- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید کا دورہ تہران؛ ’’سنی آن لائن‘‘ سے گفتگو

گزشتہ دنوں نامور سنی رہنما شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے ایرانی دارالحکومت تہران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے اسباب و محرکات جاننے کیلیے ہم نے حضرت کا انٹرویو لیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

سنی آن لائن: گزشتہ دنوں آنجناب نے تہران کا دورہ کیا، اس کی وجوہات کیا تھیں؟

مولانا عبدالحمید: اس سفر کا مقصد علاج اور چیک اپ تھا؛ الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور اللہ کے کرم سے کوئی بیماری نہیں ہے۔

سنی آن لائن: اس سفر میں کن شخصیات سے ملاقات ہوئی؟

مولانا عبدالحمید: کسی حکومتی عہدیدار سے ملاقات نہیں ہوئی، البتہ بعض تہرانی سنیوں سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں سے بعض سنی ہم وطنوں سے بھی ملاقات ہوئی جنہیں میری تہران آمد کا علم ہوا تھا اور ملنے کیلیے وہ تہران پہنچے تھے۔

سنی آن لائن: ان ملاقاتوں میں کن کن مسائل پر بات ہوئی؟

مولانا عبدالحمید: اہم ترین موضوع جس پر بحث ہوئی سنی شہریوں کی بے روزگاری تھی۔ سنیوں کے تعلیم یافتہ افراد روزگار کیلیے پریشان ہیں، انہیں سرکاری محکموں سے درو رکھاجاتاہے اور ملازمتوں کی تقسیم میں امتیازی سلوک برتاجاتاہے۔ یہ کام آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

دوسری بات جو سامنے آئی اہل سنت کی ’’مذہبی آزادی‘‘ تھی۔ ایک عرصے سے حکومتی ادارے اہل سنت کی مساجد و مدارس کے داخلی امور میں مداخلت کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سب ’’اصلاح‘‘ کے نام پر ہورہاہے جو آئین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ درحقیقت حکومت اہل سنت کی مساجد و مدارس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔

جن شخصیات سے ملاقات ہوئی انہوں نے مذہبی و تعلیمی تقریبات کو مقامی حکام کی جانب سے محد ود کرنے کے حوالے سے پریشانی کا اظہارکیا۔سنی اکثریت علاقوں میں ہر چھوٹی تقریب کیلیے پیشگی اجازت ضروری قراردی جارہی ہے تاکہ اہل سنت کو محدود سے محدود کیاجائے۔

’’تہران میں اہل سنت کی مسجد‘‘ کا مسئلہ بھی زیربحث آیا۔ تہران کی سنی برادری جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اس حوالے بہت پریشان ہے۔ انہیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ تہران مین رہنے والے سنیوں اور اپنی ضرورت کیلیے تہران آنے والے سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی پریشانی و دردِسر مسجد و عبادتگاہ کی غیرموجودگی ہے۔

آخر میں سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذکورہ مسائل خاص کر حکومتی امتیازی سلوک اور اہلسنت کے مذہبی وقومی حقوق کے مسئلے کو قانونی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔