- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

زرداری اور کرزئی ۔ عجیب مماثلتیں

شخصی حوالوں سے دونوں یکسر مختلف شخصیات ہیں لیکن سیاسی حوالوں سے افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے مابین غیرمعمولی مماثلتیں موجود ہیں۔ لگتا ہے کہ آصف علی زرداری کی بھی وہی حالت ہونے کو ہے جو افغان صدر حامد کرزئی کی ہوچکی ہے۔
کرزئی صاحب بلا کے ذہین ہیں اور زرداری صاحب بھی۔ کرزئی صاحب افغانستان کے نمبرون ”سیاستدان“ ہیں اور زرداری صاحب پاکستان کے۔کرزئی صاحب نے افغانستان میں قومی مفاہمت کے نام پر کئی جرائم پیشہ افراد کو ساتھ ملا لیا تھا اور زرداری صاحب بھی یہی کام کررہے ہیں۔ حامد کرزئی نے ساری زندگی مجاہدین اور پھر طالبان کی ہمراہی میں جدوجہد کرتے ہوئے گزاری تھی لیکن نائن الیون کے بعد وہ جس سیاسی بساط کے ذریعے افغانستان کے صدر بنے وہ امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے (پہلی بون کانفرنس کے ذریعے)مل کر بچھائی تھی۔ اسی طرح زرداری صاحب بھی پیپلزپارٹی جیسی عوامی جماعت کے لیڈر بنے لیکن جس این آر او کے تحت اس مقام تک پہنچے وہ امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مابین طے پائی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد حامد کرزئی کی کوشش تھی کہ طالبان اور حزب اسلامی کے ساتھ مصالحت کی جائے لیکن امریکیوں کے دباؤ پر انہوں نے ایسا نہیں کیا جبکہ پاکستان میں دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ آصف علی زرداری میاں نوازشریف کو ساتھ رکھتے لیکن انہوں نے ان کے معاملے میں مسلسل چالاکیوں سے کام لیا۔ آج دس سال بعد حامد کرزئی کو طالبان اور حزب اسلامی کی ضرورت ہے لیکن وہ ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور پاکستان میں زرداری صاحب کو نوازشریف کی اشد ضرورت ہے لیکن ان کے دست راست خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ زرداری صاحب قرآن شریف کی طباعت کرنے والی پوری کمپنی کو سرپر اٹھا کر آجائیں تو بھی ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
شروع میں حامد کرزئی اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ امریکہ بہرصورت ان کے ساتھ رہے گا چنانچہ انہوں نے پاکستان کو ناراض کر ڈالا اور زرداری صاحب بھی شروع میں اس غلط فہمی کے شکار رہے چنانچہ اپنی حلف برداری میں کرزئی صاحب کو بلا کر یا پھر ہندوستان سے متعلق روایتی موقف کے خلاف بیانات دیکر انہوں نے بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے چھیڑخانی شروع کردی۔ حامدکرزئی کو امریکیوں نے دھوکے دیئے یا پھر انہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مار پڑی تو وہ امریکہ مخالف بن گئے اور زرداری صاحب کو یہاں مکّا دکھایا گیا تو انہوں نے بھی خارجہ پالیسی (بالخصوص ہندوستان اور افغانستان سے متعلق) اسٹیبلشمنٹ کے سپرد کردی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب آئے تو کرزئی نے امریکہ کو ناراض کرلیا۔ وہ ان کے پیچھے پڑ گیا اور ردعمل میں وہ بھی جذباتی ہوگئے چنانچہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ کمیشن بنا کر امریکہ کی مرضی کے خلاف طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں شروع کردیں‘ اسی طرح زرداری صاحب مکمل طور پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جاکر امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے ( روس کے دورے اور ایران کے ساتھ قربت کی کوشش‘ پارلیمنٹ کی قراردادیں ‘ بون کانفرنس میں عدم شرکت وغیرہ) ۔ بلا کے ہوشیار ضرور ہیں تاہم حامد کرزئی یہ سمجھ نہیں پائے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ کھیل تو سکتی ہے لیکن ایک خاص حد سے زیادہ اس سے ٹکر نہیں لے سکتی ‘ چنانچہ وہ مایوس ہوکر دوبارہ پاکستان مخالف کمیپ میں چلے گئے۔ اسی طرح زرداری صاحب یہ سمجھ نہیں پائے کہ قریب جانے کے باوجود ان کے ماضی کی وجہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان کو دل سے قبول نہیں کرسکتی۔
استاد ربانی کی قتل کے بعد حامد کرزئی نے دوبارہ امریکی اور ہندوستانی کیمپ میں جانے کی کوشش کی لیکن اب وہ ان دونوں کے لئے بھی ناقابل اعتبار بن چکے تھے چنانچہ انہیں امریکہ نے کوئی خاص توجہ دی اور نہ ہندوستان نے۔ دوسری طرف دوبارہ پلٹا کھانے کے بعد وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ناقابل اعتبار بن گئے۔ جیو کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کی بات کرکے دوبارہ پاکستانی کیمپ میں آنے کے لئے زوردار پیغام دینے کی کوشش کی لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اسے کوئی توجہ نہ دی۔ ادھر اس بیان کے بعد وہ مغرب اور ہندوستان کے لئے ایک بار پھر نشانہ نمبرون بن گئے۔ افغانستان کے اندر ان کی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ طالبان امریکہ سے تو بات کرنے کو تیار ہیں لیکن ان کو کوئی اہمیت دینے پر آمادہ نہیں۔ اب آصف زرداری بھی بڑی تیزی کے ساتھ اس انجام سے دوچار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ابتداء میں انہوں نے امریکہ کی شہ پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کیا۔ پھر ان کے قدموں میں آگرے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ اور آرمی ان کے ساتھ ہے چنانچہ میاں نوازشریف اورمولانا فضل الرحمن جیسے سیاسی ہمسفروں کو بھی ناراض کردیا اور عوام یا پھر ملکی مسائل کو بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ پچھلے چند ماہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کے لئے یا پھر بھٹو بننے کے شوق میں انہوں نے امریکہ کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ چنانچہ آج جب میمو گیٹ کے بعد اسٹیبلشمنٹ ان کے گرد گھیرا تنک کررہی ہے تو امریکہ ان کی مدد کو آنے کو تیار نہیں بلکہ بعض اوقات وہ معاملے کو اور بھی گرماتا نظر آتا ہے۔ حامد کرزئی کی ذہانت اور مہارت میں کوئی کلام نہیں لیکن وہ حد سے زیادہ ہوشیاری کی کوشش میں بیک وقت کئی کشتیوں پر سواری کی کوشش کررہے تھے چنانچہ آج کہیں کے نہیں رہے۔ آصف علی زرداری کی سازشوں اور چالوں کا بھی کوئی ثانی نہیں لیکن وہ بھی بیک وقت کئی کشتیوں پر سواری کی کوشش کی غلطی کے مرتکب ہوئے۔
حامد کرزئی یہ سمجھ بیٹھے کہ امریکہ ان کی خاطر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دشمنی مول لے گا حالانکہ ہزار سال گزر جائیں تو بھی امریکہ کے لئے افغانستان سے پاکستان اور حامد کرزئی جیسوں سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ زیادہ اہم ہوگی۔ اسی طرح زرداری صاحب یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کچھ بھی کرلیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں امریکہ ان کے ساتھ رہے گا حالانکہ وہ کتنا بھی زیادہ تابعدار بن جائے لیکن جب وہ امریکہ کی دلچسپی کے ایشوز میں کچھ کرنہیں سکتے تو پھر امریکی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر ان کو فوقیت کیوں دیں گے۔ چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے اور حامد کرزئی بے خبری اور بے بسی کے عالم میں تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ دن دور نہیں کہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یک جان دوقالب نظر آئیں گے اور آصف علی زرداری کسی جیل میں پڑے یا پھر بیرون ملک بیٹھے ہاتھ مل رہے ہوں گے ۔
امراللہ صالح‘ عبداللہ عبداللہ اور رنگین دادفر سپانتا جیسے مشیر جنہوں نے حامد کرزئی کو اس مقام تک پہنچایا ‘ آج ان کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اسی طرح ڈاکٹر قیوم سومرو‘ ڈاکٹر بابر اعوان‘ ڈاکٹر عاصم اورڈاکٹر رحمن ملک جیسے مشیر جنہوں نے آصف علی زرداری کو اس مقام تک پہنچایا ‘ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
حامدکرزئی ایک عرصہ سے نجی محفلوں میں بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے بھائی کو امریکہ نے قتل کروایا اور اب زرداری صاحب بھی کونڈولیزارائس کا نام لے کر اشاروں کنایوں میں یہ بات کہنے لگے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں امریکہ ملوث ہے۔
حامد کرزئی اتفاقات کے نتیجے میں افغانستان کے صدر بنے تھے اور اللہ نے ان کو تاریخ میں اپنا نام افغانوں کے مسیحا کے طور پر لکھوانے کا شاندار موقع فراہم کیا تھا لیکن انہوں نے حد سے زیادہ ہوشیاری کی کوشش میں اس کو ضائع کردیا جبکہ آصف علی زرداری کو بھی اللہ نے ایک حادثے کے نتیجے میں پارٹی اور ملک کا مختار بنا کر اپنے گناہوں کی تلافی اور پاکستان کو صحیح سمت پر ڈالنے کا نادر موقع فراہم کیا تھا لیکن روایتی طاقت یا پھر ہوشیاری کے زعم میں مبتلا ہوکر وہ یہ موقع ضائع کربیٹھے۔

سلیم صافی

(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)