- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

آؤ غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں!

osama_pak_usaخاتون بہت پریشان تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نارتھ ناظم آباد کراچی کے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں اور آج کل ان کی ساتھی تمام ٹیچرز اسامہ بن لادن کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ یہ سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ خاتون کہہ رہی تھیں کہ 2مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد سے ہر جماعت کی طالبات ہر ٹیچر سے ایسے سوالات پوچھتی ہیں جن کے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ لہٰذا ہم ٹیچرز نے باہم مشورے سے فیصلہ کیا کہ آپ سے رابطہ قائم کیا جائے اور طالبات کے سوالات آپ کے سامنے رکھے جائیں اور آپ سے جواب لئے جائیں۔ خاتون نے کہا کہ انہوں نے فون پر رابطے کی کوشش میں اپنا بیلنس تقریباً ختم کر لیا ہے۔ لہٰذا اب مجھے ان کے اسکول کے لینڈ لائن نمبر پر فون کرنا ہے جہاں دیگر ٹیچرز بھی میری گفتگو نوٹ کریں گی۔ میں نے ان سے نمبر لے کر فون کر دیا۔

پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اکثر طالبات پوچھتی ہیں اگر اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے تو پھر کراچی، راولپنڈی اور کئی دیگر شہروں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کیوں ادا کی گئی اور جن لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ میں نے جواب دیا کہ 1979ء سے 1989ء تک اسامہ بن لادن ہمارے ہیرو اور محسن تھے کیونکہ وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور ہماری حکومت کے خیال میں یہ مزاحمت پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی لیکن جب امریکا نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا تو پھر ہماری حکومت نے بھی انہیں دہشت گرد کہہ دیا۔ خاتون ٹیچر نے جھٹ سے کہا کہ حکومت کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ کیا آپ انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں؟ میرا جواب یہ تھا کہ کسی کے دہشت گرد ہونے کا فیصلہ تو صرف کوئی عدالت کر سکتی ہے لیکن انہوں نے میرے سامنے کچھ ایسے حملوں کا اعتراف ضرور کیا تھا جن میں کئی بے گناہ لوگ بھی مارے گئے تھے۔ ابھی میرا جواب مکمل نہ ہوا تھا کہ ایک اور سوال آیا کہ طالبات پوچھتی ہیں اگر اسامہ بن لادن نے بے گناہوں کو مارا تو کیا امریکا بے گناہوں کو نہیں مارتا؟ کیا امریکا بھی ایک دہشت گرد نہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ چند دن پہلے شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں امریکی ڈرون حملے سے قبائلی جرگے کے 40ارکان مارے گئے یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ سوال کیاگیا کہ ہماری حکومت اسامہ بن لادن کو تو دہشت گرد کہتی ہے امریکا کو دہشت گرد کیوں نہیں کہتی؟ میں نے جواب دیا کہ ہم امریکا سے امداد لیتے ہیں اس لئے اسے آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ ایک غصے سے بھری آواز ابھری اور کہا گیا کہ یہ امداد ہمیں تو نہیں ملتی یہ امداد تو حکومت کو ملتی ہے پھر ہم حکومت کی پالیسی کو درست کیسے مان لیں؟ ایک اور ٹیچر کہنے لگیں کہ بھائی ہم سب بہت پریشان ہیں۔ طالبات پاکستان کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگی ہیں کہ رونے کو دل چاہتا ہے آپ سوچیں کہ اگر طالبات میں اتنا غصہ ہے تو بوائز اسکولز اور کالجز میں کیا صورتحال ہوگی؟ پہلی دفعہ ہماری نئی نسل کا ریاست سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ کراچی کے ایک اسکول کی ان ٹیچرز سے ٹیلیفون پر گفتگو کے بعد میں بھی خاصا پریشان مغموم رہا کیونکہ ایک طرف عام پاکستانیوں میں امریکا کے خلاف نفرت بڑھی ہے تودوسری طرف ریاستی اداروں کے بارے میں سوالات کئے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کسی بھی سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ وزیر داخلہ رحمن ملک اور وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مسلم لیگ ن اور اسامہ بن لادن کے درمیان تعلقات کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ رحمن ملک صاحب کو پتہ نہیں کس نے بتا دیا ہے کہ اسامہ بن لادن کو سوڈان سے نواز شریف پاکستان لائے تھے۔ رحمن ملک صاحب کو چاہئے کہ ریکارڈ درست کر لیں۔ اسامہ بن لادن مئی 1996ء میں خرطوم سے پاکستان نہیں بلکہ افغانستان کے شہر جلال آباد آئے تھے۔ اس وقت پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی جو طالبان کی حمایت کر رہی تھی اور اسامہ بن لادن کو انہی طالبان نے پناہ دی تھی۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی بجائے اتحاد پیدا کریں۔ امریکا کو صاف صاف بتائیں کہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن تمہاری پالیسیوں کا ردعمل تھا اگر اسامہ نے امریکا کے خلاف کارروائیاں کیں تو جواز تم نے مہیا کیا۔ خود اسامہ بن لادن نے امریکیوں کو کئی مرتبہ مخاطب کرکے کہا کہ تم سے میری نفرت کا آغاز 1982ء میں ہوا جب تمہاری مدد سے اسرائیل کی فوج نے لبنان کے شہر بیروت میں فلسطینی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔ پھر افغانستان میں روسی فوج کی شکست کے بعد امریکا نے افغان مجاہدین پر دباؤ ڈالا کہ وہ کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔ یہ مجاہدین کی توہین تھی۔ اگست 1990ء میں صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا تو امریکا نے سعودی عرب کو ڈرایا کہ صدام آپ پر بھی حملہ کرے گا۔ سعودی حکمران شاہ فہد نے دباؤ میں آ کر امریکی فوج کو مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر اڈے بنانے کی اجازت دیدی۔ اسامہ بن لادن نے اپنے ملک میں امریکی اڈوں کی مخالفت کی اور حکومت کو پیشکش کی کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنے وطن کا دفاع کرے گا۔ جواب میں شاہ فہد نے انہیں نظر بند کر دیا۔ یہ ایک ایسے شخص کی توہین تھی جس نے دس سال افغانستان میں روسی فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ آخرکار اسامہ افغان حکومت میں اپنے دوستوں کی مدد سے رہا ہوئے اور سوڈان چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے کچھ علماء کے ساتھ مل کر سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف کفر کا فتویٰ دیدیا۔ 1994ء میں ان کی سعودی شہریت منسوخ کر دی گئی اور پھر امریکا نے انہیں سوڈان سے بھی نکلوا دیا۔ 1996ء میں جب وہ افغانستان آ گئے تو سعودی عرب نے امریکا کی اجازت سے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا اور طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسامہ کو امریکا کے حوالے کریں۔ طالبان کے انکار کے بعد قندھار میں اسامہ بن لادن پر ایک تاجک نوجوان نے حملہ کیا۔ حملہ آور گرفتار ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ اسے سی آئی اے نے بھیجا ہے۔ اسامہ نے اس نوجوان کو معاف کر دیا لیکن اس کے بعد انہوں نے امریکا کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کی انتہا گیارہ ستمبر 2001ء کے حملے تھے اور اس جنگ میں امریکا کا بہت سا اقتصادی نقصان ضرور ہوا لیکن جانی نقصان مسلمانوں کا زیادہ ہے۔ ہمیں اس جنگ سے اب علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں سوائے خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں ملا۔ ہمیں چاہئے کہ 2مئی کے واقعات کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرائیں، ڈرون حملے روک کر ریاستی اداروں پر قوم کا اعتماد بحال کریں اور اگر امریکا ہمیں سزا دینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کا مقابلہ کریں۔ غلام کی زندگی سے ظالم کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو جانا زیادہ بہتر ہے۔ ہمیں پاک افغان سرحد پر سیکورٹی کو بڑھانا چاہئے کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ قبائلی علاقوں میں اپنی ریاست قائم کرے۔ قبائلی علاقوں پر صرف پاکستانی ریاست کا کنٹرول قائم ہونا چاہئے۔ ہماری جنگ پاکستان کیلئے ہونی چاہئے امریکا کیلئے نہیں۔ امریکا کی اقتصادی و سیاسی غلامی سے آزادی کے بغیر نئی نسل کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پاکستانیوں کو صرف پاکستان کیلئے جینا ہے امریکا کیلئے نہیں۔ پاکستانیوں کو صرف اپنے دشمنوں سے لڑنا ہے امریکا کے دشمنوں سے نہیں لڑنا آؤ امریکی غلامی کی زنجیروں کو اب توڑ ڈالیں۔

حامد میر
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)