- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

زاہدان میں سنی اسٹیوڈنٹس کی سالانہ کانفرنس (تفصیلی رپورٹ)

daneshjou_90دو مہینہ تاخیر کے بعد بالاخر اہل سنت والجماعت کے طلباء کی سالانہ کانفرنس 5مئی 2011 کو جامع مسجد مکی زاہدان میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا عنوان ’’ترقی کی دو بنیادیں؛ دینداری و علم دوستی‘‘ تھا جس پر سرکردہ علمی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس عظیم الشان کانفرنس کا آغاز جمعرات کی صبح قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا۔ جس کے بعد بندر جاسک کے ایک یونیورسٹی طالبعلم نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ مقالے کا موضوع ’’ترقی کی رکاوٹوں کے خاتمے میں دینداری و علم پرستی کا کردار‘‘ تھا۔ طالبعلم کا کہنا تھا علم کو سائنس اور دنیوی علوم میں خاص کرنا یا صرف دینی علوم پر زور دینا دونوں غلط خیالات ہیں۔
جاسکی سٹیوڈنٹ نے جہالت، تعصب، غربت، غلط منصوبہ بندی، بدامنی اور غیرملکی مداخلت کو ترقی کی سب سے اہم رکاوٹیں قرار دیتے ہوئے کہا دینداری میں ان تمام رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے مناسب رہ نمائی موجود ہے۔
پروگرام کے اس حصے میں ’’زابل یونیورسٹی‘‘ کے ایک طالبعلم نے ’’اسلامی ثقافت، قرآن اور تعلیم یافتہ لوگوں کا گلو بلائزیشن میں کردار‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا استقلال و آزادی کی حفاظت اور حصول کے لیے ثقافت کا کردار کلیدی ہے۔ اسلامی ثقافت کی بنیاد اور روح قرآن پاک پر ہے۔
انہوں نے کہا قرآن پاک نے ثقافت و تہذیب میں استقلال حاصل کرنے کو انتہائی باریک بینی سے آٹھ امور میں بیان کیا ہے؛ ’’اجنبی تہذیبوں سے دوری‘‘ ، ’’دینی ثقافت کی حفاظت کے خاطر ہجرت‘‘ ، ’’صرف اللہ تعالی ہی پر توکل و بھروسہ‘‘ ، ’’اجنبی تہذیب کی تبلیغ و پیروی پر پابندی‘‘ ، دینی تہذیب کی حفاظت پر صبر کرنا‘‘ ، ’’تہذیب کی نگہداشت میں قائدین کو موثر کردار ادا کرنا‘‘ ، ’’دشمن کی چالوں پر نظر رکھنا‘‘ اور ’’ ثقافتی استقلال کا دفاع‘‘ ایسے امور ہیں جن کی بدولت معاشرے میں دینی تہذیب برقرار رہے گی۔
زابل یونیورسٹی کے طالبعلم نے تاکید کی طلباء کو ’کمیت‘ اور تعداد پر نہیں بلکہ ’کیفیت‘ اور معیار پر زور دینا چاہیے، زیادہ سے زیادہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بجائے بہتر اور عمدہ تعلیم کے حصول کیلیے محنت کرنی چاہیے۔
کانفرنس کے شرکاء سے مولانا عبدالمجید مرادزہی اور خواف (خراسان) کے ایک ثقافتی کارکن نے خطاب کرتے ہوئے پہلی نشست جاری رکھی۔ خوافی کارکن نے زور دیتے ہوئے کہا یونیورسٹیز میں ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے اپنے اور دوسروں کے عقائد کی حفاظت و صیانت کرنی چاہیے۔ اس طرح بدخواہ عناصر شکست کھاکر مایوس ہوجائیں گے۔ جو لوگ معاشرے کی اصلاح کا کام چھوڑ دیتے ہیں انہیں خدایتعالی کے عدم التفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کانفرنس کے اس حصے کا اختتام مفتی محمد قاسم قاسمی کے فکر انگیز خطاب سے ہوا۔ کانفرنس کے اختتامی حصے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے انتہائی اہم نکات پر بات کرنے کے بعد دعا کی اور کانفرنس ایک معنوی فضا میں اپنے اختتام کو پہنچی۔

اسلامی ممالک میں آمریت کا دور ختم ہوچکا ہے:
خطیب اہل سنت و ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے بیان میں طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اقامہ نماز کی بہت کوشش کریں، آپ ہاسٹل میں ہوں یا کالج و یونیورسٹی کی حدود میں ، ہر حال میں باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کریں، اللہ تعالی کے یہاں نماز کے مسئلے پر سستی دکھانا ناقابل قبول ہے۔molana_daneshjouyan_90
طلباء کو مزید نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمیشہ دینی کتب کا مطالعہ کریں، علماء سے تعلق قائم کرکے ان سے رہ نمائی لے لیں۔ گناہوں سے سخت اجتناب کرکے یہ نہ بھول جائیں کہ اللہ تعالی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ آپ کے دلوں میں اللہ تعالی اور اس کے رسول (ص) کی محبت ہونی چاہیے، مسلمان و دیندار رہنے کی کوشش کریں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا جب تک ہم علم حاصل نہیں کریں گے اور حقیقی دیندار نہیں بنیں گے اس وقت تک دنیا میں ہماری حیثیت کو برتری حاصل نہیں ہوگی۔ اگر ایران کی سنی برادری محنت کرے تو ضرور علم کی چوٹیوں کو فتح کرکے سب سے زیادہ دیندار طبقہ شمار ہوگی۔
انہوں نے کہا اگر ہمارے پاس علم ہو اور جدید علوم میں ہمیں مہارت حاصل ہو تو دنیا کے لوگ ہمارے محتاج بنیں گے۔ دیندار بن کر ہم اللہ اور اس ے فرشتوں او بندوں کے نزدیک مقبول و محبوب ہوجائیں گے۔
اپنے اہم خطاب کے دوران حضرت شیخ الاسلام نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا مسلم ممالک سے آمریت اور سنگل پارٹی سسٹم اپنا بوریا بستر گول کر جارہی ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں فراخدلی کی فضا قائم ہوگی۔ حریت و آزادی پسندی آئے گی اور اسلام کا نور مزید پھیلے گا۔
آمروں کی شکست دیکھ کر بعض دیگر ممالک کے سربراہان اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ کشادہ سینہ سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے، عوام کو معاشرتی و دینی اور قانونی امور میں آزادی دینی چاہیے۔

’ ہم سنی ہیں اور مسلک اہل سنت پر رہیں گے‘
حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی جس طرح ہمیں اپنے مذہب اسلام پر فخر ہے اسی طرح ہمیں اپنے وطن ایران پر بھی فخر ہے۔ اس کی سرحدی حدود کی حفاظت اور قومی اتحاد کے لیے کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب تک قومی اتحاد قائم نہیں ہوگا اس وقت تک ملک ترقی حاصل نہیں کرسکے گا۔ اسی لیے سنی برادری اپنے ملک کی سیکورٹی اور نظم وضبط کے امور میں شریک ہونا چاہتی ہے۔ انہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہزاروں سنیوں نے ملک کے دفاع کیلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
نامور سنی رہ نما نے مزید کہا ہمیں اپنے مذہب اور عقائد سے عشق کی حد تک محبت ہے، ہم اپنی عزت، شرف اور ناموس قربان کردیں گے مگر اپنے عقائد اور مسلک اہل سنت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہم اپنے عقائد کو دنیوی عہدوں سے تبادلہ نہیں کریں گے اور آخر تک سنی مسلک رہیں گے۔ہماری موت اسی مسلک پر ہوگی۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ممکن ہے ہم عقیدتی طور پر تزلزل کاشکار ہوجائیں گے تو وہ ابھی سے مایوس ہوجائے چونکہ یہ ممکن نہیں ہم اپنا مسلک چھوڑدیں۔
مولانا عبدالحمید نے تاکید کی مذہبی آزادی ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم ایران کے کسی بھی علاقے اور شہر میں اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوائیں، نماز سمیت دیگر عبادات کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ ہونی چاہیے۔
حکام بالا سے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا عدل وانصاف کی فراہمی سنی برادری کا مطالبہ ہے۔ عوام نے سابق رہبر کی قیادت میں انصاف کے خاطر انقلاب لایا، لہذا شیعہ و سنی کے با صلاحیت افراد میں فرق و امتیاز نہیں ہونا چاہیے، سنی شخصیات سے بھی کام لینا چاہیے۔ ہمارا خیال ہے تنگ نظری زوال و پستی کا باعث ہے، کسی بھی مذہب یا ریاست میں اگر تنگ نظری ہو تو اس مذہب و ریاست ہی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔
آخر میں انہوں نے بعض دیگر مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہمیں اس بات پر شکوہ ہے کہ بعض متعصب عناصر نے ملک کے بعض شہروں میں سنی طلباء کو زاہدان آنے سے روک دیا۔ بہت سارے اسٹیوڈنٹس اس معنوی و ثقافتی کانفرنس میں اس وجہ سے شریک نہ ہوسکے کی حکومتی اداروں نے انہیں آنے نہیں دیا جو افسوسناک بات ہے۔ اس طرح کی کانفرنسز و اجتماعات ملکی وحدت و قومی اتحاد کے لیے از حد مفید ہیں، ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

فائدہ مند علم وہ ہے جس کا انجام کامیابی وسعادت ہو:
استاذ الحدیث دارالعلوم زاہدان مفتی محمد قاسم قاسمی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے دینداری و علم دوستی کو لازم وملزوم قرار دیا۔ انہوں نے کہا وہ علم جو بندے کو کامیابی تک پہنچادے ہماری زندگی کا محور ہونا چاہیے۔mofti_daneshjouyan_90
مفتی قاسمی نے مزید کہا جب علم اللہ کے نام ویاد سے مقرون ہو پھر فائدہ مند ہوگا اور بغاوت و سرکشی کی راہ بند کرے گا۔
سرپرست دارالافتاء دارالعلوم زاہدان نے قرآن مجید کو تمام علوم کی بنیاد قرار دیتے ہوئے طلباء کو مخاطب کرکے کہا: اگر آپ دنیا کے سارے علوم و فنون پر دسترسی حاصل کریں مگر قرآن پاک سے نابلد رہیں، اس کے معافی و مفاہیم سے نا آگاہ ہوں تو آپ ہر چیز سے محروم شمار ہوں گے۔
انہوں نے ایران کے نظام تعلیم کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا: ایران میں قرآن پاک کے حوالے سے بہت ساری خدمات پیش ہوئی ہیں جو قابل تحسین ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وجہ کیا ہے کہ اسکول کے طلباء جو میٹرک پاس کرچکے ہوتے ہیں، اس سے بھی آگے جاتے ہیں مگر انہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ اس پر متعلقہ افراد و محکموں کو سوچنا چاہیے۔
’ندائے اسلام‘ میگزین کے ایڈیٹر نے مزید کہا آپ یہ عزم کریں کہ کالج و یونیورسٹی کے اسباق کے علاوہ قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کریں، حتی کہ گریجویشن کے بعد بھی آپ اس کے لیے ایک سال مختص کردیں۔ عربی زبان سے آشنائی حاصل کریں۔
تقوا کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا قاسمی نے کہا آج کل ’ہوا و ہوس‘، ’شیطان‘ اور ’برا ماحول‘ تین ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ گمراہی کی وادی میں گر جاتے ہیں۔ آج شیاطین انسی و جنی میدان میں اترے ہین لیکن ساری منصوبہ بندی انسی شیطان کرتے ہیں۔
’ہالیووڈ‘ لوگوں کو جس سمیت لیجانا چاہے ان کا رخ وہیں ہوتا ہے، فحش فلمیں بنا کر عریانی و بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے۔ خفیہ صہیونی تنظیم ’فری میسنری‘ بظاہر بھائی چارہ و آزادی کا نعرہ لگاتی ہے مگر اس کے اصلی اہداف تین ہیں: ۱۔ عالمی صہیونزم کی حمایت، ۲۔ تمام مذاہب کا خاتمہ، ۳۔ اور الحاد و بے دینی اور بے راہ روی کی ترویج و اشاعت جیسا بھی ہو۔ اس تنظیم کے ارکان کا خیال ہے مسلمانوں میں یہودی بننے کی صلاحیت نہیں اس لیے ان کی کوشش یہ ہے کو شہوات و لذتوں کو عام کرکے مسلمانوں کو اسلام سے دور رکھیں۔ در اصل یہ دجال اکبر کی آمد کے لیے اسباب فراہم کررہے ہیں۔

منطقی مکالمہ اسلامی معاشروں کی اہم ضرورت ہے:
’’اسلامی اعتدال اور اسلام کا منطقی و استدلالی مکالمے کی دعوت‘‘ مولانا عبدالمجید مرادزہی خاشی کے خطاب کا عنوان تھا۔
انہوں نے اپنے بیان کے آغاز میں اسامہ بن لادن کے سانحہ شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں عصر حاضر کے سب سے عظیم مجاہد قرار دیا۔ مولانا مرادزہی نے کہا: مجھے امید ہے اس عظیم شخصیت کی شہادت، اسلام کی سربلندی و کامیابی اور صہیونی طاقتوں کیخلاف مسلمانوں کی فتح کا باعث ہوگی۔abdulmajeed_daneshjouyan_90
بلوچستان کے نامور عالم دین نے اپنے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا آج جب رعونت و برتری پسندی کا عروج ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل ہو رہاہے، منطقی و سنجیدہ مکالمہ وقت کی ضرورت بن چکاہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مکالمہ کا وجود گھروں، درس گاہوں اور تعلیمی اداروں سے لیکر ملکی سطح پر مختلف جماعتوں کے درمیان ناپید ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام پر تشدد واقعات کی بنیادی وجہ مکالمے کا فقدان ہے۔
مولانا عبدالمجید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ’علم واستدلال‘ ، ’قابلیت‘ اور ’حسن اخلاق‘ کو اسلامی مکالمہ و گفتگو کے اصول قرار دیا۔ انہوں نے کہا آج کل اگر دشمن ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ جیسے بہانوں پر اسلامی ممالک پر یلغار کرتے ہیں اس کی وجہ مکالمے کے اصولوں سے غفلت ہے، چنانچہ معاشرہ انتہا پسندی و تشدد کی لپیٹ میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا جب اسلامی ملک کے سربراہ اپنے عوام اور ان کے علماء کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، ان کے مسائل حل کرنے کی زحمت نہیں کرتا تو اس کا نتیجہ افراط و تشدد کا پھیلاؤ ہے۔ حکومت و رعیت لازم وملزوم ہیں، حکمران کی مثال باپ کی ہے، اگر باپ بیٹے سے ملنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ بیٹا کچھ بھی کرسکتا ہے جو باپ ہی کے لیے دردسر بنے گا۔
مولانا عبدالمجید مرادزہی نے کہا یہ انسان کی طبیعت ہے کہ زور بازو سے کوئی بات اس سے نہیں منوائی جاسکتی، صرف عقل و منطق اور استدلال کے ذریعے اسے قائل کیا جاسکتاہے۔
اگر ملک میں دھمکی اور خوف کی فضا قائم ہو اور مذاکرات و مکالمات کے ٹیبل خالی ہو، حکام دیگر جماعتوں اور گروہوں کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہوں، پھر اس کے نتیجے میں ایسا بحران وجود میں آئے گا جو کسی بھی طاقت سے ختم نہیں ہوگا۔

SunniOnline.us