- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’شریعت پر عمل کیبعد، نہی عن المنکر ہرمسلمان کی دوسری ذمہ داری ہے‘

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید، خطیب اہل سنت زاہدان، نے اپنے ہفتہ رفتہ کے خطبے کا آغاز قرآن پاک کی آیت: «وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [التوبه:۷۱]کی تلاوت سے کرتے ہوئے معاشرے کی اصلاح و ہدایت کیلیے سوچ وفکر اور منصوبہ بندی کے فقدان کو عصرِحاضرکے عظیم نقصان قراردیا اور سب کو اس بارے میں فکرمند رہنے کی نصیحت کی۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل جس چیز کی شدید کمی محسوس ہورہی ہے وہ معاشرے کی اصلاح و رہنمائی کی سوچ و فکرہے۔ متقی وپرہیزگار شخص سب سے زیادہ اپنی اصلاح و ارشاد کی سوچ میں ہوتاہے، اگرچہ یہ کام ایک ذاتی ذمہ داری ہے لیکن ناکافی ہے۔ ہرمسلمان کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ پورے معاشرے کی اصلاح، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی کوشش کرے۔ اصلاح معاشرہ ایسی ذمہ داری ہے جو قرآن وسنت کی رو سے ہر مسلمان کے ذمے پر ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: ہم میں سے کوئی جب ایک شخص کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتاہے، اور اسے معلوم ہے کہ اگر نصیحت کرے تو فائدہ مند ہوگا تو شریعت کی رو سے اس کو نصیحت کرنا اور گناہ سے باز رکھنے کی ترغیب حکمت و تدبیر کیساتھ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ مجلسوں میں غیبت اور جھوٹ جیسے گناہوں سے لوگوں کو منع کریں، خاموشی گناہ شمار ہوگی۔ اگر آپ کے پڑوسی یا اولاد و اہل خانہ میں سے کوئی نماز ادا نہیں کرتا اور آپ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو روزقیامت آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

خطیب اہل سنت نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتوں میں ردعمل دکھانا چاہیے، اگر آپ خاموشی کی پالیسی اپنائیں گے تو آپ کے آس پاس کے لوگ کبھی اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کریں گے لیکن اگر انہیں پتہ چلے کہ آپ ناخوش ہیں اور مخالفت کا اظہار کررہے ہیں تو وہ ضرور اپنی اصلاح و تزکیہ کیلیے فکرمند ہوجائیں گے۔

گناہ کے منفی اثرات پورے معاشرے پر:

مولانا عبدالحمید نے ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ظلم اور گناہ کے منفی اثرات پورے معاشرے کے افراد کے دامن لیں گے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد گناہوں اور معاصی سے چشم پوشی کرے اور ظلم کیخلاف آواز نہ اٹھائے تو ان برے اعمال کی نحوست انہیں بھی نہیں چھوڑے گی۔ بلکہ تمام افراد فتنہ و مصیبت سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ» (اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔ )، [انفال:۲۵] ؛ اس لیے ہمیں ان اشخاص کی نجات کی کوشش کرنی چاہیے جو گناہوں میں مبتلا ہیں اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اگر کوئی مسلمان نماز و روزہ اور حج جیسی عبادات کا اہتمام کرے لیکن معاشرے میں شایع گناہوں اور ظلم و جبر کے حوالے سے خاموشی کو ترجیح دے تو یہ نیک اعمال اس کیلیے زیادہ قیمتی نہیں ہوں گے۔ اسے قیامت کے دن ظلم پر آنکھیں بند کرنے کیلیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا: گناہ و معصیت کیخلاف آواز بلند کریں، دوسروں کو ان کے عیبوں کے بارے میں یاددلائیں لیکن خیال رکھیں کہ تہمت و الزام کا ارتکاب مت کریں چونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

ممتاز عالم دین نے بعض گھروں میں ’’آمریت‘‘ کے راج پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہر انسان کو تنقید قبول کرنا چاہیے، بعض گھروں میں آمریت کی فضا قائم ہے۔ لڑکیاں شکایت کرتی ہیں کہ والد مشورت کے بغیر ان کے لیے آنے والے رشتے قبول کرتے ہیں۔ والد کی ذمہ داری ہے بیٹی کی مرضی کے بغیر کسی کو رشتہ نہ دے۔

اقوام و مذاہب کے حقوق پامال کرنے والے عذابِ الہی سے دوچارہوں گے:
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبے کے ایک حصے میں تاکید کرتے ہوئے کہا: آج کل مشرق وسطی میں جو آوازیں سننے میں آرہی ہیں یہ سب ظلم و جبر کیخلاف ہیں۔ اللہ تعالی ظالموں کو رسوا و ذلیل کرے گا۔ کل کے متکبر اور مغرور حکمران آج عدالتوں میں ذلت و خفت کیساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ سابق سوویت یونین جو اپنی ریڈآرمی پر فخر کرتا اور ’’اسٹالین‘‘ جس نے پچیس ملین افراد کا قتل عام کیا اس کا کیا حشر ہوا؟ امریکا اور اسرائیل جو آج لوگوں پر بم برساتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسی نہ کسی دن عذاب خداوندی سے دچار ہوں گے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اللہ رب العزت آمریت کا بوریابستر گول کرانے والا ہے اور جن حکمرانوں نے عوام پر ظلم کیا ہے، قومیتوں اور مذاہب و مسالک کو ان کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے، انہیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی ان کے سر پر بھی گرے گی۔ بلاشبہ اللہ تعالی کی کسی سے کوئی رشتہ داری و قرابت نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالی یہ دیکھتا ہے کہ انسان کس رستے پر چلتاہے، اگر کوئی ظلم و جبر کی راہ پر چلے تو اللہ کی سزا سے نہیں بچے گا بلکہ دوسروں کیلیے عبرت بن جائے گا۔