- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

جھوٹ اور مکروفریب

yousuf-gilaniغالب کا ایک شعر ہے
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعاعنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
(باخبری اور آگاہی بات کی معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے‘ سماعت اور بھرپورتوجہ کے کتنے ہی جال پھیلائے‘ اُس کے پلّے کچھ نہیں پڑے گا کیوں کہ میری تقریر کا تو کوئی مقصد ومدعا ہی نہیں)۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے عالم تقریر کا مدعا بھی عنقا تھا سو ہم خوردبینی شیشوں والی عینک استعمال کرکے دیکھنے اور الٹ پلٹ کر جائزہ لینے کی ہزار کوشش کریں‘ اس میں ایسی کوئی ایک بات بھی نہیں جو زخموں کی مرہم کاری کرسکے۔ یہ پاکستان کی آزادی وخودمختاری پر سنگین حملے کا آٹھواں دن تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے قومی اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ بیچ میں اُنہیں دورہٴ فرانس کی ضرورت آپڑی تھی اس لئے وہ قوم کو انگاروں پہ لوٹتا چھوڑکر‘ ایک بڑے طائفے کے ساتھ پیرس روانہ ہوگئے تھے۔ پُرتعیش دورے سے وطن واپس پہنچنے پر اُنہیں اندازہ ہوا کہ جس امریکی کارنامے کو انہوں نے ”فتح عظیم“ قرار دیا تھا وہ تو الاؤ بن کر پاکستانی عوام کے دلوں میں بھڑک رہا ہے سو انہوں نے تقریر ضروری جانی۔
اپنے تاریخی خطاب کے لئے وزیراعظم گیلانی نے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو کم و بیش ستر فیصد ناخواندہ قوم کے صرف ایک دو فیصد افراد ہی سمجھ پائے ہوں گے، کیوں کہ ہمارے ہاں اپنا نام لکھ لینے اور ہجے کرکے دو چار لفظ اٹھالینے والا بھی خواندہ شمار ہوتا ہے۔ جناب وزیراعظم نے دوسرا اہتمام یہ کیاکہ تقریر لکھی ہوئی ہونی چاہئے۔ انگریزی زبان اور تحریری تقریر کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ سید زادہ ملتان‘ اہل پاکستان سے مخاطب نہ تھے‘ سات سمندر پار تشریف فرما شہنشاہ عالم پناہ کے حضور عرضی گزاررہے تھے۔ سو لازم ٹھہرا کہ پاکستان کے عوام کی نہیں شہنشاہ عالم پناہ کی زبان استعمال کی جائے۔ عرضی گزرنے کے آداب کا تقاضا تھا کہ بے دھیانی میں کوئی لفظ‘ کوئی جملہ‘ کوئی حر ف ناروا زبان سے ایسا نہ پھسل پڑے جو بارگاہ عالی میں ناگوار گزرے اور برسوں کی ریاضت خاک میں مل جائے۔
یہ تقریر ایک طرح کی معجون مرکب تھی جو کم از کم تین چار شفاخانوں میں تیار ہوئی۔ کسی نے جڑی بوٹیاں اکٹھی کیں‘ کسی نے ہاون دستے میں اُسے پیسا‘ کسی نے شہد وغیرہ کی آمیزش کی اور یار لوگوں کا خیال ہے کہ اُس پر چاندی کے ورق امریکی سفارت خانے نے لگائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معجون مرکب کو سب متعلقین کی خوشنودیٴ خاطر کے لئے استعمال کیا گیا۔ شاہ جی کے خطاب میں جہاد افغانستان اور اس کے بعد کی تاریخ کے نشیب و فراز کا تذکرہ تھا‘ یہ اعلان تھا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ ہماری تخلیق نہیں‘ فلسفیانہ انداز کی تلقین تھی کہ اپنے چہرے تاریخ کے آئینے میں دیکھنے چاہئیں‘ نام نہاد وار آن ٹیرر میں پاکستانیوں کی شہادتوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کا مرثیہ تھا‘ یقین دلانے کی کوشش تھی کہ پاکستان کی حکومت اور دیگر اداروں (بہ معنی فوج) میں مکمل ہم آہنگی ہے‘ جن اداروں کی غفلت و کوتاہی پر عوام کی نیندیں حرام ہیں‘ اُن اداروں کے لئے خراج تحسین کی گل پاشی تھی‘ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کا عزم تھا‘ خبر تھی کہ اسامہ سیکڑوں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا سو اس سے انصاف ہوگیا اور آخر میں ان حل‘ بے جوڑ‘ بے ربط اور بے تکے نعروں پر مشتمل ایک پندرہ نکاتی‘ بے سروپا سا منشور تھا۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب کی اہمیت و افادیت ثابت کرنے کے لئے اپنے تین اہم اعلانات کئے۔
-1 13 مئی کو بند کمرے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوگا جس میں متعلقہ عسکری عہدیدار واقعہ ایبٹ آباد کے حوالے سے مکمل بریفنگ دیں گے۔
-2 ایجوئینٹ جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اور
-3 قومی اسمبلی کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
جناب وزیراعظم کے ان انقلاب آفرین اعلانات و اقدامات کو اس زاویے سے بھی ضرور دیکھئے کہ اُن کی تقریر سے کہیں پہلے چیف آف آری اسٹاف نے انکشاف کردیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مشورہ دے دیا ہے تاکہ عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جاسکے۔ فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے بریفنگ کی پیشکش بھی جنرل کیانی کی طرف سے آئی۔ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیے میں زور دے کر کہا گیا کہ عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینے اور جمہوریت کی قوت بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔سو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور فوجی متعلقین کی بریفنگ کا تصور جی ایچ کیو کی طرف سے آیا۔ اسی طرح دو دن قبل کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد آئی ایس پی آر کے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہہ دیا گیا تھا کہ متعلقہ معاملات کی چھان بین کے لئے ایک 8 رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی جارہی ہے۔ یہ کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کرنے کا فیصلہ بھی جی ایچ کیو کا ہے جو وزیراعظم کی تقریر سے پہلے اُس وقت ہوچکا تھا جب وہ پیرس کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ لے دے کر جناب وزیراعظم کے ماتھے کا جھومر قومی اسمبلی کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہے جو معمول کی کارروائی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے اس بے رنگ‘ بے بو اور بے ذائقہ خطاب سے کون سا مسئلہ حل ہوا؟ بے شک یہ عوامی مطالبہ تھا کہ وہ چپ کا روزہ توڑیں اور قوم کو سچ سچ بتائیں کہ اصل صورت حال کیا ہے لیکن کیا یہ مطالبہ پورا ہوگیا؟ خود گیلانی صاحب کو بھی علم ہوگا کہ یہ ایک لاحاصل سی مشق تھی۔ ایبٹ آباد کے واقعے کے حوالے سے کسی ایک سوال کا جواب بھی نہیں ملا۔اُدھر شہنشاہ عالم پناہ کے ترجمان نے بھی کہہ دیا کہ وزیراعظم گیلانی کی تقریر میں ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ”صدر اوباما‘ ایبٹ آباد جیسا آپریشن اپنا حق سمجھتے ہیں۔معافی یا معذرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت پڑی تو آئندہ بھی ایسے آپریشن کرتے رہیں گے“۔ اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر نے بھی ایک انٹرویو میں کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعلقات کا انحصار پاکستان کے رویّے پر ہے۔ کیمرون منٹر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے عوام بعض مشکل سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔
ادھر برطانوی اخبار”گارجین“ نے انکشاف کیا ہے کہ دس سال قبل پرویز مشرف اور جارج بش کے درمیان طے پانیوالے ایک معاہدے کے تحت امریکہ کو اسامہ کے خلاف پاکستان کی سرزمین کے اندر آپریشن کی اجازت دی تھی۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ پاکستان ایسے یکطرفہ امریکی آپریشن کے خلاف شوروغوغا ضرور کریگا لیکن عملاً کوئی امریکہ مخالف قدم نہیں اٹھائے گا۔ گارجین کا کہنا ہے کہ ”معاہدہ مشرف دور میں ہوا تھا لیکن بعد ازاں ”جمہوریت کی جانب سفر“ کے دوران فوج نے اسکی تجدید کردی تھی۔ ایبٹ آباد آپریشن پر پاکستان کا احتجاج معاہدے کا ”عوامی چہرہ“ ہے۔ یہ مشرف بش معاہدہ پاکستان کی اس غیر اعلانیہ پالیسی کاحصہ ہے جو اُس نے ڈرون حملوں پر اپنائی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم گیلانی نے امریکی حکام سے کہا تھا کہ ڈرون حملوں پر مجھے پریشانی نہیں۔ ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر نظر انداز کردیں گے“۔ گارجین کی اس خبر کے ساتھ آپ وکی لیکس کی رپورٹ بھی دیکھ لیجئے‘ جو کہتی ہے کہ صدر زرداری نے امریکہ کو ایسے یکطرفہ سرجیکل آپریشن کی اجازت دے رکھی تھی۔
جناب صدر جو حکمراں پارٹی کے سربراہ بھی ہیں‘ ابھی تک خاموش ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کی طرح انہوں نے بھی شہنشاہ عالم پناہ کی دلجوئی کی ضرورت سمجھی اور مشینی رفتار سے آپریشن کے حق میں بہ زبان انگریزی ایک مضمون لکھ ڈالا جو آپریشن کی پہلی خبر کے ساتھ ہی ”واشنگٹن پوسٹ“ میں چھپ گیا۔ ہمارے نام اُن کا پیغام لانے والا کبوتر جانے کن وادیوں میں غائب ہوگیا ہے۔ بنیادی اور انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ سچ چھپایا جارہا ہے اور جھوٹ بولا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ دس برس سے جاری ہے۔نہ سول حکومت کچھ بتارہی ہے نہ فوج اس راز سے پردہ اٹھارہی ہے کہ ہماری سلامتی کی بنیادوں میں بارود بھردینے والی یہ بے ننگ ونام جنگ ہے کیا بلا۔ اور ہم کیا کیا کچھ امریکہ کے نام رہن رکھ چکے ہیں…؟ جھوٹ اور فریب کاری کے ایسے ہی کھیل قوموں کو دشت بے اماں کی نذر کردیتے ہیں۔

عرفان صدیقی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)