- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عوامی نمائندے اور امریکی چاکری

وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عوامیpakistani-state نمائندے ہیں‘ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے کسی سند کی ضرورت نہیں‘ امریکا سے نمٹنا سیاستدانوں کا کام ہے‘ اس میں سول سرونٹس کا کوئی کردار نہیں۔ اسی دن انقرہ میں صدرمملکت آصف علی زرداری فرمارہے تھے کہ ہم امریکا کے اہم اتحادی ہیں کوئی کلائنٹ اسٹیٹ نہیں‘ ڈرون حملے ہماری خود مختاری کے خلاف ہیں‘ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے پاس واضح حکمت عملی ہے جس پر عمل ہورہا ہے‘ وائٹ ہاوس کی رپورٹ گمراہ کن ہے۔

ان بیانات اور دعووں کے پیش منظر میں بدھ کو امریکا نے پاکستان پر مزید ڈرون حملے کردیے جن میں 9 افراد شہید ہوگئے۔ جہاں تک دعوﺅں کی بات ہے تو ہمارے حکمران کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی بات بالکل درست ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام نے منتخب کیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ موجودہ انتخابی نظام کے تحت یہ ضروری نہیں کہ عوام کی سادہ اکثریت حاصل ہونے ہی پر اقتدار مل جائے۔ چنانچہ ڈالے گئے ووٹوں کی مجموعی تعداد اور حکمرانوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب دیکھا جاسکتا ہے۔
موجودہ نظام میں ہوتایہی ہے کہ اگر 100 میں سے 70 ووٹ چار‘ پانچ پارٹیوں میں تقسیم ہوجائیں اور کسی ایک پارٹی کو30ووٹ مل جائیں تو وہ جیت جاتی ہے جبکہ عملاً 70 فیصد اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے ایک عرصہ سے متناسب نمائندگی کا مطالبہ کیا جارہا ہے یا پھر کچھ دوسرے ممالک کی طرح سب سے زیادہ ووٹ لینے والی دو پارٹیوں میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اس طرح مقبولیت کا واضح تعین ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 3 کروڑ سے زائد جعلی ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوامی نمائندگی اور عوام کے انتخاب کا دعویٰ مشکوک ہوجاتا ہے۔
اگریہ مان بھی لیا جائے کہ موجودہ حکمران عوام کے نمائندے اور ان کا انتخاب ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے ووٹروں کے ساتھ‘ مظلوم عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا ہی؟ کیا ان کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے غلط انتخاب کیوں کیا؟
وزیراعظم صاحب اور ان کی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ عوام کے اس احسان کا بدلہ دیتے مگر عوام کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کے لیے صرف خوشحالی کے دعوے ہیں جن کا کوئی وجود نہیں۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ عوامی نمائندوں کو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے کوئی سند لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے ملک بھر میں پھیلے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ ایچ ای سی سے ارکان کی ڈگریوں کے معاملے کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ عوامی نمائندے عوام نے منتخب کیے ہیں‘ کوئی بھی انتخابات میں مقابلہ کرسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت ایچ ای سی سے بدلہ نہ لے رہی ہو لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ متعدد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوئی ہیں اور کئی چھان بین کے مرحلے میں ہیں۔ ایچ ای سی کی تحلیل سے یہ کام یقینا متاثر ہوگا اور جعل سازوں کی بروقت پکڑ نہیں ہوسکے گی۔ ایسے جعل سازوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں‘ حقائق کا منہ چڑانا اور دھوکے بازوں کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ اس کا مظاہرہ خود وزیراعظم کرچکے ہیں جب انہوں نے ایک رکن اسمبلی کی ڈگری جعلی ثابت ہونے کے باوجود اس کی انتخابی مہم میں بنفس نفیس حصہ بھی لیا اور انتخاب سے ایک دن پہلے ہی اس کی کامیابی کا اعلان بھی کردیا‘ یہ کہہ کر عوام نے فیصلہ کردیا ہے۔
اگر کوئی انصاف پسند او رجمہوری حکومت ہوتی تو جعل سازوں کو اپنا نہ کہتی بلکہ ان سے جان چھڑاتی اور جعل سازی‘ دھوکے بازی کے الزام میں سزا بھی دلواتی۔ لیکن ستم یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہے۔ ساری تگ و دو اپنی تعداد بڑھانے اور حکومت کرنے پر ہے خواہ اس کے لیے قاتلوں اور بھتہ خوروں ہی کی مدد لینی پڑے۔
حکومت کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں کے باوجود مفاہمت کے نام پر مجرموں کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ایچ ای سی کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ پرویز مشرف نے قائم کی تھی‘ اس سے پہلے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن تھا۔
اگر ایچ ای سی کا یہی جرم ہے تو محترم گیلانی صاحب اس پر بھی غور فرمائیں کہ پرویز مشرف کی اور کتنی پالیسیاں روبہ عمل ہیں اور اگر ایچ ای سی نقصان دہ تھی تو تین سال بعد کیوں خیال آیا۔ اب اسے ختم کرکے ایک اور ادارہ بنایا جارہا ہے۔ کوئی اور حکومت آئی تو وہ اسے ختم کرکے ایچ ای سی بحال کردے گی او ریہ کھیل چلتا رہے گا۔ اس سے کسی کو کیا غرض کہ ملک اور عوام کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔
جناب وزیراعظم نے بڑی دلچسپ بات کی ہے کہ امریکا سے نمٹنا سیاستدانوں کا کام ہے‘ اس حوالے سے سول سرونٹس کو کچھ نہیں کرنا۔ بات بالکل درست ہے۔ یہ کام نہ سول سرونٹس کا ہے اور نہ فوج اور آئی ایس آئی کا۔ مگریہ بھی تو بتایا جائے کہ سیاستدان امریکا سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔ وکی لیکس کے اس انکشاف کا اب تک جواب نہیں آیا کہ وزیراعظم نے امریکا کو اطمینان دلایا تھا کہ وہ ڈرون حملے جاری رکھے‘ پارلیمنٹ میں کچھ شور‘ شرابا ہوگا پھر معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یہ ہے امریکا سے نمٹنے کا صحیح طریقہ۔اس کی ایک مثال امریکی دہشت گرد اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا معاملہ بھی ہے۔ اب امریکا سے نمٹنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا واشنگٹن گئے ہوئے تھے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان مطالبہ کررہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بھی بتایا جائے سی آئی اے کے چیف کا ایجنڈا کیا ہے۔ لیکن جن سیاستدانوں کو امریکا سے نمٹنا چاہیے تھا وہ تو بے خبر ہیں اور معاملات فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔
احمد شجاع پاشا کے واپس آتے ہی پاکستان پر ایک اور ڈرون حملہ ہوگیا۔ گیلانی حکومت کہتی ہے کہ ڈرون حملوں سے مسائل بڑھ رہے ہیں ‘ امریکا سے نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے یہ بند کیے جائیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ یہ حملے پاکستا ن کی آزادی ‘ خود مختاری اور سا لمیت کے خلاف ہیں اور حملے جاری رہے تو یہ اعلان جنگ ہوگا۔
گیلانی صاحب بتائیں کہ کون سا ملک ایسا ہے جس پر برسوں سے فضائی حملے ہورہے ہوں‘ اس کی حدود پامال کی جارہی ہوں اور حکمران کان دبائے بیٹھے ہوں۔ کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ ڈرون حملے بند کروائیں گے۔ کل کو اگر بھارت بھی امریکا کی پیروی میں فضائی حملے کرتا ہے تو کیا اس سے بھی مذاکرات کیے جائیں گے اور جواب دینے کے بجائے کرکٹ ڈپلومیسی کو کام میں لایا جائے گا۔ امریکا کب تک پاکستانیوں کو شہید کرتا رہے گا۔ اس سے بہتر تو افغان مجاہدین ہیں کہ بے وسیلہ ہونے کے باوجود پہلے سوویت یونین سے بھڑ گئے اور اب امریکا کی قیادت میں 40 صلیبی ممالک کی افواج سے نبرد آزما ہیں۔ جانیں قربان کررہے ہیں مگر اپنی آزادی پر سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں ۔ کیا ہم ان سے بھی گئے گزرے ہیں؟ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم افغان بھائیوں کے صلیبی قاتلوں کو شراب‘ اسلحہ اور دیگر سامان بھی فراہم کررہے ہیں۔
صدر صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکا کی کلائنٹ اسٹیٹ یا طفیلی ریاست نہیں ہیں۔ کلائنٹ اسٹیٹ اور کیا ہوتی ہے۔ یہ بھی اعتراف ہے کہ ڈرون حملے خود مختاری کے خلاف ہیں لیکن خودمختاری رہ کہاں گئی ۔
جس ملک پر کوئی دوسر املک مسلسل حملے کررہا ہو اور متاثرہ ملک پھر بھی یہ دعویٰ کرے کہ ہم تو اتحادی ہیں‘ آپ کی دہشت گردی کی جنگ میں آپ کے ساتھ صف اول میں ہیں تو اس کی خودمختاری کہاں رہ گئی؟ ذرا سی بھی خودمختاری ہوتی تو ریمنڈ ڈیوس مکھن میں سے بال کی طرح باعزت طور پر رخصت نہ کردیا جاتا۔
جناب زرداری صاحب کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی واضح ہے۔ تعجب ہے کہ نہ حکمت ہے نہ عمل۔ بنیادی طور پر تو امریکی جنگ دہشت گردی میں شریک ہیں۔ ڈرون حملے خود مختاری کے خلاف ہیں تو بند کیوں نہیں کرواتے‘ خود مختاری بحال کیوں نہیں کرتے۔ ڈرون حملوں کے بارے میں صدر پاکستان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان سے ہتھیار ڈالنے والوں سے مذاکرات متاثر ہورہے ہیں۔ یعنی یہ خود مختاری کا معاملہ ہی نہیں۔

(بہ شکریہ اداریہ جسارت)