دورہ پاکستان:
آپ رحمہ اللہ اپنی حْسن قرائت کی وجہ سے کافی مشہور ومقبول تھے۔ چناچنہ ۱۹۶۶ء میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک عظیم بین الاقوامی محفل مقابلہ حسن قرائت میں شرکت کی جو پاکستان میں منعقد ہوئی تھی۔ علامہ ربیعی اور معروف مصری قاری شیخ عبدالباسط محمد عبدالصمد مشترکہ طور پر دوسری پوزیشن حاصل کر گئے اور پوری دنیا میں نائب قاری بن گئے (شیخ محمود الفخری کے بعد)۔ اس مقابلے میں بائیس قراء حضرات نے حصہ لیا۔ ایران واپس آکر انہوں نے ریڈیو کردی میں دینی پروگرام پیش کرتے رہے ساتھ ساتھ مسجد عماد الدولۃ اور اردبیلی اسکول میں تجوید و قرآن کی تعلیم میں مصروف ہو گئے۔
علمی سرگرمیاں:
ریڈیو میں دینی پروگرام کے علاوہ آپ نے ’’کرمانشاہ‘‘ کی جامع مسجد کی امامت وخطابت کا عہدہ سنبھال رکھاتھا۔ آپ (رح) کے دور خطابت میں کرمانشاہ کے عوام بڑی تعداد میں جامع مسجد آتے تھے یہاں تک کہ سڑکوں پر صفیں لگتی تھیں، چونکہ لوگوں کو آپ کے عظیم مقام کا احساس تھا اس لیے ان کے یہاں مسائل کے حل کیلیے عوام کا رش لگتا تھا۔
علامہ محمد ربیعی (رح) نے دیگر ممتاز کرد علماء کے شانہ بہ شانہ سیکولر اور آمر حکمرانوں کیخلاف جد وجہد میں حصہ لے رہے تھے تا کہ ایک اسلامی حکومت ملک میں قائم کی جاسکے۔
مرحوم علامہ ربیعی نے متعدد رسالے اور کتابیں تصنیف کرکے معاشرے کی خدمت کی۔ آپ کی پہلی کتاب ’’آئینہ اسلام‘‘ کافی مقبول ہے۔ الباقیات الصالحات‘‘ (آٹھ جلدوں میں) اور ’’ مالکیت در اسلام‘‘ بھی فارسی زبان میں ہیں۔
آپ رحمہ اللہ عربی، کردی اور فارسی میں حمد ونعت اور عرفان وسیاست کے بارے میں شعر گوئی فرماتے تھے۔ آپ کے اشعار دو دیوانوں میں جمع کردیے گئے، ’’چہار فصل‘‘ (۴۰۰۰ ابیات) اور ’’اردیبہشت‘‘ جو اب تک بوجوہ شائع نہیں ہوسکے۔
آپ (رح) کے سانحہ شہادت:
دسمبر ۱۹۹۶ء میں نامعلوم دہشت گردوں نے علامہ محمد ربیعی کو ان کے گھر پر گلہ دبا کر شہید کردیا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۶۳ برس تھی۔ اس وقت حکومت نے ان کی موت طبعی قرار دیکر حرکت قلب بند ہونے کو موت کی وجہ قرار دی لیکن بعد میں ثابت ہوا ان کی شہادت متعدد علماء ودانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ان ٹارکٹ کلنگز میں وزارت انٹیلی جنس کے بعض باغی حکام ملوث تھے۔
علامہ محمد ربیعی رحمہ اللہ کی پوری زندگی کرمانشاہ کے عوام کی خدمت میں گزری، آپ (رح) کی حیات مبارکہ کا ایک ایک صفحہ حلقہ درس، وعظ و ارشاد، تصنیف وتالیف یا پھر شاعری وکتابت سے خالی نہیں ہے۔ آپ (رح) نے تمام سنی مسلمانوں کیلیے بطور عام اور کرمانشاہ کے عوام کے لیے بطور خاص متعدد علمی واصلاحی شاہکار چھوڑ کر اس فانی دنیاسے کوچ کرگئے اور اللہ تعالی نے انہیں شہادت کے اعلی مقام سے نوازا۔
آپ (رح) کے بعض اہم علمی ودینی خدمات و آثار:
۱۔ متعدد گراں سنگ کتابوں کی تصنیف جس میں سے بعض کا تذکرہ اوپر گزر گیا۔
۲۔ تقاریر کا گلدستہ جو کیسٹوں میں دستیاب ہے۔
۳۔ کردی ثقافت وزبان کے احیاء کیلیے کاوشیں۔
۴۔ صحیح اسلامی افکار کے رونق وترویج اور بدعات وخرافات سے مقابلہ۔
۵۔ تین زبانوں میں دو دیوان اشعار۔
۶۔ ایک قومی کردی مکتبہ کی بنیاد کا آئیڈیا جس میں انگریزی جیسی عالمی زبانوں کی تدریس کا سلسلہ شامل تھی۔
۷۔ عالم اسلام کے نامور علمائے کرام کو جامع مسجد امام شافعی (رح) میں تدریس کی دعوت۔
۸۔ آزادی بیان و رائے کے لیے تلاش۔
۹۔ سیاسی فساد اور آمریت کیخلاف جد وجہد۔
۱۰۔ غریب، نادار اور یتیموں سے تعاون کے لیے ایک خیراتی ادارے کی تاسیس۔
اللہ تعالی آپ کی شہادت وخدمات قبول فرما کر جنۃ الفردوس میں آپ کو اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
SunniOnline.us/urdu