- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شیخ الاسلام: اتحاد عمل سے حاصل ہوتاہے نعروں سے نہیں

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے حالیہ خطبہ جمعے کے دوران ’اتحاد‘ و یکجہتی کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وحدت و اتحاد کو خاتم الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے عظیم نتائج میں سے قرار دیا۔

زاہدان کی جامع مسجد مکی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 1979ء کے عوامی انقلاب کے ابتدائی سالوں سے لیکر آج تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام کو ’’ہفتہ اتحاد‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ ہمارا بھی خیال ہے کہ اتحاد انسانوں کی ضرورت ہے۔ سارے لوگ ہمارے بھائی ہیں، بعض انسانیت میں بعض مذہب میں۔ ہمیں ان میں سے کسی کے ساتھ ٹھکراؤ کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

ایرانی اہل سنت کے بزرگ عالم دین نے مزیدکہا: بعض اوقات خونی رشتوں سے زیادہ دینی رشتہ اور اسلامی بھائی چارہ و یکجہتی اہم بن جاتے ہیں، مثلا اگر کسی کا حقیقی بھائی برے کردار کا حامل ہو یا اس کا عقیدہ خراب ہو تو اس سے ایک دینی اور مسلم بھائی بڑھ کر ہوگا۔

مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: تمام مسلم گروہوں، جماعتوں، تحریکوں اور مسالک کو متحد رہنا چاہیے، سب ایک دوسرے کا احترام کریں اور بے بنیاد باتوں کی بنا پر الزام تراشی اور کردارکشی پر اتر نہ آئیں۔ یہ بات اہم ہے کہ مسلم برادریاں جہاں بھی ہوں اتحاد کے سوا انہیں کوئی چارہ نہیں، اس کے بغیر وہ طاقتور اور مستحکم نہیں ہوسکیں گے۔ ابھی تک ہمارے دشمن سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ فرقہ واریت کو ہوا دیکر فسادات بپا کریں تاکہ اس طریقے سے ہمیں کمزور کریں۔ عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر لڑائی بدترین قسم کی لڑائی ہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزیدکہا: اسلامی اتحاد اور بھائی چارہ ایک عملی کام ہے جسے جامہ عمل پہنانا چاہیے۔ صوبہ سیستان بلوچستان کے سنی عوام بالاتفاق اتحاد اور باہمی پرامن زندگی کے خواہان ہیں۔ ایرانی اہل سنت کا خیال ہے اتحاد و بھائی چارہ بیکار اور کھوکھلے نعروں سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ عمل اور عملی اقدامات سے اتحاد کو ثابت کرنا چاہیے۔ حقیقی اتحاد کی صورت میں ایک دوسرے پر الزام لگانے اور کردارکشی کے منفی سلسلے ختم ہوجائیں گے۔ اتحاد کے متمنی اور اس راہ کے مخلصین ہرگز اپنے ہم وطنوں کے مسلک کے بارے نہیں پوچھتے اور مخصوص مسالک و قومیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھتے۔

اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اتحاد لانے کے اسباب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ان دو مسلکوں کے درمیان بہت ساری مشترکہ باتیں موجود ہیں جو بھائی چارہ اور اتحاد کے فروغ کیلیے اہم فیکٹرز ہیں۔ اگرچہ شیعہ و سنی مسالک کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف بھی پایا جاتاہے، لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم نازل فرماکر اتمام حجت فرمادی، اب ہرکوئی اپنے عقیدے کا ذمہ دار خود ہوگا اور کون صحیح کہتاہے اور کون غلطی پر ہے؟ اس کافیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

’انقلاب‘ آئین کے مکمل نفاذ سے محفوظ رہ سکتاہے:
ممتاز عالم دین نے ایرانی انقلاب کی سالگرہ(22بہمن11،فروری) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی قوم کیلیے عظیم نعمت تھی، قوم کے سیاسی و اجتماعی شعور کی وجہ سے وقت کا ایک آمر سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری ایرانی قوم اسلام کی خاطر سڑکوں پر نہیں نکلی، بہت سارے لوگ صرف آمریت کیخلاف سرگرم تھے اور رفاہی و اجتماعی ترقی کے خواہاں تھے، لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد انہوں نے بھی ’اسلامی نظام‘ کے حق میں ووٹ ڈالا تا کہ عزت و راحت کی زندگی انہیں میسر آئے۔ ہم نے بھی کسی صدر یا رکن پارلیمنٹ کو ثواب کیلیے ووٹ نہیں دیاہے، لوگ بھی اپنا ووٹ اجر وثواب حاصل کرنے کیلیے نہیں ڈالتے بلکہ ان کی کچھ امیدیں ہوا کرتی ہیں۔

ایرانی اہل سنت کے سب سے زیادہ با اثر رہنما مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: 1979ء کے عوامی و اسلامی انقلاب قوم کی وحدت و یکجہتی کی وجہ سے کامیاب ہوا اور اس اتحاد کا انقلاب کے مقاصد حاصل کرنے اور اس کی نجات و حفاظت میں کلیدی کردار ہوسکتاہے۔ اگر قومی آئین کے تمام آرٹیکلز اور شقیں نافذ نہ ہوں تو قومی اتحاد خطرے میں ہوگا۔ اگرچہ آئین کی بعض شقوں کی ترمیم ضروری ہے لیکن پھر بھی اس کا مکمل نفاذ سیاسی جماعتوں اور تمام مسالک کو آزادی فراہم کرتاہے۔

شیعہ علماء و حکام کیلیے نصیحت:
ایران کے شیعہ علماء اور اقتدارکے ایوانوں پر براجماں افراد کو مخلصانہ نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: شیعہ علماء اور حکام اپنی پالیسیوں اور مواقف پر نظرثانی کریں، جانبدارانہ پالیسیز اور ذاتی خیالات کو قانونی شکل دینے اور آئین کی تمام شقوں کے نفاذ سے گریز کریں۔ کیاہی اچھا ہوتا کہ کسی حکومت کو ہمت ہوتی اپنی کابینہ میں سنی وزیر بھی انتخاب کرتی، لیکن انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک ایسا نہیں ہوا حالانکہ اہل سنت ایران کی کل آبادی کی بیس فیصد سے زائد ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران انصاف کے حوالے سے دیگر قوموں کیلیے مثالی کردار ادا کرسکتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ ’سیستان‘ کے علاقے میں چالیس فیصد سے زائد سنی مسلمان رہتے ہیں، لیکن انقلاب کی کامیابی سے لیکر آج تک اس خطے میں کسی سنی شہری کو کسی ادارے کی سربراہی یا نیابت نہیں دی گئی ہے، اب تک کوئی سنی اس علاقے سے اپنے عوام کی پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ یہی صورتحال ’خراسان‘ میں ہے جہاں کئی شہروں میں سنی مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن حکومتی اداروں میں اہم پوسٹوں کو ان کیلیے شجرہ ممنوعہ قرار دیاگیاہے۔ حکام کو عوام کی بات سننی چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ایران کے سنی مسلمان اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور اتحاد و یکجہتی کے خلاف نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی بات نہیں ٹالنا چاہیے۔

سنی دینی مدارس و مساجد کی آزادی و استقلال پر زور دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ایران کی سنی برادری کو امید ہے کہ ان کے دینی مراکز آزاد و مستقل رہیں گے۔ شیعہ علماء اور صاحبانِ زر و زور کو ہماری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ اپنی بعض پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے اپنے مواقف میں تبدیلی لائیں۔ انہیں دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، وسعت ظرفی و فراخدلی کا مظاہرہ کرکے مخالفین اور اپوزیشن جماعتوں کی بات اور موقف بھی سنیں۔ اگرایسا کرنا ان کیلیے مشکل ہے تو کم از کم خیرخواہ لوگوں کی نصیحتوں پر کان دھریں۔

بھائی چارہ اور اصلاح ہمارا طریقہ ہے:

خطیب اہل سنت زاہدان نے خاش میں علمائے کرام اور قبائلی عمائدین کے قابل قدر احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: خاش میں ایک سکیورٹی عہدیدار کے فرقہ وارانہ اظہارات اور مکی مسجد و دارالعلوم زاہدان کے حوالے سے ہرزہ سرائی کے ردعمل میں خاش کے علمائے کرام اور قبائلی عمائدین نے احتجاج کیا جن کا میں شکریہ ادا کرتاہوں۔

انہوں نے کہا: ہمارا طریقہ اور منہج سب کیلیے واضح ہے؛ ہم اتحاد اور اصلاح و ترمیم کے خواہان ہیں۔ ہمارا خیال ہے موجودہ حالات کے تناظر میں سسٹم میں کچھ تبدیلی و ترمیم ناگزیر ہے۔ ہم تخریب کار اور فرقہ پرست لوگ نہیں ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے ہر دور میں اصلاح کیلیے کوشش کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ ایسے جلسوں میں جن کا عنوان ’بصیرت‘ رکھا جاتاہے دونوں مسالک کے اہل بصیرت اور دانا لوگوں کو بلانا چاہیے نہ کہ تنگ نظر اور فرقہ پرست عناصر کو جو فرقہ واریت کے فروغ میں مصروف ہوتے ہیں۔

اپنے بیان کے آخر میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سنی ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط لکھ کر آئین کی بعض معطل شقوں کے مکمل نفاذ اور ایک امتیازی آرٹیکل کی ترمیم کی درخواست کی تھی جس کی رو سے صرف شیعہ شہری ہی صدارتی انتخابات میں امیدوار بن سکتے ہیں اور سنیوں سمیت دیگر مسالک و مذاہب کے پیروکار صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ انہوں نے کہا: سنی ارکان پارلیمنٹ نے جو کام کیاہے یہ ان کی ذمہ داری ہے اور انہوں نے ذمہ داریت کا ثبوت پیش کیاہے۔