- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

7 ستمبر ۔ قادیانیت انصاف کے کٹہرے میں

7ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر ایک یادگار اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ يہ دن ہر سال ستمبر کے مہینے میں امت مسلمہ کو اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدۂ ختم نبوت کی حقانیت کا برملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا‘ قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا۔
عقیدۂ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے۔ ختم نبوت کا منکر باالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہے“ عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے“ اس کے بغیر کسی بھی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ مختلف ادوار میں ردائے نبوت پر دست درازی کی کوشش کی گئی لیکن ان جھوٹے مدعیان کا انجام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ملعون اسود عنسی سے لے کر دجال قادیان تک بہترّ (72) کے قریب بدبختوں نے نبوت کی عظیم فصیل میں نقب لگانے کی کوشش کی۔ ان تمام کے حالات امت مسلمہ کے سامنے ہیں۔ بعض دجالوں کے خلاف جہاد کیا گیا تو بعضوں کو دیس نکالا دیا گیا اور بعض کذابوں کے خلاف تردیدی مہمیں چلائی گئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نبوت کے ہر مدعی کو کذاب اور دجال قرار دے کر اسلام کی مہکتی ہوئی بستی سے کوسوں دور پھینک دیا گیا۔ جب 1910ءمیں دجال قادیان مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اس وقت کی انگریز حکومت نے اس فتنے کی نہ صرف مکمل سرپرستی کی بلکہ اپنے اس ”خود ساختہ“ پودے کو خوب پروان چڑھایا۔
مرزا کے اس دعوے کا 1929ءتک تو علماءکرام نے اپنے اپنے طریقوں سے مقابلہ کیا 1929ءمیں امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر جید علماءکرام کی مشاورت اور سرپرستی میں باقاعدہ طور پر ایک جماعت مجلس احرار اسلام کا قیام عمل میں لایا گیا۔ احرار کا بنیادی منشور انگریزی اقتدار کا خاتمہ‘ عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا محاسبہ تھا۔ 1947ءکے بعد قادیانیوں نے چناب نگر (ربوہ) کو اپنا مرکز بنالیا اور نئے طریقوں سے یہاں پر بھی اپنا جال پھیلانا شروع کردیا۔ دوسرا غضب یہ ہوا کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی کو بنادیا گیا۔ اس نے اپنے سرکاری منصب کا بھرپور ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانیوں کو نہ صرف کلیدی عہدوں پر تعینات کیا بلکہ ان کے لیے مراعات اور تحفظات کے انبار لگادیے۔
قادیانیوں نے 1952ءکو اپنا سال قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اندر قادیانی اسٹیٹ بنانے کے لیے اپنی تمام تر کفریہ سرگرمیاں تیز کردیں۔ سال گزر گیا لیکن قادیانی اپنے مکر و منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ 1952ءکی آخری رات حضرت مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے چنیوٹ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب فرماتے ہوئے کہا: ”قادیانیو! 1952ءگزرچکا‘ تمہاری تمام پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں‘ اب میں بخاری اعلان کرتا ہوں کہ 1953ء”تحفظ ختم نبوت“ کا سال ہے“‘۔ مجلس احرار اسلام کی آواز پر کراچی میں قائم ہونے والی ”کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت“ کے تحت پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم شروع ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم ایک بہت بڑی تحریک میں بدل گئی۔ اس تحریک میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ یہی وہ تحریک ہے جس میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور 10ہزار سے زائد مجاہدین ختم نبوت کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ جن کے وارث مجلس احرار اسلام کے امیر سید عطاءاللہ شاہ بخاری بنے۔ اس طرح مجلس احرار اسلام دنیا کی وہ واحد جماعت بن گئی جس کے ”تحفظ ختم نبوت“ کے لیے ایک ہی دن میں 10ہزار سے زائد کارکنان نے جام شہادت نوش فرمایا۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ”میں نے اس تحریک کی صورت میں ایک ٹائم بم نصب کردیا ہے“ وقت آنے پر بم ضرور پھٹے گا اور فتنۂ مرزائیت کو اس کے انجام سے دوچار کرے گا“۔ 1974ءمیں نشتر میڈیکل کالج کے طلبا کا ایک گروپ سیر و تفریح کی غرض سے پشاور جارہا تھا۔ جب ٹرین چناب نگر (ربوہ) پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ نوجوان طلبا اس سے مشتعل ہوگئے جس کی بنا پر طلبا اور قادیانیوں میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ طلبا نے ختم نبوت زندہ باد‘ قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ طلبا کی واپسی پر قادیانیوں نے اپنے خفیہ ذرائع سے طلبا کے ڈبے پر نشان لگادیا۔ قادیانی دیسی ہتھیاروں سے لیس ہوکر طلبا کے ڈبے پر ٹوٹ پڑے اور ان کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا جس سے طلبا لہولہان ہوگئے ان کا سامان لوٹ لیا گیا۔ مسلمانوں نے اس کھلی غنڈہ گردی پر زبردست احتجاج کیا اور طلبا کی مرہم پٹی کرائی گئی‘ اگلے روز یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہرین کا طوفان امڈ آیا‘ جس کے آگے بند باندھنا مشکل ہوگیا۔ عوام کے اس پرُزور احتجاج پر حکومت کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد نے اس واقع پر شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے فرمایا ”ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام مسالک کے علماءمتفق ہیں کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں“ قادیانی اس زبردست تحریک سے بوکھلاگئے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے کئی جگہوں پر دستی بموں سے حملے کیے۔
حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ مرکزی اور مقامی سطحوں پر قائدین کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں یہ سب دیکھ کر طلباءتنظیمیں بھی میدان میں آگئیں۔ تحریک طلبا اسلام‘ جمعیت طلبا اسلام‘ انجمن طلبا اسلام اور اسلامی جمعیت طلبا نے اس تریک میں زبردست کردار ادا کیا۔ تحریک طلبا اسلام کے مرکزی صدر ملک ربنواز چنیوٹی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تحریک پہلے سے بھی زیادہ پھیل گئی۔ آخر کار حکومت کو قوم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور قائد حزب اقتدار جناب ذوالفقار بھٹو مرحوم نے سانحۂ چناب نگر اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دے دیا۔ قومی اسمبلی نے فریقین (مسلمانوں اور مرزائی و لاہوری گروپ) کو اپنا اپنا واضح موقف پیش کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ”7ستمبر 1974ءکو 4بج کر 35منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی گروپ و لاہوری گروپ) کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا“ (الحمد للہ ثم الحمد للہ) بھٹو مرحوم نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیا‘ عبدالحفیظ پیرزادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا جسے پوری اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے گھی کے چراغ جلائے اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔
7ستمبر کا بابرکت دن ہمیں اپنے اسلاف کی بے لوث قربانیوں کی یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ان کے نقش قدم پر چل کر تحفظ ختم نبوت کا کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت قادیانیوں کو لگام ڈالے اور ان کو 1974ءکی آئینی ترمیم اور 1984ءکے امتناع قادیانیت ایکٹ پر نیک نیتی کے ساتھ مؤثر طور پر عمل درآمد کرائے اور قادیانیوں کو اپنی متعینہ حدود کے اندر رہنے اور قوانین و ضوابط پر عمل کرنے کا پابند بنائے۔

(بہ شکریہ اداریہ جسارت)