل کررہے ہیں ہم اس پرانے نظام عدل کی روح کو بنیاد بنا کر اس پر عمل کرسکتے ہیں۔
میں نے پچھلے دنوں ہمارے موجودہ نظام عدل کی کمزوریوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا اور بتلایا تھا کہ ہمارا نظام عدل انگریز کا دیا ہوا 1919 ء کا نظام عدل تھا ۔ اس میں ترمیم کرکے 1935 ء میں نیا قانون بنایا گیا۔ 12 اپریل 1936 ء کو قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ 1935ء کا قانون معاہدہ ورسائی (Versailles)کی طرح ہتک آمیز تھا جس کے تحت جرمنی کو ایک غلام حکومت کا درجہ دیدیا گیا تھاجو دوسری جنگ عظیم اور 5کروڑ سے زیادہ اموات کا سبب بنا تھا۔ 25/نومبر1945ء کو قائداعظم نے پشاور میں طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جنگ عظیم کی وجہ سے وائسرائے گاندھی کیساتھ ملکر سازش میں کامیاب نہ ہوسکا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کا وفاقی حصّہ نافذ نہ کرسکا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا۔ آجکل کا نظام عدلیہ اُسی برطانوی نظام عدلیہ کی مسخ شدہ شکل ہے۔ انگلستان میں اُن کا نظام نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے اور ہمارے یہاں اس کا فقدان ہے۔ فقدان اس لئے ہے کہ قانون پر عمل کرنے والے مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں اور اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور قانون پر عمل درآمد کرانے والے ان کے ہر حیلے بہانے کو خوشی سے قبول کرکے معاملہ کو طول دیئے جاتے ہیں اور عوام اور ملک صرف چھ آٹھ مقدموں کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔مجھے نواسی کی گریجویشن تقریب میں شرکت سے روکنے پر لاہور ہائی کورٹ کا اسلام آباد کی انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ تین سال سے برف خانے میں پڑا ہوا ہے۔
مغربی ممالک میں جب بھی کوئی کمیشن قائم کیا جاتا ہے وہ وقت مقررہ میں کام مکمل کرکے رپورٹ پیش کردیتا ہے۔ ہمارے یہاں مہران بیس کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن، میمو کمیشن آپ کے سامنے ہیں۔ اسی طرح لاتعداد رشوت ستانی کے مقدمات اور گیلانی اور بابر اعوان کے مقدمات کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کسی بھی ادارہ کو ملک کے مستقبل اور عوام کی تکالیف کا قطعی احساس نہیں ہے۔
ایک سوال محترم مولانا فضل الرحمن صاحب اور ان کے نامزد محترم مولانا شیرانی (چےئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) سے پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ جب دستور میں صاف صاف لکھا ہے کہ اس ملک کا کوئی قانون قرآن و احادیث کے خلاف نہ ہوگا تو پھر مولانا شیرانی اور ان کے رفقائے کار کھلے سخت الفاظ میں دستور کی اس شق کو کیوں کالعدم قرار نہیں دیتے جس نے چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں اور جھوٹوں اور بددیانت لوگوں کو تمام جرائم کی سزا سے استثنیٰ دی ہے۔ کوئی عمل کرے یا نہ کرے آپ کا فرض ہے کہ اس آرٹیکل کو کالعدم قرار دیدیں تاکہ کبھی نہ کبھی کوئی اس کی روشنی میں راشیوں، چوروں کی گرفت کرسکے۔ یہاں معزز جج صاحبان اور دوسرے ا فراد کو سورة زاریات کی آیت 55 کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ”اور تم (بار بار) نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع (صحیح ہدایت) دیتی ہے“۔

ڈاکٹر عبدالقدیرخان
(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)