- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ہرحال میں مردوخواتین عفت کاخیال رکھیں، مولاناعبدالحمید

molana_13خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے اس جمعہ کے خطبے کا آغاز سورۃ النور کی آیت نمبر ۱۷ سے کیا۔ حضرت شیخ الاسلام نے حیا وعفت اور معاشرتی آداب کے بارے میں اہم نکات پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر قرآن پاک میں فساد و فحشا اور گناہ تک پہنچانے والے اعمال سے منع کیا ہے۔ قرآن نے زنا کے بارے میں تفصیلی احکام ومسائل بیان کرکے اس کی قباحت واضح کردی ہے۔ اسلام نے اس انتہائی قبیح عمل سے سختی کیساتھ مقابلہ کیا ہے اور معاشرے کو اس ناجائز حرکت سے محفوظ رکھنے کیلیے احتیاطی تدابیر کا بھی حکم دیا ہے۔
زنا سے بچاؤ کیلیے تدابیر کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا پہلی تدبیر یہ ہے کہ نظریں نیچی رکھی جائیں، نگاہ فساد اور گناہ کا پہلا سبب ہے۔ حدیث شریف میں ایسی نگاہ کو شیطان کا تیر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے: ’’قل للمؤمنین یغضوا من أبصارہم۔۔۔‘‘ مؤمنوں سے کہہ دیجیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
اسلام کا حکم ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کو شہوت کی نظروں سے مت دیکھیں، پہلی نظر جب غیر اختیاری ہو معاف ہے لیکن دوبارہ دیکھنا حرام کام ہے جو خطرے سے خالی نہیں۔ ہر حال میں عفت وحیا کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ حدیث شریف میں آتاہے جس شخص کی نظر جنس مخالف پر پڑگئی اور اسے لذت محسوس ہوئی مگر اس نے نظر نیچے کرکے حیا سے کام لیا اللہ تعالی اسے عفت وپاکیزگی عطا فرمائے گا۔
بعض معاشرتی آداب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا سورۃ النور میں اللہ تعالی نے ’’استیذان‘‘ کے مسئلے کو بیان فرمایاہے۔ کسی شخص کو بغیر اجازت کے کسی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یہ اسلامی ادب یورپی ومغربی معاشروں کا حصہ بن چکاہے مگرافسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشروں میں اس پر صحیح عمل نہیں ہوتا۔ بعض لوگ صرف ’’یا اللہ‘‘ کہہ کر گھس جاتے ہیں، یہ اجازت طلب کرنا نہیں بلکہ باقاعدہ اجازت طلب کرنی چاہیے، اجازت ملنے کے بعد کسی کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اجازت طلب کرکے صحابہ کرام کے گھر جاتے تھے، جب تک اجازت نہ ملتی دروازے پر باہر کھڑے رہتے۔
اجازت مانگتے ہوئے تین مرتبہ یہ عمل دہرانا چاہیے۔ درمیان میں وقفہ کرنا چاہیے۔ بعض لوگ دروازہ کھٹکٹاتے ہوئے یا بل بجاتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھاتے جب تک دروازہ نہ کھلے، اگر کوئی نماز میں مصروف ہو یا کسی اور کام میں تو وہ فوراً دروازے کی جانب دوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہوتے ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا اگر گھر کے اندر سے آواز آئی کہ آپ کون؟ آپ اپنا نام بتائیں، اپنا تعارف کرائیں، یہ نہ کہیں کہ ’’ میں ہوں! ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ تعارف کے بعد سلام کہنا چاہیے جو اجازت کے لیے ہے۔ گھر داخل ہونے کے بعد دوبارہ سلام کرنا چاہیے۔ آج کل سلام علیکم کی جگہ ’’صبح بخیر‘‘ وغیرہ نے لیاہے۔ لیکن جو معنی و مفہوم ’’سلام‘‘ میں ہے وہ کسی اور لفظ میں نہیں ہے۔

استیذان کیوں ضروری ہے؟
اس سوال کے جواب میں مولانا عبدالحمید نے کہا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نگاہیں محفوظ رہیں گی۔ حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (رض) کے جواب میں فرمایا کہ اپنی والدہ کے گھر داخل ہونے سے پہلے بھی اجازت طلب کرنی چاہیے، کیا آپ کو پسند ہے کہ اپنی والدہ کو برہنہ حالت میں دیکھو؟ اس لیے ضرور اجازت مانگو۔
اس لیے آپ اپنے ہی ذاتی گھر میں جب داخل ہوتے ہیں تو کسی طرح مثلا یااللہ کہہ کر یا گلہ سے کوئی آواز نکال کر اپنی آمد کی اطلاع دیدیں، شاہد بیوی ایسی حالت میں ہوکہ شوہر اسے اس حال میں دیکھنا پسند نہ کرے یا اْسے پسند نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا البتہ عوامی مقامات میں جاتے ہوئے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ مسجد، اسکول، اسپتال یا سرکاری ادارے، لیکن کسی خاص دفتر میں جانے سے قبل اجازت طلب کرنا چاہیے۔ یہ سب اسلام کی خوبصورت تعالیم ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
خواتین زیب و زینت کو نامحرموں کیلیے ظاہر نہ کریں، لباس، جیولریز اور میک اپ سب صرف محرم مردوں کے سامنے ظاہر کیے جاسکتے ہیں، ان سب کو مناسب چادر سے چھپانا چاہیے پھر غیر محرموں کے سامنے ضرورت کے وقت نکلنا چاہیے۔ بوقت ضرورت نامحرم مردوں سے بات کرتے ہوئے خواتین اپنی آواز باریک نہ بنائیں بلکہ پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انقلاب تیونس کاپیغام: فوجیں نہیں ’انصاف‘حکومت کی بقاکے ضامن
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں جامع مسجدمکی کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا تیونس کے غیورعوام نے ظلم وجبر کیخلاف انقلاب برپاکرکے پوری دنیاکے جابرحکمرانوں کو واضح پیغام دیاہے، کوئی بھی حاکم فوج اور مسلح اداروں کے بھروسے پر اپنی حکومت برقرار نہیں رکھ سکتی۔ حکومتوں کی بقا کیلیے انصاف کی فراہمی اور عوام کیساتھ عدل وانصاف والا رویہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے تیونسی عوام کی بہادری کو داد دیتے ہوئے مزید کہا تیونسی عوام نے اتحاد واتفاق اور بہادری سے کام لیتے ہوئے ایک ایسی حکومت کو برطرف کردیا جو ان کی بات سننے کیلیے بھی تیار نہ تھی۔ تیونس میں حقیقی معنوں میں ’عوامی اقتدار‘ کامظاہرہ ہوا جو تمام جابر وآمر حکمرانوں کیلیے، بشمول مسلم وغیرمسلم حکام کے، صریح وارننگ ہے۔ ایسے حکمران اگر عوامی مطالبات کو نہیں مانیں گے تو ان کا انجام ’بن علی‘ کے انجام سے مختلف نہیں ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے تاکید کی جو حکومت عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آتی ہے اسے عوام کی خدمت کرنی چاہیے، ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش ان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی کی مشیت وہی ہے جو عوام کی چاہت ہوتی ہے۔ جب خدا کی مشیت پرعمل ہو تو عوامی مطالبات بھی پورے ہوجائیں گے، خاص طور پر جب وہ قوم مسلمان بھی ہو۔
عوامی مطالبات ومسائل سے غافل حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے نامور سنی رہنما نے مزیدکہا تیونس کے عوامی انقلاب نے ثابت کردیا اسلحہ کے زور پر حکومت نہیں کی جاسکتی، فوجیں بقائے اقتدار کے ضامن نہیں ہوسکتیں، اس لیے تمام حکمران خاص طور جابر وڈکٹیٹر حکام عوام کی رضامندی اور عدل وانصاف کو مدنظر رکھیں اور خدا اور اس کے بندوں کے قہر و غضب سے ڈریں، کوئی بھی حکومت اللہ تعالی اور لوگوں کے غضب وغصے کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا آج تمام عرب حکام خوفزدہ ہیں، تیونس کے عوامی انقلاب نے انہیں ہلاکر رکھ دیاہے، انہیں خوف ہے کہیں تیونس طرز کے مظاہرے ان کے ملکوں میں شروع نہ ہوجائیں۔ یہ صورتحال بلوچی ضرب المثل کے بالکل مصداق ہے کہ ’’بدنصیب آدمی کے بھیڑ کو بھیڑیا کھاتاہے، خوش نصیب آدمی چوکنا ہوجاتاہے۔‘‘ بن علی کے بھیڑ کو ’’بھیڑیا‘‘ نے کھالیا اب دیگر حکمران ہوش کے ناخن لیں کہیں ان کے بھیڑ کی باری نہ آئے۔