- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

معمر قذافی نے نیٹو کو مذاکرات اور جنگ بندی کی پیش کش کر دی

qadhafiطرابلس(ايجنسياں) لیبیا کے صدر معمر قذافی نے اپنے ملک پر معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے فضائی حملے رکوانے اور جنگ بندی کے لیے اسے مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے۔

کرنل قذافی نے ہفتے کو علی الصباح سرکاری ٹیلی وژن پر ایک نشری تقریر میں کہا کہ ”ہم نے ان پر حملے نہیں کیے اور نہ سمندر کو عبور کیا لیکن وہ اس کے باوجود ہم پر حملے کیوں کررہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ”جو ممالک ہم پر حملے کررہے ہیں ،ہم ان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں”۔انہوں نے کہا کہ ”اگر نیٹو اتحادی ممالک لیبیا کے تیل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں تو پھر انھیں اس کے ٹھیکے دینے کے لیے بات چیت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے”۔
انھوں نے کہا کہ ”لیبیا جنگ بندی کے لیے تیار ہے لیکن فائربندی یک طرفہ نہیں ہوسکتی ہے”۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سب سے پہلے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا اوراسے قبول کیا لیکن صلیبی نیٹو کے حملے ابھی تک بند نہیں ہوئے۔
قذافی نے کہا کہ نیٹو کے فضائی حملے اور سمندر میں بحری گشت اقوام متحدہ کے مینڈیٹ سے ماورا اقدامات ہیں۔انہوں نے چین ،روس اور اپنے دوست افریقی اور لاطینی امریکی ممالک پر زوردیا کہ وہ سلامتی کونسل پر قرارداد پر نئی نظرثانی کے لیے زوردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کے فضائی حملوں اور پابندیوں کے شہریوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان سے ملک کا ڈھانچا تباہ ہورہا ہے۔لیبی صدر نے باغیوں کے بارے میں بھی اپنا لب ولہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور لیبی شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے”۔ واضح رہے کہ ماضی قریب میں لیبی صدر نے ایک تقریر میں باغیوں کو چوہے قراردیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا گھر گھر پیچھا کیا جائے گا۔
انہوں نے بڑے پُرعزم انداز میں کہا کہ اگر نیٹو طاقتوں کو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں تو لیبی عوام بھی ہتھیار نہیں پھینکیں گے اورمرتے دم تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔انہوں نے نیٹو کے حملوں کو دہشت گردی قراردیا اور کہا کہ اگر نیٹو نے لیبیا پرزمینی حملہ کیا تواس کی فوجوں کو ہلاک کردیا جائے گا۔
قذافی کا کہنا تھا کہ ”وہ اقتدار چھوڑیں گے اور نہ اپنے ملک سے کہیں اور جائیں گے”۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مجھے ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کرسکتا اور نہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے ملک کے لیے نہ لڑوں۔
لیبی صدر کی تقریر نشر ہونے کے دوران نیٹو کے جنگی طیاروں نے طرابلس میں سرکاری ٹیلی وژن سے ملحقہ عمارت پر بمباری کی۔جماہیریہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ نیٹو نے صدر قذافی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
واضح رہے کہ نیٹو کے طیاروں نے گذشتہ جمعہ اور ہفتے کو بھی طرابلس کے وسط میں واقع باب العزیزیہ پر بمباری کی تھی جس سے صدرقذافی کا دفتر تباہ ہوگیا تھا۔ایک لیبی عہدے دار کا کہنا تھا کہ حملے میں کرنل قذافی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بمباری سے تین شہری جاں بحق اور پینتالیس زخمی ہوگئے تھے۔

مصراتہ میں لڑائی
ادھر لیبیا کے تیسرے بڑے شہر مصراتہ میں باغی جنگجووں اور سرکاری فوج کے درمیان ہوائی اڈے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑائی جاری ہے۔اس سے پہلے باغیوں نے مصراتہ کی بندرگاہ سے سرکاری فوج کو پیچھے دھکیلنے کا دعویٰ کیا تھا ہے۔سرکاری فوج شہر میں باغیوں کے ٹھکانوں پر توپخانے سے گولہ باری کر رہی ہے اوراس نے راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔
ایک باغی جنگجو ابراہیم احمد بوشغہ کا کہنا ہے کہ”چار ٹینکوں نے مصراتہ شہر پر حملہ کیا تھا۔ان میں سے ایک کو تباہ کردیا گیا ہے۔سرکاری فوجیوں نے جمعہ کی رات کے وقت ائیرپورٹ روڈ کی جانب پوزیشنیں سنبھال کر شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ہم نے ان کی پیش قدمی روک دی ہے”۔
قبل ازیں لیبی حکومت نے خبردار کیا کہ مصراتہ بندرگاہ میں داخل ہونے والے کسی بھی جہاز پر حملہ کردیا جائے گا۔لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن کی اطلاع کے مطابق فوج نے بندرگاہ پر کام بند کرادیا ہے اس لیے مصراتہ کے لیے تمام انسانی امداد اب زمینی راستے سے اور مسلح افواج کی نگرانی میں بھیجی جائے۔
مصراتہ اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ کرنل قذافی کے فوجیوں نے اگلے مورچوں کے نزدیک واقع مظاہرین کے ٹھکانے پرتوپخانے سے بھاری گولہ باری کی اور راکٹ پھینکے جس سے مزید پانچ افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے ہیں۔
مصراتہ پرکنٹرول کے لیے صدر قذافی کی وفادار فوج اوراس کے مخالف باغی جنگجوٶں کے درمیان گذشتہ سوادوماہ سے لڑائی ہوری ہے اورسرکاری فوج نےاس شہر کا محاصرہ کررکھا ہے۔ گذشتہ ہفتے قذافی حکومت نے مصراتہ سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اورکہا تھا کہ اس شہر کا کنٹرول مقامی قبائل کے حوالے کردیا جائے گا اورانہیں بات چیت یا طاقت کے استعمال کے ذریعے تنازعے کے حل کا اختیار حاصل ہوگا لیکن اس اعلان کے باوجود لیبی فوجی وہاں موجودہیں اور ان کی باغیوں کے ساتھ جھڑپیں ہورہی ہیں۔ غیرملکی خبررساں ایجنسیوں اور مقامی لوگوں کے مطابق اس شہر میں جاری لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور شہریوں کو اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے۔